ابا جی

جون 2007 میں فیصل آباد جیل چکی نمبر 8 میں قیدی تھا بسلسلہ بحالی جمہوریت آمر وقت مشرف کا دور تھا گرمی حبس گھٹن ایک شدید ترین مصیبت کا دور تھا ڈاکٹر دین محمد فریدی صاحب وقتاً فوقتاً والد محترم کے پاس دل جوئی کیلئے چکر لگایا کرتے تھے ایک دن کہنے لگے کہ شاہ صاحب فکر نہ کریں پریشان نہ ہوں کچھ نہیں ہوگا تو والد صاحب فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب اسلام کیلئے صرف ایک علی حسنین چشتی نہیں میں اپنے باقی 7 بیٹے بھی قربان کرسکتا ہوں ہم تو پیدا ہی قربان ہونے کیلئے ہوئے ہیں۔ بقول محسن نقوی
عشق محسن ہمیں مقتل میں پکارے تو سہی
پابہ زنجیر چلے آئیں گے چھن چھن کرتے

دنیا کا ہر بیٹا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا باپ دنیا کا عظیم ترین انسان ہے اچھی اولاد سے یہی توقع ہوتی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ باپ کی قربانیاں محبت اور اچھی نیک تربیت اولاد کے دل میں اس کی عظمت کا روشن مینار تعمیر کرتی ہے کھارون ضلع انبالہ میں ہمارا خاندان سینکڑوں سال سے رہائش پذیر تھا مدینے سے کربلا کربلا سے بخارہ بخارہ سے ایران اور ایران سے ہندوستان انبالہ پاکستان بننے کے بعد انبالہ سے لٹتے لُٹاتے لاہور پھر لاہور سے پنجگرائیں اور بھکر مقام ٹھہرا ہجرتوں کا سلسلہ اب بھکر موجود ہے یہاں سے پتہ نہیں کیا بنے گا 3یا 4 سال کی عمر تھی کرب تکلیف اور مصیبت کا دور شروع ہوا تو ایسا مزا آیا کہ تمام عمر والد صاحب نے ان کا اور انہوں نے والد صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بقول شاعر
اک نام کیا لکھا تھا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی

ان کا نام بھی شوکت حسین شاید اسی لئے رکھا گیا تھا کہ تمام عمر شان و شوکت سے رہیں 12سال کی عمر میں والد محترم پیر سید محمد علی شاہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا یتیمی کی ایک اور گٹھڑی کمزور جسم پر آگری بڑے بھائی سید اقبال حسین کے زیر سایہ وقت گزرا کبھی مشکل کبھی تکلیف کبھی کچھ سکون کے لمحات میسر آئے لیکن سختیوں کا مقابلہ کیا مخدوم اہلسنت حاجی سید عارف حسین قدوسی کے ساتھ ہمیشہ سے محبت رکھتے تھے بھائی کی محبت آخری وقت تک وفاداری سے کرتے رہے ان کے ساتھ مل کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے تمام عمر اپنے عقیدے پر سختی سے قائم رہے مگر دوسروں کے عقائد و مسالک کا دل سے احترام کرتے رہے اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی اور خاندانی طور پر مجلسی فطرت کے حامی تھے دوستوں کی مجلس کے بغیر ان کی زندگی دشوار تھی وہ شدید محبت یا پھر محبت نہ ہونے کے قائل تھے منافقت نہ ان کی فطرت میں تھی نہ ان کے لہجے اور سوچ میں جو بات کرتے ٹھوک بجا کر کرتے تھے ہر اسلامی اور جمہوری تحریک میں ان کا حصہ تھا تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھرپور کردار ادا کیا سیاسی طور پر مخدوم اہلسنت کی ہر بات ان کیلئے حرف آخر تھی اپنے نسب و خاندان اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ فخر کرتے تھے گھر سے دکان تک جتنے بھی دوست احباب ملتے بے تکلفی سے بات چیت کرتے حال احوال پوچھتے رستے میں کئی جگہ سٹاپ مقرر کررکھے تھے ساتھی انتظار میں بیٹھ جاتے کئی کئی گھنٹے مسئلے سنتے اور ان کے حل کیلئے سوچ بچار کرتے مذاہب عالم اور مسالک پر بے پناہ مطالعہ تھا تصوف پر عمیق نظر تھی سلسلہ چشتیہ نظامیہ و صابریہ کے بہت بڑے مفکر تھے کوئی درگاہ ہی شاید بچی ہو جہاں انہوں نے حاضری نہ دی ہو محبتیں تقسیم کرتے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا چرچا کرتے تمام عمر گزار دی ان کے ایک معتقد کو قلبی بے چینی تھی وہ آتا رہا والد صاحب نظر انداز کرتے رہے ایک دن بلایا اور فرمایا کہ اس کو بعد نماز عشاء صلوة و سلام کا ورد کرتے ہوئے سوجائو وہ مجھے کہنے لگا کہ میں ایسا ہی کرتا رہا ایک دن پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرم فرمایا اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور قلبی سکون ہوا ۔

ہمیشہ اپنے مزاج اور مرضی سے بات کرتے کوئی شخص ان سے ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ نہیں کراسکتا تھا کافی لوگ ان سے خفا بھی ہوجاتے تھے لیکن جن کو ان کا مزاج سمجھ میں آیا کبھی انہوں نے ان سے محبت کے تعلق کو نہیں چھوڑا انہوں نے تمام عمر تکلیف میں گزاری مگر کسی کو تکلیف نہیں دی لوگ جب ابا جی کو پوچھتے کہ شاہ جی کیا حال ہے وہ فرماتے کہ مزے ہورہے ہیں بڑی سے بڑی پریشانی کو ہوا میں اڑا دیتے اپنی سخت سے سخت بات کو عام انداز میں کہہ دیتے کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے شاید احمد فراز کے اس شعر کی تفسیر تھے کہ
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیئے اسے خفا کیجئے
یا شکیب جلالی کے اس شعر کے مظہر تھے کہ
شکیب اپنے تعاف کیلئے بات کافی ہے
ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے

کبھی اپنے جد مرشد حضور نظام الدین اولیاء کی طرح بادشاہوں رئیسوں کی حاضری نہیں دی اپنے حال میں مست رہتے مشکلات سے بے نیاز کسی نے پوچھا کہ شاہ جی ہر بات بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کچھ دل میں بھی رکھ لیا کرو فرمانے لگے ہمارا ظاہر باطن ایک ہے اتنی جگہ ہی نہیں کہ کچھ ذخیرہ کریں جو آتا ہے بے دھڑک کہہ دیتے ہیں دوسروں کے دکھ کو اپنا سمجھتے تکلیفیں برداشت کرکے لوگوں کو راحت دیتے حضور نظام الدین اولیائ منظور نظر مریدوں کے ساتھ محبتیں تقسیم فرما رہے تھے ایک مرید نے عرض کی مرشد آپ کے مزے ہیں نواب رئوسا بادشاہ ہر شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہے حضور نظام الدین اولیاء نے خاموشی اختیار کی فرمانے لگے ہمارے پاس سب دکھی آتے ہیں سب دعا کی اپیل لیکر آتے ہیں جب وہ ہمیں اپنی تکلیف اور دکھ بتاتے ہیں تو رب کریم کی بارگاہ میں ان کے دکھ کی چادر اوڑھ کر عرض کرتے آنسو بہاتے ہیں یہ دکھ کی چادریں ہمیں ہر وقت اوڑھنی پڑتی ہیں جس کی زندگی میں اتنے دکھ ہوں اسے زندگی کے مزوں کا کیا پتہ ! والد گرامی ہمیشہ مسرت و شادماں رہتے لیکن دکھوں نے ہمیشہ انہیں گھیرے رکھا کثیر العیال تھے آمدنی بس مناسب تھی لیکن بہترین تربیت سے نوازا ۔ تعلیم خود داری اور سچائی کی تربیت دی کردار بہترین بنایا نہ کبھی جھکے نہ کسی انسان کے آگے ہمیں جھکنا سکھایا دو فرد ہوں یا دو لاکھ ہوں بلا جھجھک ہمارے والد صاحب کے خون کا اثر ہے بلکہ ہمارا پورا وجود ہی والد صاحب کا صدقہ ہے اگر تھوڑی بہت عزت و مقام ہمیں اس شہر میں حاصل ہے تو یہ انہی کا صدقہ ہے وصی شاہ نے تو یہ اشعار اپنی ماں کی عظمت کیلئے کہے تھے لیکن میں اسے اپنے والد گرامی کیلئے بھی کہوں گا کہ
یہ کامیابی یہ عزت یہ نام تم سے ہے
جہاں میں جو بھی ملا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے

اولیاء سے خصوصی محبت رکتھے تھے فنا فی الشیخ تھے اپنے مرشد سید مبارک علی عثمانی سے بے پناہ محبت رکھتے درگاہ بابا فرید کے نیاز مند تھے بھکر شہر کے تمام اولیاء کرام سے عقیدت رکھتے اولیاء سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت رکھتے تھے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل و اعراس اولیاء کرام میں خصوصی شرکت کرتے لنگر کا خاص اہتمام کرتے اورادو وظائف کبھی ترک نہیں کئے سینکڑوں بزرگوں کے یوم وصال یاد تھے روزانہ کسی نہ کسی بزرگ کی ختم شریف دیتے اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ سے شدید محبت تھی اپنے والدین کے مزار پر شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ حاضری نہ دی ہو خود کو اپنے والدین کے مزار کا مجاور سمجھتے تھے پردہ فرمانے سے پہلے وصیت کی کہ جہاں میں مزار پر بیٹھتا ہوں وہی میری قبر بنائی جائے بظاہر جگہ نہیں تھی لیکن اللہ عزوجل اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہوا مزار وہیں بنا ایسے محبوب و مقبول لوگ کہاں ملتے ہیں بقول ابن انشاء
ڈھونڈوگے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

قرآن مبارک میں حکم ربانی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ عزوجل کے ولی اللہ عزوجل کے دوست ہیں نہ انہیں کبھی حزن و ملال ہے نہ خوف و پریشانی اور اللہ عزوجل کے دوست ہمیشہ محبتیں تقسیم کرتے ہیں اللہ عزوجل انہیں دنیا میں بھی سرفراز رکھتا ہے وقت رخصت سرفراز کرتا ہے اور ان کی قبریں اندرباہر سے نور کی روشنی سے روشن رکھتا ہے کیونکہ
ولی اللہ دے مردے ناہیں کردے پردہ پوشی
کی ہو یا جے دنیا اُتوں ٹُرگئے نال خموشی

والد محترم مختصر علالت کے بعد 22 رمضان المبارک بوقت سحری پردہ فرماگئے جمعة المبارک کا دن تئیسویں رمضان المبارک کی طاق رات تھی رحمت کی بارش ہوئی سینکڑوں روزے دار علماء مشائخ اولیاء کاملین ان کے جنازے میں موجود تھے ہزاروں لوگ قل خوانی میں موجود تھے روزے داروں کی دعائوں کی برکت سے رب نے انہیں سرفراز فرمایا ان کی ولدیت پر مہر ثابت کردی کہ
خدا کے خاص بندے ہیں نرالی شان والے ہیں
انہی کے سلسلے سے دہر میں ہر سو اجالے ہیں

ہم ان کی محبت میں آنے والے ہمارے غم میں شریک ہونے والے ہزاروں محبت کرنے والے ہزاروں بھائیوں کے مشکور اور احسان مند ہیں ان کی برکات کیلئے دعا گو ہیں وہ ظاہری پردہ تو فرما گئے لیکن ہماری ہر ہر سانس ان کا صدقہ اور مقروض رہے گی وہ چلے گئے لیکن ان کی یاد ہمارے دلوں میں ہمیشہ جگمگاتی رہے گی بقول حکیم نبی خان جمال سویدا کہ
راہ ہستی کا یہ دستور مقدر ہے جمال
نقش رہ جاتے ہیں انسان گزر جاتا ہے
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 25949 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.