شام کا انسانیت کُش بحران

کل ہی کی تازہ خبر ہے،یونان کے سمندری پانیوں میں ۳۴شامی مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں،ان میں سے۱۵ معصوم بچے ہیں، ننھی سی کَلی عیلان عبداللہ کردی کی ساحلِ سمندر پرتیرتی ہوئی لاش نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا، لگتا تھا،اب ا س کے بعد ترکی ،مغربی عرب اور مشرقی یورپ کی حکومتیں شامی پنا ہ گزینوں کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑے گی ،کم ازکم انہیں ہجرت کرنے کے لئے پرامن اور با سہولت راستوں کا بند وبست ہو جائے گا،مگر ایسا اب تک کچھ صحیح معنوں میں نہیں ہوا،عیلان عبداللہ کی شہادت سے جرمنی چانسلر انجیلا مارکل اور ترکی کے طیب اردگان بڑے دل گرفتہ نظر آرہے تھے،ان دونوں نے شامی پناہ گزینوں کو ہر قسم کی مددفراہم کرنے کے اعلانات بھی کئے،لیکن ترکی کے سمندر سے غیر معیاری کشتیوں کے ذریعے یہ نقل وحمل اب بھی جاری ہے،لوگ ’’ہار یاپار‘‘کی نیت کرکے سمندر کی بے رحم موجوں میں کود جاتے ہیں،ماں باپ، بیوی بچے اور شوہروں تک کو کھو جاتے ہیں،پانی اتنا کردیتا ہے کہ ان کی رگوں میں میں دوڑ تے ہوئے خون کو منجمد کرکے،زندگی کا کرنٹ بجھادینے کے بعد ان کی لاشوں کو کنارے پراس خاموش پیغام کے ساتھ ڈال دیتاہے، کہ کسی ملک کے اپنے حکمران جب انسانی اخلاق سے عاری ہوکر اپنے ہی عوام کے لئے خونخوار بھیڑیئے بن جائیں،اور آس پاس کےطاقتور ممالک اپنے مخصوص مفادات یا بے حسی کی چادریں اوڑھ لیں، تو وہاں کے لوگوں کو مکمل قرار آنےکا واحد راستہ یہی ہے، کہ وہ دنیا میں کہیں اور جانے کے بجائے اپنے رب کے پاس چلے جائیں۔

عیلان کی طرح ان لوگوں میں سےشام کا پھول سا بچہ چھوٹاسا عمر بھی ہے، جو جنگ کی حالت میں سکول چھوڑکر سڑک کے کنارے ٹافیاں بیچ کر اپنے تین بھائیوں اور اپنی ماں کی کفالت کرتاتھا، دمشق کے مشرقی گوٹھ پرکچھ دن قبل اپنے ہی ملک کے ظالم حکمران بشار الأسد کی کیمیائی بمباری سےایک سو دیگر بے گناہ افراد کے ساتھ تڑپ تڑپ کر شہید ہوگیا،اس کی نہایت کبیدہ خاطرماں اس دن شام کو العربیہ ٹی وی کو بتارہی تھی کہ اب مجھے عمر کی شہادت کے بعد احساس ہوا کہ میں بیوہ اور عمر کے تینوں بھائی یتیم ہیں۔ اس سے پہلے جب سکول کے ایک بچے حمزہ کو دیوار پر بشار مخالف نعرہ لکھنے کی وجہ سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر بشاری فورسز نے قتل کیا تھا اس وقت یہ مہذب دنیا کہاں تھی،اس کے بعد جب پورے ملک کو آتش وآہن کا ڈھیر بنایا گیااور پُر تشدد تنظیموں داعش وغیرہ کو یہاں مقابلے میں جمنے دیاگیا،مشرق ومغرب کے مختلف فورمز پرجیش حر کی دُہائی’’ کوئی ہے جو اس ظلم وستم کو روک سکے؟‘‘کو ان سُنی کیا گیا، یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات آئندہ تاریخ کے اوراق میں مہذب دنیا کے ذمے واجب ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں، دھماکہ خیز بارودی ڈرمز جنگی جہازوں سے پھینکے جارہے ہیں،جس سے بے پناہ تباہی ہورہی ہے،املاک اور جانوں کا بے تحاشا نقصان آئے دن کا معاملہ ہے،نوجوان انقلابی قیدیوں کے ساتھ عجیب قسم کا بے رحمانہ سلوک ہورہاہے کہ ان کے چور چور جسموں سے خون نکال نکال کر بشاری فوج کے زخمیوں کو چڑھایا جارہاہے،فلسطینی پناہ گزین کیمپ کو انقلابیوں کی حمایت کی وجہ سے پچھلے تین سالوں سے محاصرے میں لیا گیا ہے،وہاں لوگ جان بچانے والی ادویات ،کھانے پینے اور شیر خوار بچوں کے دودھ کے لئے ترس چکے ہیں،یہ تمام صورت احوال پوری دنیا دیکھ رہی ہے،امریکہ ، یورپی یونین،چین وروس اور فرانس جیسی طاقتیں صرف مذمتی قراردادیں پاس کر کے انسانیت پر اس بر بریت کے متعلق اپنے اپنے ضمیر کو طفل تسلیاں دے رہی ہیں،حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے،نہ ہی مسئلے کا حل شامیوں کا اپنے ملک اور گھر بار سے ہجرت کرنا ہے، نیزمسئلے کے حل کے نام پر روس کا ایران اور حزب اللہ کی طرح بشار الاسد کی تقویت کے لئے زمینی ،بری اور فضائی افواج بھیجناحل تو کُجا، جلتی پر تیل چھڑکناہے، ایسی گمبھیر صوراتِ حال میں آخر مسئلے کا حل کیا ہے؟

اگر شام کی تقسیم بڑی طاقتوں کی میز پر درونِ خانہ سازشوں کا حصہ نہیں،فلسطین کے مانندشام سے عربوں کا انخلأ اور غیر عربوں کو بسانا ،یا سنیوں کی یہاں تعداد کم کرکے دیگر طوائف کی تکثیر مقصود نہیں،اقلیتوں کو اکثریت اور اکثریت کو اقلیت میں بدلنا مطلب نہیں، تو پھرمسئلے کا حقیقی حل یہ ہے کہ ایران ،روس اور حزب اللہ پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ بشار کی حمایت فی الفورترک کردیں،کیونکہ بحران کی بنیاد اور اصل جڑ بشار کی آمرانہ،ظالمانہ ،سفاکانہ،جابرانہ اور خونخوار حکومت اوراس کی انسانیت کُش ملیشیا ہیں،داعش کو یہاں آنے میں اصل سبب بھی بشار ہی ہے،جب تک بشار بر سر اقتدار رہے گا، تب تک یہاں ظلم وستم کا بازار یوں ہی گرم رہے گا،لوگ مزید ہجرت ومہاجرت پر مجبور ہوں گے، عیلان،عمر اور حمزہ جیسے معصوم بچوں کی لاشیں جوروز گرتی ہیں ، مستقبل میں اور بھی گریں گی۔
مسئلے کا حل بہت آسان اور سادہ ہے،یہاں کے لوگ صرف اور صرف بشار کی فضائی بمباری سے پریشان ہیں ،جس کا نشانہ وہ خود اور ان کی معصوم خواتین وبچے بن رہے ہیں،لہذا شام کو نو فلائی زون قرار دیا جائے،اگلے ہی دو دن میں یا تو بشار کی بلا جواز حکومت کا دھڑن تختہ ہوگا،یا کم ازکم ملک سے کوئی راہِ فرار اختیار نہیں کرے گا،پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی حل ،داعش کا بھی خاتمہ اور غیر ملکی لڑاکا لوگوں کا بھی خروج اور اخراج ہوجائے گا۔بصورتِ دیگر یہ اظہر من الشمس ہے کہ بشار اور اس کی ملیشیا ہرطرح کے حل میں رکاؤٹ اور مزید المیوں کے باعث ہوں گے۔کیا پوٹن ،حسن روحانی اور حسن نصر اللہ کو انسانیت کا کوئی رشتہ اپیل کرسکتا ہے،کیا ابامہ، کیمرون اور ہولانڈ کو مالی ،لیبیا،عراق وافغانستان میں ظلم وبربریت کے علاوہ بشار کی یہ انسان کُشی بھی نظر آسکتی ہے، کیا ترکی،پاکستان اور مصر اپنے اپنے سروں میں عالمِ اسلام کی لیڈر شپ کے خواب لئے اس بحران کے حل میں کوئی بھی معقول کردار اد کرسکتے ہیں؟
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 811782 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More