سانحہ منیٰ اور سوگوار عالمِ اسلام . .!!

سعودی حکومت کی عازمین حج کی خدمات قابلِ ستائش ہیں...
سانحہ منیٰ پر سعودی حکومت کو تنقیدکا نشانہ بنانابے مقصد اور مضحکہ خیز ہے...
اگلے سال سعودی حکومت دوران حج منیٰ دیگرجذباتی اور رش والے مقامات پر الجزائری افریقی و انڈونیشین عازمین حج کو کنڑول کرنے کے لئے اِن ممالک کی فوج تعینات کرے۔

ابھی اُمتِ مسلمہ جمعہ 11ستمبرکو سرزمین مقدس سعودی عرب میں حرم شریف کے توسیعی کاموں کے سلسلے میں کئی سالوں سے نصب سب سے بڑی اور اُونچی کرین کے گرنے کے ناگہانی واقعے میں پاکستانیوں سمیت 107عازمین حج کی شہادت اور متعدد کے زخمی ہونے کے غم سے نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ سانحہ کرین کے ٹھیک چودہ روزبعد جمعرات 24ستمبر کو فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران مکہ مکرمہ کے نواحی علاقے منیٰ میں ’’رمی‘‘جمرات کے موقع پر بھگدڑ سے ایک اورایساواقعہ رونماہوگیاجس نے عالمِ اسلام کو سوگوارکردیااِس المناک واقعہ میں پاکستانیوں سمیت 717حجاج شہید جبکہ 863زخمی ہوگئے(یہاں یہ تفصیل اب تک آنے والی اطلاعات کے مطابق ہیں ممکن ہے کہ آنے والے دِنوں میں شہید اور زخمی ہونے والے حجاج اکرام کی تعداد میں کمی بیشی ہوسکتی ہے اگرچہ اِن سطورکے رقم کرنے تک سانحہ منیٰ میں شہیدہونے والے پاکستانی عازمین حج کی تعداد 28کے قریب پہنچ چکی ہے اور ابھی پونے تین سوکے لگ بھگ پاکستانی عازمین حج کاکچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ، یہاں پاکستان اور وہاں سعودی عرب میں قائم پاکستانی سفارتی عملہ پاکستانی عازمین کی تلاش میں مصروف ہے اِنہیں جیسے جیسے اپنے لاپتہ پاکستانی عازمین کاعلم ہوتاجارہاہے وہ اِس کی اطلاع دے رہے ہیں)۔

بہرحال..!!سرزمین مقدس سعودی عرب سے آنے والی خبروں کے مطابق 24ستمبر بروزجمعرات کو منیٰ میں جمرات کے موقعے پر بھگدڑ کا یہ المناک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب حاجیوں کی بڑی تعدادشیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے شارع نمبر204اور223سنگم پر موجودتھی خبر ہے کہ اِس دوران گرمی اور حبس کی وجہ سے بہت سے عازمین حج گرگئے اور بے ہوش ہوگئے جس سے منیٰ میں جمرات کے موقع پر بھگدڑکا المناک واقعہ پیش آیا اِس دوران بہت سے عازمین حج کچلے جانے سے انتقال کرگئے اِس حادثے میں شہید ہونے والے الجزائری عازمین حج کی بڑی تعدادہے اوراطلاعات ہیں کہ بہت سے ممالک کے عازمین حج اِس واقعے میں زخمی ہوئے ہیں جنہیں علاج ومعالجے کے لئے سعودی عرب کے معروف اسپتالوں میں داخل کردیاگیاہے جہاں زخمی ہونے والے عازمین حج کا علاج سعودی عرب کے شہنشاہ شاہ سلیمان کی خصوصی ہدایات پر کیا جارہاہے اور جوعازمین حج سانحہ منیٰ میں پیش آئے واقعے میں شہید ہوگئے ہیں اُن عازمین حج کی تدفین جنت المالااورجنت المعلیٰ میں کی جارہی اور جیسے جیسے قانونی دستاویزات مکمل ہوتے جارہے ہیں مزیدشہید ہونے والے عازمین حج کی تدفین مکہ مکرمہ کے مقدس قبرستانوں کی جارہی ہے۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ہر سال اپنے یہاں مختلف ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے عازمین حج کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے اور اِس سے بھی انکارنہیں ہے کہ سعودی حکومت اِس سلسلے میں کوئی کسرنہیں اُٹھارکھتی ہے مگر پھر بھی دنیابھر سے لاکھوں کی تعداد میں اِس سرزمینِ مقدس آنے والے عازمین حج کی خدمت میں کوئی نہ کوئی لوزپوائنٹ ایسا رہ ہی جاتاہے جو کسی نہ کسی ایسے حادثے کاسبب بنتاہے جس سے اِنسانی جانوں کا ضیاع ہوتاہے ۔

حالانکہ سعودی عرب کی حکومت اپنے تمام تر وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے یہی کوشش کرتی ہے کہ اِس کے انتظامات ہر لحاظ سے فول پروف ہوں مگرایسے میں پھربھی کسی حادثے کی صورت میں ...کسی کا یہ کہناکہ سعودی عرب کی حکومت عازمین حج کو بہترسہولیات مہیاکرنے میں کام رہی ہے تو یہ زیاتی ہوگی اُس حکومت کے ساتھ جو سال کے بارہ مہینوں میں روزانہ دنیابھر سے آنے والے ہر عمرکے مجموعی طورپرلاکھوں اور کروڑوں عازمین عمرہ اورسالہاسال آنے والے لاکھوں عازمین حج کی خدمت کے لئے اپنے مثالی انتظامات اور اقدامات میں پیش پیش رہتی ہے اگراِس کے باوجود بھی کوئی ناگہانی حادثہ موسمیاتی تبدیلی یاکسی ملک کے غیر سنجیدہ ، غیر تہذیب یافتہ اور جذباتی اور جلدبازعازمین حج وعمرہ (لوگوں )کی وجہ سے پیش آجائے تو اِس کا الزام سعودی عرب کی حکومت پر ڈال دیاجائے تو یہ کچھ ٹھیک نہیں ہے ایساہرگزنہیں ہے کہ اِس سال سعودی حکومت نے دنیابھرسے آئے ہرعمر کے عازمین حج کی سہولیات باہم پہنچانے کے لئے اپنے انتظامات اور خدمات میں کوئی کسرچھوڑی ہوگی ۔

آج سانحہ منیٰ کو جن ممالک کے لوگ سعودی حکومت کے ناقص انتظامات سے نتھی کررہے ہیں اِنہیں ایساکہنے ، کرنے اورسعودی حکومت پر بے مقصدکے الزامات لگانے والے ممالک کے لوگوں کو پہلے سعودی حکومت کے اُن تمام حقائق اور انتظامات و خدمات کا ضرورجائزہ لیناچاہئے جو سعودی عرب کی حکومت اپنی سرزمین پر سالہاسال لاکھوں کی تعداد میں آنے والے ہر عمرکے عازمین حج و عمرہ کے لئے کرتی ہے۔

لہذاآج ضرورت اِس امر کی ہے کہ جن ممالک کے لوگ عازمین حج و عمرہ کی خدمات اور سہولیات کے لئے سعودی عرب کے انتظامات اوراقدامات کو اپنے کسی بغض کی وجہ سے تنقیدکا نشانہ بنارہے ہیں اِن کا یہ عمل بے مقصد اور انتہائی مضحکہ خیزہے اورآج جو لوگ سانحہ منیٰ کا موازانہ کسی اپنے فرقے اوردیگر مذاہب کے تہواروں اور اجتماعات سے کررہے ہیں اوروہ اپنی گردنیں تان کر اور اپنے سینے پھولاکریہ کہہ رہے ہیں کہ اِن کے یہاں اور وہاں ایساکبھی نہیں ہوا ہے جیساکہ اکثر سعودی عرب میں دوران حج ہوتاہے تواِنہیں ایسا کہنے اور کرنے سے اجتناب کربرتناچاہئے اور سعودی عرب سے اپنے کسی بغض اور کسی کینہ پروری کی وجہ سے سعودی حکومت پر تنقیدوں کے تیرچلانے والے دنیاکے بہت سے ممالک اور دانشوروں کو اِس بات پر ضرورغورکرناچاہئے کہ سانحہ منیٰ جیسا کوئی بھی اور کیسابھی ناگہانی حادثہ کہیں بھی کسی بھی وقت پیش آسکتاہے اِنہیں کسی بات پر تکبراور گھمنڈنہیں کرناچاہئے کیونکہ سانحہ منیٰ جیسے کسی بھی حادثے پر کسی کا کوئی اختیارنہیں ہوتاہے۔

بہرکیف ..!!اَب میں اپنے کالم کے اختتام پر بالخصوص سعودی عرب کے عزت مآب محترم المقام جناب شاہ سلیمان اور سعودی حکومت سمیت سرزمینِ مقدس( سعودی عرب) میں عازمین حج وعمرہ کے خدمات کے لئے سہولیات باہم پہنچانے والی انتظامیہ کے ذمہ داران کو اپنایہ مشورہ دیناچاہوں گاکہ اگر سعودی عرب کی انتظامیہ عازمینِ حج اور عازمینِ عمرہ کے لئے کئے جانے والے اپنے انتظامات اور اقدامات میں اِن ممالک جن میں الجزائری، انڈونیشین، افریقی،بھارتی ، بنگلہ دیشی اور پاکستانی جذباتی عازمین عمرہ حج شامل ہیں اِنہیں کنٹرول کرنے کے لئے جہاں سعودی حکومت عربی بولنے والی اپنی فورسز اور رضاکاروں کی خدمات حاصل کرتی ہے تووہیں سعودی عرب کی حکومت کو چاہئے کہ وہ اِن ممالک کے بدقسمتی سے ذرا سے جذباتی اورجلدباز عازمین حج و عمرہ کو کنٹرول کرنے کے لئے ضرورت کے مطابق اِن ممالک کی اِن کی زبان بولنے والی فوج سے مددلے اور منیٰ اوررمی و جمرات جیسے رش اور جذبات کو بے قابو کردینے والے مقامات پراِن ممالک کی فوج کی بڑی تعداد کے دستے تعینات کرے جو سعودی عرب کی پولیس ، فوج اور رضاکاروں کے ساتھ مل کر اپنے اپنے ممالک کے جذباتی عازمین حج کوٹھیک طرح سے کنٹرول کرے تاکہ اِن ممالک کے عازمین حج اپنی فوج کی زبانیں سمجھیں اور اِن کے خوف سے اپنے جذبات اور اپنی جلدبازی کو قابومیں رکھیں۔

اور اِسی کے ساتھ ہی میں یہاں سعودی حکومت کو یہ بھی کہناچاہوں کا کہ کیا ایساممکن ہوسکتاہے کہ سانحہ منیٰ کے وجہ بننے والے غیرسنجیدہ اور جلدباز اور رمی و جمرات کے مقامات سمیت دوران حج دیگر فریضہ حج کی ادائیگی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے والے موٹے موٹے قدآور الجزائری ، انڈونیشین اور افریقی عازمین حج کے لئے شیطان کو کنکریاں مارنے اور طواف و سعی کے لئے مخصوص اوقات اور ٹریک مختص کردیئے جائیں اور اِنہیں اِس کا سختی سے پابندبھی بنایاجائے کہ یہ اِسی کے انداررہ کر اپنافریضہ حج اداکریں اور اِس کی خلاف ورزی کرنے والے کو اِن ممالک کی فوج سعودی فوج کے ساتھ مل کر وقت سزادے تاکہ آئندہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ کرے جو اِن کیغیر سنجیدہ طبیعت اور خصلت کی وجہ سے کسی بڑے سانحہ کا سبب بنے اور پھر کسی کی غلطی کی وجہ سے کئی معصوم اور کمزورعازمین حج القمہ اجل بن جائیں اور سیکڑوں زخمی ہوکر اسپتالو ں زیرعلاج ہوجائیں تو پھرکوئی کسی کی غلطی کا سارا الزام سعودی عرب کی حکومت کے سردے مارے اور اچھی بھلی سعودی حکومت کسی کی ذراسی غلطی اور جلدبازی کی وجہ سے دنیابھر میں فضول کی تنقیدوں کا نشانہ بنتی جائے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 887833 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.