اردو کے نفاذ کا اعلیٰ عدالت کا فیصلہ ۔ عمل درآمد ضروری ہے

 اردو کو بطور سرکاری و فتری زبان رائج کرنے کے حوالے سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جواد ایس خواجہ کا فیصلہ تعمیر پاکسان، مستحکمِ پاکستان و ترقیِ پاکستان کے لیے ایک مستحسن قدم ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ جس کی قیادت جناب جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ کر رہے تھے متفقہ طور پر اردو کو بطور دفتری زبان فوری طور پر نافذکرنے کا حکم جاری کیا۔ اعلیٰ عدالت کے اس تاریخ ساز فیصلے کا جس قدر بھی خیر مقدم کیا جائے کم ہے۔ اس فیصلے کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251کا بلاتاخیر نافذ کرکے پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس کی حقیقی شناخت اور اس کی زبان دے کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔پاکستان کے سپریم کورٹ نے پاکستان کے آئین 1973 ء کے آئینی تقاضے کو پورا کیا ہے ۔ا ن کا یہ اقدام پوری پاکستانی قوم پر احسان عظیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ عظیم کارنامہ پاکستان کی تاریخ میں نہ صرف سنہرے حروف سے لکھا جائے گا بلکہ اسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق 15 سالوں میں یعنی 1985 ء تک اردو کو بطور سرکاری و دفتری زبان کے رائج ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ آئینی و قانونی اقدام سرخ فیتے کی نظر ہوتا رہااور 30سال بیت گئے۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ’ آئین پاکستان کے آرٹیکل 251پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث پاکستان کے کسی شہری کو کوئی تکلیف یا نقصان ہوتا ہے تو وہ شہری حکومت کے خلاف قانونی چارہ چوئی کا حق رکھتا ہے‘۔ اس فیصلے کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں پاکستانی عوام کا وہ طبقہ جو بمشکل اردو ہی لکھ پڑھ سکتا ہے اس کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ اس لیے کہ انگریزی میں جاری کردہ احکامات عام پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔ اس فیصلے کی ایک قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ صوبائی اور علاقائی زبانوں کے فروغ پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔

جو کام گزشتہ68 سال میں ہماری جمہوری وڈکٹیٹر وں کی حکومتیں نہ کرسکیں وہ کام جسٹس (ر) جواد ایس خوانہ نے اپنے مختصر دور چیف جسٹسی میں کر دکھایا۔ خواجہ صاحب کے اس عمل سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اگر کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو، اس میں نیک نیتی بھی شامل ہو تو وہ کام مشکل نہیں ہوتا اسے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ جب کسی کام کو کرنے کی نیت ہی نہ ہو، ارادہ ہی نہ ہو، اندر سے دل صاف نہ ہو تو وہ کام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ انورشعور کا یہ قطعہ کس قدر مناسب ہے ؂
اپنے تٔیسویں چیف جسٹس
صرف چوبیس دن کام کرکے
کچھ بڑے فیصلوں کی بدولت
وہ گئے ہیں بڑا نام کر کے

قومی زبان اور اس کے نفاذ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے اردو کو سب سے پہلے 25فروری 1948ء کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔اس موقع پر پاکستان کے اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ لیاقت علی خان کی یہ فکر سچ ثابت ہوئی ۔ اگراس وقت اردو زبان کو قومی و سرکاری زبان کے طور پر رائج کردیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قانون ساز اسمبلی کی قرار داد کے حق میں ہی بات کی تھی ۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد منعقدہ 24مارچ 1948ء کو واضح طور پر کہا تھا کہ’ صوبے میں سرکاری زبان کے طور پر جس زبان کا چاہیں انتخاب کریں لیکن جہاں تک صوبوں کے درمیان خط و کتابت کا تعلق ہے وہ اردو میں ہوگی۔اردو واحد زبان ہے جو پورے ملک میں بولی و سمجھی جاتی ہے ‘۔ ہم نے 1947ء سے 2015ء تک نہ تو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی قرار داد کو اہمیت دی، لیاقت علی خان اور قائداعظم محمد علی جناح کی باتوں پر عمل کیا اور نہ پاکستان کا دستور1973 جسے بجا طور پر متفقہ دستور کی حیثیت حاصل ہے پر عمل کیا۔ دستور پاکستان 1973کے آرٹیکل 251(1)میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اسے سرکاری اور دیگر استعمال کے انتظامات 15سالوں میں کرلیے جائیں‘‘۔ 68سال گزرجانے کے بعد یہ کام پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے ایک عدالتی فیصلے میں کرکے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے ۔ یہ قانونی پٹیشن ایڈووکیٹ کوکب اقبال نے دائر کی تھی جو اردو زبان کی ترقی نفاذ سے متعلق تھی ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ جس کے سربراہ سابق چیف جسٹس جوا د ایس خواجہ تھے حکومت کو ہدایت جاری کیں کہ وہ آرٹیکل 252 میں دی گئیں اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کرے‘ ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری حکومت اور صوبائی حکومتیں صدق دل سے، ایمانداری سے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں ۔ سرخ فیتے کی ریشہ دوانیوں کو آڑے نہ آنے دیں۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہمارے ملک و قوم کے زیادہ مسائل اس وجہ سے ہیں کہ ہم 68سال بیت جانے کے باوجود اب تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ اردو زبان کے سرکاری طور پر نفاذ اور عمل درآمد سے ہی ہم پاکستانی قوم بن کر ابھر سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں اردو بولنے، سمجھنے، لکھنے ، پڑھنے والے اکثریت میں ہیں ۔اس کے مقابلے میں انگریزی بولنے ، سمجھنے والے تعداد میں کم لیکن طاقت میں بھولو پہلوان ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 68 سال سے وہ اکثریت پر اپنی مرضی مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اردو بولنے سمجھنے والے کم تر جب کہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والوں کا پلہ بھاری ہی نہیں بلکہ وہ اس اکثریتی آبادی پر حکمرانی کررہا ہے۔ پاکستان کے آئین جس میں اردو کے نفاذ کو یقینی بنانے کو کہا گیا اس پر عمل درآمد کو مختلف ھیلے بھانے سے پشِ پشت ڈالا جاتا رہا۔ یہ اردو زبان ہی ہے جو ہمیں ایک قوم بناسکتی ہے۔ چاروں صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرسکتی ہیں،دراصل چاروں صوبوں کی زنجیر یہی اردو زبان ہی ہوسکتی ہے۔ صوبائی اور مقامی زبانیں بولنے اور سمجھنے والے اردو زبان کے ذریعہ ہی ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں۔ ہم اس زبان کے ذریعہ ہی ہم تخلیقی کام میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلیٰ عدالت کے اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے حکومت اس فیصلہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر و دیگر علاقوں میں اردو زبان کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں نافذ کیا جائے اور تمام تر کاروائی
اردوزبان ہی میں کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔

اچھی بات ہے کہ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم ہاوس اور ایوان صدر کے مابین اردو میں خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ نئے چیف جسٹس سے صدر مملکت جناب ممنون حسین نے اردو میں ہی حلف لیا اور تمام تر کاروائی اردو میں عمل میں آئی۔ ایچ ای سی نے جامعات کو اردو میں خط و کتابت کی ہدایت کردی ہے ۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے اردو میں اپنی ویب سائٹ تشکیل دے لی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی سفارتی اہل کار اس انتظار میں تھے تاہم ہمارے سرکاری اداروں کو ابھی اپنی ویب سائٹ اردو میں بھی بنانے کا خیال نہیں آیا۔ امید ہے کہ اس جانب سرکاری اور دیگر ادارے توجہ مبزول کریں گے۔ اسی طرح نفاذ اردو کا یہ سلسلہ جاری رہا تو انشاء اﷲ پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرکے ہم بڑے مقاصد حاصل کرسکیں گے۔

افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عدالت اعظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد انفرادی طور پر بعض شخصیات ، بیورو کریٹس، تجزیہ نگار، اینکر پرسن کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو مشکل ہی نہیں بلکہ اس کے نقصانات سے بر ملا آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک اعتبار سے اچھی بات ہے کہ ان احباب کے خیالات و نظریات سے اس کے منفی پہلوبھی سامنے آسکیں گے ۔ ان لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انگیریزی کے پروردہ ہیں۔ بعض شخصیات ٹی وی ٹاک شوز میں غیر ضروری خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ ہمارا پورا نظام اردو میں ہوجائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا ایم بی بی ایس کے طلبہ اردو میں ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تک کسی ایسی اردو کتاب کا انگریزی یا دیگر زبان میں ترجمہ نہیں ہوا جسے عالمی طور پر شہرت حاصل ہو جب کہ انگریزی کی ایسی بے شمار کتابیں جن کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے موجود ہیں۔اس قسم کی باتیں کرنے والے اور اس قسم کی سوچ رکھنے والے شروع ہی سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ اردو کو اس کا اصل مقام حاصل ہوسکے۔ وہ صرف اشرافیہ کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں بے شمار ملک اور قومیں ایسی ہیں جو انگریزی کے بغیر ہی ڈاکٹر ، انجینئر، سائنس داں اور ماہرین پیدا کررہی ہیں۔ انگریزی پڑھنے اور اس میں مہارت حاصل نہ کرنے کی بات کسی نے نہیں کی۔ انگریزی ضرور پڑھائی جائے لیکن اعلیٰ عدالت کے احکامات کے مطابق ہر سطح پر اردو کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔

انگریزی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں، جس طرح کسی بھی ملک میں اس کی قومی زبان کی اہمیت ہے اور وہ قومی زبان اس ملک میں رابطے کاکام کرتی ہے اسی طرح انگریزی کو عالمی سطح پر رابطہ کی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اردو زبان کے دفتری و قومی زبان کے نفاذ کا مطلب ہر گز ہرگز یہ نہیں کہ انگریزی کو اپنے ملک سے دیس نکالا دے دیا جائے۔ اس کا سیکھنا، پڑھنا ، سمجھنا ، پڑھنا پڑھانا اپنی جگہ قائم و دائم رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو باہر کی دنیا میں ہمارے مستقبل کے معمار، ہمارے نوجوان، ہمارے ھنر مند غیر ممالک میں کس طرح اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔ بے شمار ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پر ان کی زبان کا بول بالا ہے، وہاں کی زبان ہر اعتبار سے وہاں حکمرانی کرتی ہے۔ چین، جاپان، جرمنی میں انگریزی میں خط و کتابت نہیں ہوتی۔ وہاں ان کی اپنی زبان ہی کی حکمرانی ہے۔ وہاں انگریزی بھی ساتھ نہیں دیتی۔ ایک سال قبل میرے بیٹی(فاھینہ)، داماد(عاصم مشکور )اورمیری نواسیاں (نہا، کشف) اورنواسہ (ارحم عاصم) بہ سلسلہ ملازمت جرمنی چلے گئے۔ جرمنی کے شہر ڈوزلڈارف میں ان کا قیام ہے۔ وہاں پہنچ کر سب سے اہم اور مشکل مرحلہ جرمنی سمجھنا اور اسے سیکھنا تھا۔ مختصر وقت میں بچوں نے جرمنی سیکھ لی اور اب وہ اپنے اسکول میں جرمنی اسی طرح بولتے اور سمجھتے ہیں جس طرح پاکستان میں اردو اور انگریزی ، میری بیٹی فاھینہ نے بھی ا چھی خاصی جرمنی سیکھ لی ہے۔ وہاں بھی انگریزی موجود ہے ، ایسا نہیں کہ جرمنی اور دیگر ممالک میں انگریزی نہیں وہ اپنی جگہ اور وہاں کی مقامی زبان اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔تعلیم کے اعتبار سے جرمنی دنیا میں سر فہرست ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے جس قدر مواقع جرمنی میں ہیں کہیں اور کم ہیں۔

جرمنی، چین ، جاپان کو چھوڑدیجئے سعودی عرب میں کتنی انگریزی ہے۔ کیا وہاں کا نظام عربی زبان پر نہیں چل رہا۔ہمارے پاسپورٹ پر exitکی جگہ’خروج‘اورentryکی جگہ’دخول‘کی مہر نہیں لگائی جاتی؟ کیا تاریخیں عربی میں نہیں لکھی جاتیں؟ سعودی عرب میں زندگی کے ہر ہر شعبہ میں عربی کا استعمال ہے۔ انگریزی اپنی جگہ ہے۔ سعودی شہری عربی پڑھتے، بولتے اور عربی بول کر ہی ڈاکٹر بھی بنتے ہیں، انجینئر بھی اور دیگر پیشوں میں بھی اعلیٰ مہارت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ہم اپنے ملک کا نظام اردو میں تبدیل کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا اردو کے نفاذ سے ہمارے بچے ڈاکٹر ، انجینئر ، پائلٹ اور دیگر پیشوں میں اعلیٰ مہارت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یہی وہ دلائل ہیں جو اردو کے نفاذ کے حوالے سے آجکل اخبارات میں اور ٹی وی پر بعض احباب جو اپنے اپنے شعبہ میں نامی گرامی بھی ہیں دیتے نظر آرہے ہیں۔ ان سے صرف اس قدر عرض ہے خدا را68سال بعد اب یہ موقع آیا ہے کہ ہماری حکومت اپنے طور پر نہ سہی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کی پابند ہوتے ہوئے اردو کو اس کا جائز مقام دینے جارہی ہے۔ ٹی وی پر منفی باتیں کرکے حکومتی ذمہ داران اور اداروں کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ اگر حکومت اس فیصلہ پر عمل کرنے جارہی ہے تو اسے اس فیصلہ پر عمل کرنے دیں۔ (14ستمبر2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278741 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More