میں گولی کس کو ماروں

 میرا آج ،بجلی کا بل دیکھتے ہی، پارہ یکدم بہت زیادہ چڑھ گیا۔ ہم ویسے دھیمے مزاج کے، خاموش طبع آدمی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی غصہ آ ہی جاتا ہے۔ باہر ہمیں اکثر غصہ نہیں آتا ، یا اگر آتا ہے تو ہم فوراً پی جاتے ہیں۔ لیکن کمزور لوگوں کے لئے گھر میں غصہ پینا مشکل ہوتا ہے۔ کیوں کہ غصے کو جب کوئی آساں اخراج مل رہا ہو تو وہ ضرور اپنا آپ دکھاتا ہے۔ ہم نے بھی وہ آیا ہوا غصہ بچوں پر نکالا ۔ ان کی ماں پر ہم غصہ نہیں نکالتے کیوں کہ ایسا کرنا ہمیں بہت مہنگا پڑتارہا ہے اور انسان اپنی شدیدقسم کی غلطیاں اکثر نہیں دہراتا۔ لینے کے دینے پڑ جانے والا کام نہ کرنے میں ہی بھلا ہے۔

اس بے ضبط غصے میں میرا دل کیاکہ میں میٹر ریڈر کو گولی مار دوں۔ اسے کہیں تلاش کروں یا اگلی دفعہ اس کے میٹر ریڈ کرنے آنے کا انتظار کروں۔لیکن اتنا لمبا صبر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میرا دل تو چاہتا ہے کہ میٹرریڈر میرے سامنے آئے اور میں اس کی کنپٹی پر گولی ماروں، اندھا کہیں کا ۔ اسے ریڈنگ پڑھنی نہیں آتی۔ تین ، تین سو یونٹ زیادہ لکھ کے لے جاتا ہے۔ سات سو کی بجائے سات ہزار کا بل آتا ہے۔ہم تو ڈر کے مارے اے۔ سی بھی نہیں چلاتے کہ بل کہیں زیادہ نہ آ جائے اگر چہ وہ اے۔سی میری گھر والی کے گھر والوں نے اسے دیا تھا۔ اس کے باوجود یہ بدمعاشی ہم شریف لوگ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔چلیں سو ، دو سو کی ’ پھٹیگ‘ انسان برداشت کر ہی لیتا ہے، لیکن ہزاروں روپے کا بلا جواز اپنی جیب سے نکال کر دوسروں کی جیب میں ڈالتے ہوئے دل کو واقعی کچھ ہوتا ہے۔میٹر ریڈر کو گولی ماروں یا اس کے ایس۔ ڈی ۔ او کو ۔ ہو سکتا ہے کہ اس بے چارے میٹر ریڈر کو اس کے ایس۔ ڈی ۔ او نے کہا ہو کہ اس بار بیلنس کرنے کے لئے یونٹ زیادہ ڈالنے ہیں۔ اس لئے گولی کا زیادہ حقدار میٹر ریڈر کی بجائے اسکا ایس۔ ڈی ۔ او ہے۔ اسے تلاش کر کے گولی مارنے کا زیادہ ثواب ہو گا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایس ۔ڈی ۔ او کو اس کے ایکسیئن نے کان میں پھونک ماری ہو کہ اس بار بھی یہ کرنا ہے۔اور وہ پھونک کانوں کان میٹر ریڈر تک آئی ہو۔ اور کیا معلوم منتھلی کا یہ سلسلہ کہاں تک پہنچتا ہو۔بے چارہ میٹر ریڈر تو ناحق میرے ہاتھوں مارا جائے گا۔اس کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہوں گے۔ وہ بھی تو ایک چھوٹا ملازم ہے۔کسی بڑے آفیسر کو گولی ماری جائے۔ اسے گولی مارنے کا زیادہ ثواب ہو گا کیوں کہ وہ گولی کا زیادہ مستحق ہے۔ لیکن پھر گورنمنٹ اس کی فیملی کے لئے ایک خطیر رقم کا اعلان کر دے گی، اور وہ بھی سرکاری خزانے پر بوجھ بنے گا۔اور پھر وہ بوجھ گدھے جیسی تابع دار عوام پر پڑے گا۔ کیا فائدہ ؟

میرا خیال ہے کہ ملک کی تمام تر کرپشن کی ذمہ وار حکومت ہوتی ہے اور حکومت سیاست دان چلاتے ہیں۔ اس لئے کسی سیاست دان کو گولی کا نشانہ بنایا جائے تا کہ میں جو بس ایک آدھ گولی چلا سکوں گا اس کا نشانہ کوئی بڑا آدمی، نہ کہ انسان، بنایا جائے۔ اور کسی بھی ملک کا سب سے بڑا آدمی سیاست دان ہوتا ہے جو کہ میڈیا پر راج کرتا ہے اور میڈیا اس کی پل پل کی خبر نشر کرنا اپنا صحافتی فریضہ سمجھتا ہے۔ اس لئے میرا غصہ وقت کی بڑے نامور سیاست دانوں کی طرف منتقل ہو گیا ۔ ان کے جلسے جلوس تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس لئے کسی موقع کی تلاش میں صبر کر لیتے ہیں اور جیسے ہی کوئی سیاست دان ہتھے چڑھ گیا’ٹپا‘ دیں گے۔سیاست دان کو مارنے کا دوہرا فائدہ ہے : ایک تو انسان کی عاقبت سنور جاتی ہے اور دوسرا اس کا نام ملک کی تاریخ کے کے معروضی سوالوں میں شامل ہو جاتا ہے۔پھر ریسرچر اس پر کتابیں لکھتے ہیں اور میڈیا اس کا خوب چرچا کرتا ہے۔ مثبت چاہے منفی:
کیا نام نہ ہو گا، بد نام جو ہوں گے

لیکن کسی سیاست دان کو بڑے اجتماع میں گولی مارنا آسان نہیں۔ ہو سکتا ہے گولی چلے ہی نہ اور آدمی پکڑا جائے، پھر اس کی پارٹی کے لوگ جو درگت بنائیں گے اس کا سامنا کون کرے گا۔ وہاں سے چھڑانے کون آئے گا۔ اس صورت میں تو مفت کی بد نامی ہو گی، پٹائی بہت زیادہ، اور تاریخ میں نام بھی نہیں لکھا جائے گا۔ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اور پھر میرا کسی خاص سیاست دان سے کوئی ذاتی عناد بھی تو نہیں ۔ وہ بچارے اپنے ’سیاپے‘ کو پڑے رہتے ہیں اور ہم اپنی بپتا کہے چلا جاتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے رونے ہی تو رو رہے ہیں۔ میرے پستول کے ٹریگر پر سے انگلی ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔ اور میں مذید سوچتا ہوں کہ گولی کس کو ماروں۔

میرا غصہ چوں کہ کم نہیں ہو رہا اس لئے کسی نہ کسی کو تو گولی مارنی ہی پڑے گی۔ میرا خیال ہے کہ بازار چلا جاؤں اور وہاں اندھا دھند فائرنگ کر دوں جس کی قسمت میں ہو گی گولی اسی کو لگے گی۔بڑے برے برے لوگ بازار آتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ میرے گولی چلانے سے کوئی اچھا مقصد حاصل ہو جائے۔ ایک بھی برا آدمی دنیا سے اگر رخصت ہو گیا تو گولی چلانے جیسا کارِ ثواب اور کیا ہو گا۔لیکن بازار میں تو بہت سی نوجوان دوشیزائیں بھی آتی ہیں جن سے سارے بازار میں رونق ہوتی ہے ۔اگر خدا نخواستہ گولی ان میں سے کسی کو لگ گئی ، تو کیا بنے گا۔ ایک تو گولی کے ضائع ہونے کا غم اور دوسرا کسی رشکِ حور کا دنیا سے چلے جانے کا صدمہ۔ یہ صدمہ تو ہمارا دل کبھی بھی بھول نہیں پائے گا ۔ اس طرح جیل کی زندگی دوہرا عذاب بنے گی۔ ایک گولی ضائع ہونے کا غم اور دوسرا ایک حسن کی کان کے مٹی ہونے کا رنج۔ کیا فائدہ۔ اس طرح کی گولی باری کرنا تو پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہونا ہے۔

اگر انسان کسی کو گولی نہیں مار سکتا اور اس کا غصہ بھی کم ہونے کا نام نہ لے رہا ہو تو اکثر اپنے آپ ہی کو اس گولی کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ یہی صورتِ حال ہمارے ساتھ پیش آتی لگتی ہے۔ کیوں نہ میں خود ہی کو گولی مار لوں۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری:
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی ،کہاں کی غزل

جب ہم خود ی ہی ختم ہو جائیں گے، تو دنیا میں جیسے مرضی زیادہ بل آتے رہیں ، ہمیں کیا۔دنیا کے’ جنجال پورے ‘سے نجات ملے گی اور ہوسکتا ہے ہمارے استقبال میں کچھ حورانِ جنت محوِ انتظار کھڑی ہوں، جن کے ملنے سے ہمیں دنیا کے سب رنج و الم یک بارگی بھول جائیں۔لیکن ہم نے اپنا کیا بگاڑا ہے کہ ہم اپنے آپ کو گولی ماریں۔ ہم تو ہمیشہ اپنے خیر خواہ ہی رہے ہیں۔ اس طرح اپنے آپ کو بے دردی سے قتل کر دینا کسی طرح بھی معقول بات نہیں لگتی۔ لگتا ہے ہم اپنے آپ کو بھی گولی نہیں مار سکیں گے۔نہیں بالکل نہیں ماریں گے۔ آخر ہم ایک پر امن شریف شہری ہیں لیکن شرفا کی برادریوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہم تو خود ساختہ لوگ ہیں۔لیکن سوال پھر اپنی جگہ برقرار ہے کہ میں گولی کس کو ماروں۔

کیوں نہ انسانوں سے گناہ اور برائیاں کرانے والے شیطان کو ہی گولی مار دی جائے۔ہاں وہ نامراد سب سے زیادہ گولی بلکہ گولے کا حقدار ہے کہ سب برائی اسی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اسے گولی مار کر انسانوں کی سب سے بڑی خدمت ہو جائے گی۔ اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو گی کہ برائی کا سدِ باب ہی ہو جائے۔ لیکن وہ مجھے کہاں ملے گا: عدالتوں کے احاطے میں، بڑے بڑے ہوٹلوں کے خفیہ کمروں میں، سیروسیاحت کے ساحلوں پے،سینما گھروں میں، عبادت گاہوں میں،درسگاہوں میں، ہسپتالوں میں، پارلیمنٹ کے ایوانوں میں، قحبہ خانوں میں،یا کسی کی نظروں میں، یا کسی کے دل میں، یا کسی کے دماغ میں، یا کسی کے سینے پے یا کسی جسم کے وسط میں۔ اسے ملنا شاید مشکل نہیں اور شاید آسان بھی نہیں اور شاید ممکن بھی نہیں۔ وہ جہان ملے گا کسی انسان کے لباس میں ملے گا۔ اسے گولی ماروں گا تو گولی انسان ہی کو لگے گی۔ جسے میں مارنا نہیں چاہتا۔ تو پھر کیا کروں۔ میں گولی کس کو ماروں۔

کیوں نہ میں اس غصے ہی کو گولی مار دوں۔ جو مجھے کسی کو گولی مارنے کی طرف مائل کر رہا ہے۔ اور شاید یہی سب سے اچھا مشورہ ہے۔ انسان ،انسان ہے کوئی فرشتہ نہیں۔ انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے اس میں انسانی رویئے آ ہی جاتے ہیں۔ انسان میں ستر فیصد شیطان غالب ہے لیکن تیس فیصد فرشتہ بھی ہے۔یہ معاشرہ کبھی مثالی نہیں رہا اور اگر کبھی رہا بھی ہے تو بہت تھوڑے عرصے کے لئے۔ یہاں زیادہ برائی ہی کا راج رہا ہے اور آئندہ کا بھی یہی دستور نظر آ رہا ہے۔ اس لئے یہاں رہنے کا بہتریں فلسفہ’ عدم توقع اور غالب توقع‘ ہے یعنی دوسروں سے اچھائی کی کم سے کم توقع رکھی جائے اور دوسروں سے خرابی کی زیادہ سے زیادہ توقع رکھی جائے اور اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہا جائے تا کہ جب کبھی بجلی کے بل زیادہ آ جائیں تو ہم یہ نہ سوچتے پھریں کہ’ میں گولی کس کو ماروں‘۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284027 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More