انڈین فلمیں اور ہماری خاموشی

آسکر ایوارڈ فلمی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ جا نا جاتا ہے۔ اسے اکیڈیمی ایوارڈ بھی کہتے ہیں ۔ یہ فلمی دنیا کا" نوبل پرائز " ہو تا ہے۔ یہ ایوارڈ تین اعشاریہ آٹھ کلو گرام کاتقریبا ایک فٹ کے قریب مجسمہ ہو تا ہے جو خا لص سو نے کا بنا ہو تا ہے۔ یہ حیرت انگیز حد تک بہترین اداکاری کے جو ہر دکھا نے پر دیا جاتا ہے۔ فلمی دنیا کے ستاروں کے لیئے اس سے بڑا ایو ارڈ کو ئی اور نہیں ہو تا۔ جس کی خواہش پر ایک فنکار کے دل میں حسرت لیئے مو جزن رہتی ہے جس کے حصول کے لیئے وہ سر تھو ڑ کو شش کرتے ہیں۔ اور ہر سال منعقد ہو نے والے آسکر ایوارڈ کے لیئے منتخب ہو نے کی جستجو میں اداکاری میں حیرت انگیز حد تک کھو نے کی کو شش کر تے ہیں۔ آسکر ایوارڈ کا سلسلہ 1929سے شروع ہو ا جو تاحال جاری ہے۔ بھارت بھی ایک بڑی فلم انڈسٹری کے طور پر سامنے آیا ہے اور آسکر کے لیئے سالانہ کی بنیاد پر فلمیں بھی نا مزد ہو رہی ہیں لیکن پاکستان اس دوڑ میں بہت پیچھے جا رہا ہے۔

پر انے وقتوں کی کہا وت ہے جس کی لا ٹھی اس کی بھینس۔۔۔ بالکل اسی طرح نئے وقت میں جس کی میڈیا تک رسائی بہتر اس کی " ایمج" image بھی بہتر۔ ۔۔۔ فلم بظا ہر تو انٹرٹنمنٹ کا ایک حصہ ہے مگر اسے بہت سے مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال جاری بھی ہے۔ فلم کی کہانی، فلمی ہیرو بہت حد تک معاشرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پڑوسی ممالک کاکلچر بھی ان ا ثرات سے محفو ظ نہیں ہو تا ۔ اپ پاکستان اور ہند وستان کی مثال لے سکتے ہیں۔ ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہند وستان کی فلم انڈسٹری پاکستان سے کہیں اگے ہیں۔ اس کی ایک ہٹ فلم چا ر سو کروڑ سے اوپر کا بزنیس کر رہی ہے اور ایک ہٹ فلم پر وہ پچا س کر وڑ خرچ کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فلم انڈسٹری مکمل طور پر فلاپ دکھائی دیتی ہیں ۔ ہم ایک عشرے سے ایک ہی طرح کے فلم بناتے آرہے ہیں ۔ جس میں بڑے بڑے مو نچوں کے ساتھ غضبناک ہیرو، کلہاڑی لیئے غراتا رہتا ہے اور ہیروئین کھیتوں میں بھا گتی رہتی ہے یا ناچ ناچ کر کھیتوں کا ستیا ناس کر دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے فلم بین اکتا جاتے ہیں۔ انڈین فلمیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے شوق سے دیکھے جا تے ہیں ، اور انڈین فلمیں ایک بڑی انڈسٹری کے طو ر پر ابھری ہے ۔ لیکن انڈیا پاکستا ن دشمنی میں یہاں بھی آگے ہی آگے رہا ۔ پاکستان اور اس کے عوام نے ہمیشہ کھلے دل کا مظا ہر ہ کر کے اسکے اچھے فلموں اور اداکاروں کو عزت کی نگا ہ سے دیکھا لیکن بھا رت کی ہٹ دھرمی اور اور تعصب یہاں پر بھی نہیں گئی اور پاکستا ن دشمنی میں آگے ہی آگے رہا جس کی واضح مثال حالیہانڈین " فینٹم" نامی فلم ہے۔ جس میں ممبئی حملوں کا پاکستان سے نا طہ جو ڑنے کی کو شش کی ہے اور پاکستان کو بے عزت کرنے کی نا پاک کو شش کی گئی ہے۔ اور براہ راست پاکستان کا نام لیکر اس کے با شندوں کو دہشت گرد دکھا یا گیا ہے۔ جسے ایک عام پاکستانی ، محب وطن پا کستانی نے مکمل طو ر پر ریجکیٹ کر ڈالا۔ اس فلم میں واضح طور پر پاکستان کو دہشت گرد دکھا یا گیا ہے اور انڈیا میں دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جو یہ سب کچھ ایک عام پاکستانی کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ انڈیا شروع ہی سے شدت پسند رہا ہے اور کھل کر پاکستان کی ، پاکستانی عوام کی مکمل طور پر نفرت سے بھرا واقع ہو ا ہے۔ تعصب کا یہ معیار کہ معصوم کر کٹرز کو بھی اپنے ملک میں کھیلنے نہیں دے رہا۔ اور اس میں بھارتی شدت پسند تنظیمیں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی عوام پاکستانی حکومت ہمیشہ ہی سے امن ودوستی کا ہاتھ بڑھا یا ہے۔ ان کے فنکا ر ہو یا کزکٹر اپنے ملک میں ہمیشہ مہمان ہی سمجھا، ان کی مہمان نو ازی میں کسی نے کو ئی کسر نہیں چھو ڑی، ان کے پاکستان میں چھو ڑے ہو ئے گھروں کو ایک ورثہ تک کی حیثیت حا صل ہے۔ تو ایسے میں فینٹم جیسی فلم سے پاکستانی تشخص کو خراب کرنا نہایت فضول بات ہے۔ اب جبکہ یہ ایک میڈیا وار بن چکی ہے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ انڈیا کو بے نقاب کر کے اس کے سارے کالے کرتوتوں اور دہشت گردی کا منہ تھوڑ جو اب دیا جائے اور اایسی فلمیوں کے زریعے ان کو بے نقاب کریں۔ ہم فن میں ان سے کیا کم ہے جو وہ گیت بھی ہمارے استعما ل کر رہا ہے اور اداکار بھی۔ مگر ہم اس دوڑ میں بھی بہت پیچھے جا رہے ، انڈین آسکر زلے رہے ہیں اور ہم ہے کہ ایک ہی طرح کے فلموں سے بوریت کا شکار ہو رہے ہیں ۔

ہمیں بھی ٹیکنالوجی اور میڈ یا کے اس دور میں ان کا مثبت استعمال کر کے اس سے دو رس نتا ئج حا صل کر نے چا ہیئے اور جو بھی ہمیں اس میدان میں ہمارے سا تھ جس طرح سلو ک کرے اس کا اس میدان میں بھی دو ٹوک جواب دینا چاہیئے ۔ فینٹم جیسے فلم میں ممبئی اٹیک کو پاکستان سے جو ڑنے کی کو شش کی گئی ہے تو اس جیسے پاکستان میں رونما ہو نے والے بہت سے واقعات میں انڈیا کے بھی ملو ث ہو نے کے شو اہد ملے ہیں تو ہمیں بھی ایسے فلمیں بنا کر ان کا منہ تھوڑ جو اب دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ایسے فلموں میں فحا شی بھی نہیں ہو تی اور فلم بین انترٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ ایک پیغام بھی لے سکتے ہیں۔ اور حب الو طنی کا جذبہ بھی بیدار ہو تا ہے۔ لیکن ہماری تو حالت زار یہ ہے کی جب بھی اخبار پڑھنے بیٹھ جائے تو "بالی ووڈ سے خبر آتی ہے کہ ایشوریا رائے کو ہالی ووڈ فلمز میں جیمز بانڈ کے مد مقابل کاسٹ کیا جا رہا ہے"۔ "بالی ووڈ سے خبر اتی ہے کہ کترینہ کیف نے اپنا معا وضہ چار کروڑ تک بڑھا لیا "۔ "جیکی چن نے کئی منزل بلند عمارت سے سٹنٹ مین لیئے بغیر خو د پر فارم کر دیا"۔ اور مقابلے میں ہمیں پاکستانی فلم انڈسٹری کی خبریں "میرا جی کی شادی ، میرا جی کی انگلش کی خبروں میں دلچسپی لے رہا ہو تا ہے " ، "ریما نے لیلی کو کسی فنکشن میں کہنی مار دی جس سے دونوں کے درمیان توتو میں میں شروع ہو گئی"۔ اور یہ خبر پو رے ایک ہفتہ تک خبروں کی زینت بنی رہتی ہے ۔
MUHAMMAD KASHIF  KHATTAK
About the Author: MUHAMMAD KASHIF KHATTAK Read More Articles by MUHAMMAD KASHIF KHATTAK: 33 Articles with 80228 views Currently a Research Scholar in a Well Reputed Agricultural University. .. View More