حج دین کی تکمیل کا نام ہے

 دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آجائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو

آج پوری دنیا سے لاکھو ں فرزند ان تو حید حج کی سعادت حاصل کریں گے حج ایک بڑی اہم عبادت ہے اس کو اسلام کے ارکان میں شما ر کیا جاتا ہے ہر عبادت اپنی جگہ پر کوئی خاص مقصد رکھتی ہے حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو اس کے لیے مال بھی چاہے صحت بھی چاہیے اور سفرکی سہولت بھی اس کے بغیر کوئی آدمی اس کو ادا نہیں کرسکتا حج پور ی زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے جب حج فرض ہوا اور حضور ﷺ نے مسجد نبوی ﷺ میں اعلان فرمایا کہ تم پر ہر سال حج فرض کر دیا گیا ہے تو ایک قبائلی سردار حضرت فرع بن حابسؓ کھڑے ہوگئے اور پوچھا کہ کیا یہ ہر سال فرض کیا گیا ہے ؟اس پر آپﷺ خاموش رہے انہوں نے دوسری بار پھر یہی سوال کیا کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فر ض ہو جاتا اورپھر تم اس کو ادا نہیں کرسکتے تھے پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جو میں کہا کروں اس کو اسی پر چھوڑ دیا کرو تم سے پہلے لوگوں نے ایسے ہی سوال کرکے دین کو بڑا مشکل بنا دیا تھا پھر وہ اس پر چل نہیں سکے اورآپس میں اختلاف کیا جو میں حکم دوں اس کو سنو اوراس پر عمل کرو گویا نبی کریم ﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بہت سارے سوال کرکے کام کو اپنے لیے مشکل بنایا جائے لہذا حج پور ی زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے حج دراصل محبت اورعشق کی عبادت ہے اور یہ ایمان کا بنیا دی تقاضا ہے کہ ایمان لانے والوں کو اﷲ تعالی سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو تر جمہ : ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اﷲ کو محبوب رکھتے ہیں ( البقرہ2;165 ) ایک جگہ پر اﷲ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو خود حکم دیا تر جمہ : ’’ اے نبی ﷺ لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی پیروی اختیار کرو اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہار ی خطاؤں سے در گزر فرمائے گا ‘‘ ( آل عمران31:3) حج حضرت ابر اھیم علیہ السلام کی اﷲ تعالی سے محبت کی علامت ہے عیدالا ضحی کے موقع پر قربانی بھی اس محبت کو تازہ کرنے کے لیے ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ کی محبت میں جس طرح اپنے باپ کو چھوڑا اپنا گھر بار چھوڑ ا رشتہ دار وں کو چھوڑا ایک بیابان جنگل میں اپنے بیوی بچے کو لا بسایا وہاں پر پتھروں سے اﷲ کا گھر بنایا یہ سب محبت کی علامت ہے حج دین کی تکمیل کا نام ہے حضور ﷺ حج و داع کے موقع پر عرفات کے میدان میں کھڑے تھے اس وقت اﷲ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ترجمہ : ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تما م کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہار ے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ( المائدہ3:5 ) اس آیت کا حج کے موقع پر نازل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تکمیل کا رشتہ حج کے ساتھ وابستہ ہے حضور ﷺ نے پوری زندگی میں ایک بار حج کیا اور اس کے تین مہینے بعد آپ ﷺ کاوصال ہوگیا آپ ﷺ نے اپنے وصال سے پہلے حج کا فریضہ انجام دیا اس کے سارے مناسک اورآداب و مسائل لوگوں کو سکھائے اور یہ آپ ﷺ ہی واضح کرسکتے تھے اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل بھی ہوگئی ۔دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آجائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو یہ مر حلہ اس وقت آیا جب لوگ دین میں مو ج در مو ج داخل ہوئے اور اﷲ تعالی نے اپنی نصرت اور فتح عنایت فرمائی اورمکہ فتح ہوگیا اور بتدریج پورے عرب میں دین غالب آگیا لو گ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے سورہ نصر میں اسی مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تر جمہ : بے شک سب سے پہلے عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہاں والوں کے لیے مر کز ہدایت بنایاگیا تھا اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابر اہیم علیہ السلام کا مقام عبادت ہے اوراس کا حال یہ ہے کہ جواس میں داخل ہوا مامو ن ہو گیا ( آل عمران 97-963) 10 ھ میں مختلف وفود حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ان وفود نے اپنے قبیلوں میں واپس جاکر اسلام کا پیغام پہنچایا اس طرح ہر طرف اﷲ کے دین کا بول بالا ہوگیا اور لوگ جو ق در جوق اور فوج در فوج مسلمان ہوئے اب اﷲ کے آخری رسول ﷺ کی امت ہر طرف پھیل چکی تھی اور دور دور تک کفر و شرک کا نشان مٹ چکا تھا ایک سال قبل 9ھ کو حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی مرتضی ؓ کو مکہ میں بھیج کر یہ اعلان کر ا دیا تھا کہ اب اس پاک سر زمین پر مشرکین کے قدم نہ پڑنے پائیں اس لیے کہ اب دین حق کا چراغ پور ی تابانیوں کے ساتھ جگمگا رہا ہے10 ھ میں حضورﷺ نے اراد ہ فرمایا کہ خود حج کے لیے مکہ تشریف لے جائیں تاکہ خود حج کرکے لوگوں کو دکھا دیں کہ حج کا اسلامی طریقہ کیا ہے چنا نچہ ہر طرف اعلا ن ہوگیا کہ اس سال اﷲ کے رسول حج کے لیے تشریف لارہے ہیں یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے لوگ ساتھ جانے کے لیے تیا ر ہوگئے 25ذیعقد10 ھ کے روز اﷲ کے آخری رسول ﷺ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور 9دن بعد 4ذی الحج 10ھ کے دن مکہ میں داخل ہوئے اس سفر میں آپ کی تمام ازواج مطہرات ؓ بھی ساتھ تھیں صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ بھی ساتھ تھیں حضرت علی جو یمن گئے ہوئے تھے وہ بھی مکہ پہنچ کر شر یک ہوگئے حضورﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور کعبہ شریف پر آپ ﷺ کی نظر پڑی تو یہ دعا پڑھی ’’اے اﷲ تو سلامتی دینے والا ہے اورتیری ہی طرف سے سلامتی ہے اے رب ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اے اﷲ اس گھر کی عظمت ٗ شرف ٗعزت اور ہیبت کو زیادہ فرما اور جو لوگ اس گھر کا حج اور عمرہ کرے تو اس کی بزرگی اورشرف و عظمت کو زیادہ فرما ‘‘ جب حضور ﷺ حجر اسو د کے سامنے تشریف لے گئے تو حجر اسو د پر ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا پھر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا جب طواف سے فارغ ہوئے تومقام ابر اہیم کے پاس تشر یف لائے اور2 رکعت نما ز ادا کی پھر صفا کی جانب روانہ ہوئے قریب پہنچے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی ’’ بے شک صفا اور مروہ اﷲ کے دین کے نشانیوں میں سے ہیں ‘‘ صفا اور مروہ کی سعی فرمائی چونکہ حضورﷺ کے ساتھ قربانی کے جانو ر بھی تھے اس لیے عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ ﷺ نے احرام نہیں اتا را آٹھویں ذوالحجہ کے دن آپ منیٰ تشر یف لے گئے اور پانچ نمازیں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر منی ٰ میں اد ا فرمائیں نو ذوالحجہ کے دن حضور ﷺ عرفات میں تشریف لے گئے عرفات پہنچ کر حضورﷺ نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا جب سورج ڈھل گیا توا ٓپﷺ اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہوئے اور مسلمانوں کے سامنے اپنے وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے اہم امو ر بیان فرمائے اس میں سے چند حصے درج ذیل ہیں آپ ﷺ نے حمد وثناء کرتے ہوئے خطبہ کی یوں ابتداء فرمائی خدا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے رسو ل اﷲ ﷺ کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجمع قوتوں کو زیر کیا لوگو میری بات سنو کیو نکہ میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہوسکے گے اورغالباً اس سال کے میں حج نہ کرسکوں گا لوگو اﷲ تعالی کاارشاد ہے کہ’’ انسانوں ہم نے تم سب کو ایک ہی مر د و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتو ں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو تم میں سے زیادہ عزت و کرامت ولا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیا دہ ڈرنے والا ہے‘‘ چنانچہ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کو ئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عر بی پر نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے ہا ں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقوی ہے اب فضیلت و بر تری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے دفن اور پامال ہو چکے ہیں قر یش کے لوگو خدا نے تمہار ی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی اب کوئی گنجائش نہیں تمہارے خو ن ومال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعا حرا م کردی گئیں ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہے جیسی تمہارے اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحج )کی خاص کر اس شہرمیں تم سب خدا کے پاس جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس کرے گا دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ تم آپس کشت و خون کرنے لگو اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کی امانت پہنچا دے لوگو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سار ے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے اپنے غلاموں کاخیال رکھو ہاں غلاموں کا خیال رکھو انہیں وہی کھلا ؤ جو خود کھاتے ہوایسا ہی پہناؤ جیسے تم پہنتے ہو دیکھو تمہارے اور تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں ا س طرح ان پر تمہارے حقو ق واجب ہے عور توں سے بہتر سلوک کرو لوگو میر ی بات سمجھ لو کہ میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا میں تمہار ے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہو ں اگر تم اس پر قائم رہو اور اس کی پیر وی کرتے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے او ر وہ خدا کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معلومات میں حد سے تجاوز نہ کرنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کردیئے گئے شیطان کو اب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی ہے کہ اب اس کی اس شہر میں عبادت کی جائے گی لیکن اس کا امکان ہے کہ ایسے معاملات میں جنہیں تم کم اہمیت دیتے ہو اس کی بات مان لی جائے اور وہ اسی پر راضی ہے اس لیے تم اس سے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کرنا اورلوگو اپنے رب کی عبادت کرو پانچ وقت کی نماز اداکرو مہینے بھر کے روزے رکھو اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل امر کی اطاعت کرو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے اب مجرم خود ہی اپنے جر م کا ذ مہ دار ہوگا اور اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا سنو جو لوگ یہاں موجو د ہیں یہ احکام اوریہ باتیں ان لوگوں بتا دیں جو یہاں نہیں ہے ہوسکتا ہے کوئی غیر مو جو د تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو اور ( لوگو) تم سے میر ے بارے میں خدا کے ہاں سوال کیا جائے گا بتا ؤ تم کیا جواب دوں گے لوگو نے جواب دیا کہ ہم اس بات کی شہادت دے گے کہ آپﷺ نے امانت پہنچا دی اورآپ ﷺ نے حق رسالت ادا کردیا اور ہماری خیر خواہی فرمائے یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے خدایاگواہ رہنا خدایا گواہ رہنا خدایا گواہ رہنا ۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 17498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.