گیارھویں شریف کی حقیقت و اہمیت

علامہ امام یافعی قادری رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ،، گیارھویں شریف کی اصل یہ تھی کہ حضرت غوث صمدانی رضی اللہ تعالی عنہ حضور پر نور شافع یوم النشورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیسویں شریف کا ختم شریف ہمیشہ گیارہ ماہ ربیع الآخر کو کیا کرتے تھے وہ نیاز اتنی مقبول و مرغوب ہوئی کہ اس کے بعد آپ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ختم شریف دلانے لگے آخر رفتہ رفتہ یہی نیاز خود حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی گیارھویں شریف مشہور ہوگئی آج کل لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا عرس مبارک بھی گیارہ تاریخ کو کرتے ہیں ۔( قدوة الناظرہ و خلاصة المفاخرہ )گیارھویں شریف در اصل اس ختم شریف جس میں چند اعمال خیر انجام دئیے جاتے ہیں کا نام ہے جو حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ اپنے آقا و مولی کے لئے کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے آپ کے اس صدق و شوق کو قبول فرمایا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد گیارہ تاریخ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے عرس مبارک کے لئے مخصوص ہو گئی ۔

چنانچہ حضرت محمد بن جیون فرماتے ہیں ۔،، دیگر مشائخ کا عرس تو سال کے آخر میں ہوتا ہے لیکن غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ امتیازی شان ہے کہ بزرگان دین نے آپ کا عرس مبارک ہر مہینے کی گیارہ تاریخ کو مقرر فرمادیا ہے ۔ (وجیزالقراط صفحہ 83)

امام المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ہم نے اپنے امام و سردار ، عارف کامل شیخ عبد الوہاب قادری متقی قدس سرہ کو حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم عرس(یعنی گیارھویں شریف)کی محافظت و پابندی فرماتے دیکھا ہے علاوہ ازیں ہمارے شہروں میں ہمارے دیگر مشائخ کے نزدیک بھی گیارھویں شریف مشہور و متعارف ہے ۔بے شک ہمارے ملک ( ہندوستان)میں آج کل ( عرس مبارک غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ یعنی گیارھویں شریف کی )گیارھویں تاریخ مشہور ہے کہ امام عبد الوہاب متقی رحمة اللہ علیہ اور ان کے مشائخ بھی اسی تاریخ کو گیارھویں شریف کا ختم دلایا کرتے تھے ۔ (ماثبت السنہ صفحہ 124 تا صفحہ 127 )

اسی طرح استاد المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں ،، حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہ مبارک پر گیارھویں تاریخ کو بادشاہ اور شہر کے اکابر وغیرہ جمع ہوتے نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور سرکار غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں قصائد اور منقبت پڑھتے مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے آس پاس مریدین حلقہ بنا لیتے اور ذکر جہر شروع ہوتا اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی اس کے بعد طعام و شیرنی جو نیاز ہوتی تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رخصت ہوتے ۔ان مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ گیارھویں شریف کا اہتمام کرنا ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے اور علما صلحا نے گیارھویں شریف کے اہتمام کو ہمیشہ محبوب و مرغوب رکھا ہے اور اپنے معتقدین کو بھی فرمایا کہ گیارھویں شریف جیسے محمود ومستحسن فعل پر اپنے اسلاف کی پیروی کریں کہ ارشاد نبوی ہے کہ
ماراہ الممنین حسنا فھو عند اللہ حسن
جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھی ہے ۔ اور پھر گیارھویں شریف محبوب و مستحسن کیوں نہ قرار دی جائے کہ اس میں وہ اعمال انجام دئیے جاتے ہیں جو اللہ عزوجل کے قرب و رضا اور رسول اللہ کی خوشنودی اور حصول خیروبرکت اور حصول اجروثواب کا ذریعہ ہیں مثلآ گیارھویں شریف کی تقریب میں قرآن شریف کی تلاوت کی جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث مبارک میں فرمایا گیا کہ قرآن مجید پڑھنے والے کو ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں یعنی اگر قاری پڑھے الم تو الف پر دس ، لام پر دس، اور میم پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں ۔

اسی طرح گیارھویں شریف میں درودوسلام پڑھا جاتا ہے اور بے شمار احادیث مبارکہ ہیں جن میں درودوسلام پڑھنے کے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں ، حدیث مبارک ہے ۔ ،، جو شخص ایک مرتبہ درود پاک پڑھتا ہے اللہ عزوجل اسے دس نیکیاں عطا فرماتا ہے ، دس گناہ مٹاتا ہے ،دس درجات بلند فرماتا ہے اور بیس غزوات میں شمولیت کا ثواب عطا فرماتا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ گیارھویں شریف میں ذکر کی مجلس منعقد کی جاتی ہے جس میں کلمہ طیبہ اور دوسرے اذکار پڑھے جاتے ہیں وعظ و بیانات کے ذریعے فکر آخرت بیدار کی جاتی ہے ،گناہوں سے نفرت اور نیکیوں سے محبت سکھائی جاتی ہے ۔ قبر میں جانے سے پہلے اس کی تیاری پر تیار کیا جاتا ہے ،جنت کی دلفریب و خوشنما باتوں سے دل مسرور اور جہنم کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا جاتا ہے ،یہی وہ ذکر کی مجلس ہیں جن کے بارے میں حدیث مبارک ہے کہ یہ ذکر کی مجالس جنت کے باغات ہیں۔

اسی طرح گیارھویں شریف میں ارواح اولیا کرام بالخصوص حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو اور آپ کے وسیلے سے تمام ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے ، یہ ایصال ثواب بھی وہی ہے جو ہمارے آقائے نامدار شفیع روز شمار کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ،،ایک صحابی نے حضور پاک سے عرض کی کہ میری ماں فوت ہو گئی ہے میرا گمان ہے کہ اگر وہ کچھ بولتی تو صدقہ کرتی،تو کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو اسے ثواب پہنچے گا ؟ اس پر حضور پرنور نے ارشاد فرمایا ،، ہاں ۔( بخاری و مسلم)

یہی نہیں بلکہ حضرت علامہ علی قاری رحم اللہ علیہ نے اپنے فتاوی میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے ،، حضور اکرم کے صاحبزادے حضرت سیدناابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا تیسرا دن تھا کہ حضرت ابو ذر غفاری خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ان کے پاس سوکھے چھوہارے ،اونٹنی کا دودھ اور جو کی روٹی تھی ان چیزوں کو حضور کے سامنے رکھ دیا تو حضور نے ان پر ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھی اور یہ دعا پڑھی۔
اللھم صل علی محمد انت لھا اھل وھو لھا اھل ۔
پھر اپنے ہاتھ اٹھائے اور چہرہ مبارک پر پھیرے اس کے بعد حضرت ابو ذر غفاری سے فرمایا کہ ان چیزوں کو تقسیم کردو اور ان کا ثواب میرے فرزند ابراہیم کو پہنچے ۔

اس حدیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ کھانے پر ختم شریف پڑھنا اور تقسیم فرما دینا سنت رسول ہے اور اس طعام وشیرنی کو تقسیم کرنے کا ثواب بھی ارواح کو پہنچتا ہے چنانچہ گیارھویں شریف کے انعقاد کے موقعہ پر یہ متحسن ومحمود عمل جاتا ہے جس کے ذریعے سنت کا ثواب بھی حاصل ہو جاتاہے اور ارواح کو ثواب بھی پہنچ جاتا ہے۔

گیارھویں شریف کا انعقاد وہ مبارک عمل ہے جس کے ذریعے اسکا اہتمام کرنے والے کو غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا خوب فیض حاصل ہوا کرتا ہے چنانچہ ارشاد غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ ہے !

جس نے کسی سختی میں میرا نام پکارا وہ سختی دور ہوگی اور جو میرے وسیلے سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرے گا وہ حاجت پوری ہوگیااور جس نے میری نیاز کا کھانا کھایاہو یا میری مجلس میں شریک ہوا ہو یا میری زیارت کی ہو اللہ عزوجل اس کے عذاب قبر میں نرمی عطا فرمائے گا۔

چنانچہ چاہئے کہ ان بزرگان دین کے طریقے کی ہم بھی پیروی کریں اور رب عزوجل اور اس کے پیارے محبوب کی رضا و خوشنودی کے ساتھ ساتھ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے خوب فیض حاصل کریں ۔

شیطانی وسوسوں کا علاج !
شیطان اکثر لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی میں مردے کو زندہ کرنے کی طاقت نہیں اسلئے حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی (معاذاللہ) مردے کو زندہ نہیں کرسکتا اس سے متعلق واقعات جھوٹ پرمبنی ہیں ۔ خدانخواستہ اگر یہ وسوسہ آئے تو غور کرلیجئے کہ بے شک زندگی اور موت اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے لیکن اللہ عزوجل کے اذن سے اس کے مقرب بندے مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں اللہ عزوجل نے ہی انہیں یہ طاقت وقدرت عطا فرمائی ہے دیکھئے قرآن پاک میں سور آل عمران میں حضرت عیسی مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت کا اعلان فرمارہے ہیں ۔
وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن للہ (سورہ آل عمران آیت نمبر 49)
ترجمہ ! اور میں شفا دیتا ہوں مادرزاد اندھوں اور سفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے ۔

اس آیت کریمہ سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ اللہ عزوجل اپنے مقبول بندوں کو طرح طرح کے اختیارات سے نوازتا ہے اور یقینا یہ عقیدہ کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ بھی اللہ عزوجل کی عطا سے مردے زندہ کرسکتے ہیں یقینا حکم قرآن کے مطابق ہے اور ایک سچا مسلمان قرآن کے ہر ہر حکم پر یقین واعتقاد رکھتا ہے ۔اسی طرح شیطان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ذہن میں یہ وسوسہ بٹھادے اللہ عزوجل کے سوا کسی سے مدد مانگنی ہی نہیں چاہئیے کیونکہ جب اللہ عزوجل مدد کرنے پر قادر ہے تو پھر اور کسی سے مدد مانگیں ہی کیوں ؟

جب ایسا وسوسہ آئے تو چاہئیے کہ شیطان کے اس وار کو توڑدیں اور دل میں یہ یقین و اعتقاد پیدا کریں کہ اللہ عزوجل نے کسی غیر سے مدد مانگنے کو ہرگز منع نہیں فرمایا ،دیکھئے سورہ تحریم میں ارشاد ربانی ہے
فان اللہ ھو مولہ وجبریل وصالح الممنین والملئک بعد ذالک ظھیرہ ( سور تحریم رکوع نمبر 19)
ترجمہ ! تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہوتے ہیں ۔
ان تنصرواللہ ینصرکم (سورہ محمد پارہ 26 آیت نمبر 5)
ترجمہ اگر تم دین خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کریگا۔

اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ عزوجل کے دین کی مدد کے لئے صرف اللہ عزوجل ہی کافی تھا لیکن یہ اللہ عزوجل کی منشا ہے کہ اس کے دین کے لئے مسلمان مدد کریں ۔چنانچہ ثابت ہوگیا کہ اللہ عزوجل کے سوا اور لوگ بھی اللہ کے اذن سے مدد کرنے پر قادر ہیں ۔ چنانچہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ اللہ عزوجل کے مقرب اور خاص بندے ہیں اللہ عزوجل کی عطا سے مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے اور حاجت مندوں کی حاجت پوری کرنے پر پوری قدرت و طاقت رکھتے ہیں اگر شیطان دل میں یہ وسوسہ پیدا کرے کہ زندوں سے مدد مانگنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بعد مرنے کے بھلا مردہ کیا مدد کرسکتا ہے تو فورا اس آیت کریمہ کے متعلق غور کریں جس میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ۔
ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیا ولکن لا تشعرون۔
ترجمہ ! اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ ( پارہ نمبر 2 آیت نمبر13 البقرہ)

غور کیجئے کہ شھدا کرام کا زندہ ہونا قرآن سے ثابت ہے اگر اب صرف ان لوگوں کو ہی زندہ مانیں جولوہے کی تلوار سے راہ خدا میں مارے گئے تو پھر انبیا کرام علیھم السلام اور سید الانبیا کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ دیکھئے تفسیر روح البیان میں اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کی کہ جو لوگ عشق الہی کی تلوار سے مقتول ہوئے وہ اس میں داخل ہیں( یعنی وہ شھدا کی طرح زندہ ہیں )

اب اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ راہ خدا میں مومن لوہے کی تلوار سے مارا جائے یا عشق الہی کی تلوار سے ، بہرحال شہید ہوتا ہے اور شہید کبھی نہیں مرتا بلکہ زندہ ہوتا ہے لہذا انبیا کرام اور اولیائے کرام اس آیت کریمہ کی رو سے حیات ہیں اور پورا تصرف و اختیار رکھتے ہیں دیکھئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
وہ شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں لہذا کہتے ہیں کہ آپ اپنی قبر شریف میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں یعنی زندوں ہی کی طرح بااختیار ہیں ( ہمعات نمبر 11)

چنانچہ شیطانی وسوسے کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دیجئے اور اسے بتا دیجئے کہ اللہ عزوجل کے مقرب بندے حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ اپنی قبر شریف میں حیات ہیں اور ہم مردے سے نہیں بلکہ زندوں سے مدد مانگتے ہیں اور انہیں اپنا مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں اور ان کا یہ اختیار اللہ عزوجل کی عطا سے ہے کہ بغیر اللہ کی عطا کے کوئی نبی یا ولی ذرہ دینے پر قادر نہیں۔ شیطان ایک وسوسہ دل میں یہ بھی ڈالتا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ عزوجل کو ہے غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو غیب کی خبر کیسے ہو سکتی ہے ( معاذ اللہ )*

تو جب ایسا وسوسہ دل میں پیدا ہو تو قرآن پاک کی اس آیت کریمہ پر نظر ڈال لیجئے جس میں حضرت عیسی کا اپنے علم غیب کے متعلق ارشاد ہے ۔
وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ان فی ذالک لا آی لکم ان کنتم مومنین ہ
ترجمہ ! اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع رکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمھارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ ( سورہ آل عمران نمبر 49)
دیکھئے اس آیت کریمہ سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ حضرت عیسی غیب کا علم رکھتے تھے کہ اعلان فرمارہے ہیں کہ جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ بچا کر گھر میں رکھتے ہو مجھے معلوم ہو جاتا ہے ۔ غور فرمائیے کہ یہ علم غیب نہیں تو اور کیا ہے ؟

معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی عطا سے اسکے مقرب بندے غیب کا علم رکھتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ عزوجل کا علم ذاتی ہے اور اس کے مقرب بندوں کا عطائی ہے جو انہیں اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے بغیر اللہ عزوجل کے بتائے کوئی معمولی سا بھی علم رکھنے پر قادر نہیں چنانچہ حضور غوث الاعظم جو کہ سید الاولیا ہیں اور اللہ عزوجل کے بہت ہی محبوب و خاص بندے ہیں اپنے رب کی عطا سے غیب کا علم جو کچھ اللہ عزوجل نے انہیں دیا رکھتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اخبار الاخیار میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں ۔

اگر شریعت نے میرے منہ میں لگام نہ ڈالی ہوتی تو میں تمہیں بتادیتا کہ تم نے گھر میں کیا کھایا ہے اور کیا رکھا ہے میں تمھارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کیونکہ تم میری نظر میں شیشے کی طرح ہو ۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
اللہ عزوجل کے تمام شہر میری نظر میں اس طرح ہیں جیسے رائی کا دانہ ! چنانچہ معلوم ہوگیا کہ اللہ عزوجل بڑی طاقت و قدرت والا ہے اور کوئی اس کا ہمسر نہیں البتہ اس نے اپنی عطا سے اپنے مقرب بندوں انبیا عظام ، اولیائے کرام کو تمام تصرف و اختیار عطا فرمایا ہے جس سے یہ مصیبت زدوں کی مصیبت دور کر سکتے ہیں حاجت مندوں کی حاجت پوری کر سکتے ہیں اور اللہ عزوجل جو کہ عالم الغیب ہے اس نے اپنی عطا سے اپنے بندوں کو بھی علم عطا فرمایا ہے جس کے سبب سے یہ مقرب بندے اگلے پچھلے ظاہر پوشیدہ تمام تر حالات و واقعات سے خوب واقف و باخبر ہیں ۔
وما علینا الا البلغ المبین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1279306 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.