محبت پھول جیسی ہے - قسط 14

17 فروری 2006 بروز جمعہ
آج میں اس حقیقت سے روشناس ہوئی جس کو میرا دل تو پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا مگر میں نہیں۔
"آج تین دن ہوگئے، دانیال یونیورسٹی نہیں آرہا۔ خیریت تو ہے" میں حیرت سے پوچھتی ہوں
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی دیکھ رہا تھا" کامران چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے
"آج سے پہلے تو کبھی اس نے اتنی چھٹیاں نہیں کی۔۔۔ تو پھر۔ اب۔۔۔۔" چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے مہر کہتی ہے
" اس کی طبیعت وغیرہ تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے فون کر کے پتا کیا ؟؟" کامران کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھتی ہوں
"کافی بار ٹرائے کیا۔۔۔ پر وہ فون ہی نہیں اٹھا رہا ۔۔۔"چائے کا گھونٹ بھر کے میز پر رکھتے ہوئے کہتا ہے
"بخار وغیرہ ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اتنی فکر مت کرو۔۔۔" مہر بے رخی سے کہتی ہے
" نہیں کوئی اور بات ہے۔۔۔۔" اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے جواب دیتی ہوں
"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ تم سب اپنی قیاس آرائیاں بند کرو۔۔۔۔ دیکھنا دو دن بعد خود ہی آجائے گا۔۔۔۔" کامران تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے۔ اس کی بات سن کر مہر اثبات میں سر ہلاتی ہے۔ مگر میری پریشانی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ایک عجیب سی کیفیت اندر ہی اندر سے مجھے گھائل کر رہی تھی۔
"تم لوگ مجھے سمجھ نہیں رہے۔۔۔۔۔لاسٹ ٹائم جب میں اس سے ملی تھی تو اس کا رویہ کچھ عجیب سا تھا۔۔۔" اس کے آنسو ؤں کو یاد کرتے ہوئے "ضرور کوئی بات ہے"
"اس کو چھوڑو ۔۔۔ دانش کے بارے میں سوچو۔۔۔۔ تم نے زندگی دانیال کے ساتھ نہیں بلکہ دانش کے ساتھ گزارنی ہے۔۔" مہر بے رخی سے کہتی ہے
"تم بات بات میں دانش کو درمیان میں کیوں لے آتی ہو ؟؟" غصہ میں اس کو جوب دیتی ہوں
"وہ اس لیے کہ تم حقیقت میں جیو۔۔۔۔"فی الفور جواب دیتی ہے
"میں حقیقت میں ہی جی رہی ہوں۔۔۔ اونچی آواز میں کہتی ہوں
"لیکن مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔۔۔۔۔" منہ بنا کر کہتی ہے
"بس۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔ اب تم دونوں نے یہ جھگڑا کیوں شروع کر دیا؟" کامران ہنستے ہوئے کہتا ہے
" جھگڑا میں نے نہیں۔۔۔ اس نے شروع کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" مہر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے۔ اتنے میں وہاں پر عامر آجاتا ہے
"تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" عامر کو دیکھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دیتی ہوں
"ہیلو فرینڈز۔۔۔۔ کیا ہو رہا ہے؟" عامر چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہتا ہے
"کہا تھے تم تین دن؟ فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے۔۔"مہر مصنوعی غصہ میں کہتی ہے
"آؤٹ آف سٹی تھا یا۔۔۔" بے تکلفی کے ساتھ بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے
" اور فون کیوں نہیں اٹھارہے تھے ؟؟" مہر دوبارہ پوچھتی ہے
"دانیال نظر نہیں آرہا۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ؟؟ " مہر کی بات کو اگنار کرتے ہوئے اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے
"وہ۔۔۔۔۔۔۔۔" کامران چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہتا ہے
" میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔" کامران کی بات کو کاٹ کر عامر کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتی ہے
" یار موبائل کی بیٹری ختم ہوگئی تھی۔۔ اور چارجر بھی کہیں سے نہیں مل رہا تھا۔۔۔اسی لیے میں نے اپنی سِم کزن کو دے دی تھی۔۔ " بے دھیانی سے مہر کو جواب دیتا ہے
"اب تو بتا دو۔۔۔ کہاں ہے دانیال۔۔۔" عامر دوبارہ سوال کرتا ہے
"وہ تو تین دن سے یونیورسٹی نہیں آرہا۔۔۔" کامران بسکٹ اٹھانے کی غرض سے ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہتا ہے ، لیکن خالی پلیٹ کو دیکھ کر منہ بنا لیتا ہے
"کیا ؟؟؟؟؟؟؟ تین دن سے ؟؟؟؟؟؟؟ " حیران ہو کر پوچھتا ہے
"اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے ؟" مہر کندھے اچکاتے ہوئے کہتی ہے
"میں حیرا ن نہیں ہورہا ۔۔۔ بس ویسے ہی کہا تھا۔۔۔۔۔ اچھا چھوڑو۔۔۔ یہ بتاؤ کیا ہورہا تھا؟"
"پارٹی چل رہی تھی۔۔۔۔ اور آپ کا ویٹ ہورہا تھا۔۔۔ کہ جناب صاحب آئیں گے اور آکر پارٹی میں چار چاند لگائیں گے۔۔" گردن ہلا کر جوب دیتی ہے۔۔
"نظر نہیں آرہا ۔۔ چائے پی رہے تھے۔۔۔" چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے ۔" یہ کیا ساری چائے ٹھنڈی ہوگئی۔۔۔" منہ بناتے ہوئے کہتی ہے
"اب زیادہ طنز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔" ہنستے ہوئے کہتا ہے۔۔۔"اور یہ چائے میری وجہ سے ٹھنڈی نہیں ہوئی۔۔۔"
"میں نے کوئی طنز نہیں کیا ۔۔۔۔۔"
"یہ بتاؤ۔۔۔۔تم نے کیا جواب دیا۔۔۔۔" میری طرف متوجہ ہو کر وہ پوچھتا ہے
"کون سا جواب؟۔۔۔۔۔ کیسا جواب؟۔۔۔۔"میں حیرت سے پوچھتی ہوں
"اب زیادہ انجان مت بنو۔۔۔۔ اس بندے کو سب معلوم ہے۔۔۔" ہنستے ہوئے کہتا ہے
" کون سی بات؟ اور کیا معلوم ہے تمہیں۔۔۔۔۔" میرا تجسس مزید بڑھ جاتا ہے
"وہی بات جو 14 فروری کو اس نے تم سے کی تھی۔۔۔۔" عامر کہتا ہے
"ارے ہمیں بھی تو بتاؤ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔" مزاح میں کامران کہتا ہے
"ارے بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہا تھا تمہیں، دانیال نے۔۔۔۔" مہر اکتاتے ہوئے کہتی ہے
"لیکن اس نے تو مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔ اور کیا بات کرنا چاہتا تھا وہ۔۔۔۔۔"
"کیا ؟؟؟؟؟؟ اس نے تم سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ حیرت سے کھڑے ہوتے ہوئے کہتا ہے
" میں کب سے یہی بات کہنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ اور وہ مجھ سے کیا کہنے آیا تھا؟ لیکن مجھے شک ضرور ہوا تھا کہ اس نے کوئی بات کرنی ہے لیکن وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔۔۔"
"ایسا کیسے ؟؟ وہ بغیر کچھ کہے چلا گیا۔۔۔۔۔۔" وہ آہستہ سے نیچے نگاہیں کرتے ہوئے کہتا ہے
"جاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بھی آگئے تھے۔۔۔۔ شائد اس کو میرے اور دانش کے بارے میں۔۔۔۔۔" اپنے آپ بڑبڑاتے ہوئے کہتی ہوں
"دانش ۔۔۔ کون دانش ؟؟؟"حیرت سے عامر پوچھتا ہے
"دانش۔۔۔ اس کا منگیتر۔۔۔۔" فورا ً مہر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے
یہ سن کر وہ بہت زیادہ حیران ہوجاتا ہے اور دھرام سے کرسی پر بیٹھ کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کے چہرے پر پریشانی چھا جاتی ہے اور وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔
"کیا ہوا تمہیں ؟ تم اس طرح کیوں بیٹھ گئے ؟" مہر پریشان ہوکر پوچھتی ہے
"شائد اس لیے وہ یونیورسٹی نہیں آرہا ۔۔۔" اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے
" وہ کس لیے نہیں آرہا ؟؟؟ کیا بات ہے ؟ مجھے بتاؤ گے تم۔۔۔؟" اس کے آگے گڑگڑاتے ہوئے پوچھتی ہوں پر اس بار ایک انجانہ سا خوف بھی غالب آجاتا ہے
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔" یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے جانے لگتا ہے ۔ اس کے چہرے کی رونق جیسے کہیں غائب ہی ہو جاتی ہے
"کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔؟ بات تو مکمل کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی ہوں
"اب تو کچھ باقی ہی نہیں رہا۔۔۔ بات کرنے کو۔۔۔"اس کی آواز میں درد شامل ہوجاتا ہے
"کیا باقی نہیں رہا؟ ۔۔۔ پلز۔۔۔۔ عامر مجھے سچ بتاؤ۔۔۔ آخر کیا بات ہے؟ دانیال کیا کہنا چاہتا تھا؟ اور وہ کیوں نہیں آرہا یونیورسٹی؟۔۔۔ پلز عامر۔۔۔۔"
" وہ۔۔۔۔ کہنا چاہتا تھا ۔۔۔ کہ۔۔۔۔ وہ تم سے پیار کرتا ہے۔۔" ایک انجانی سی دنیا میں کھوئے ہوئے جواب دیتا ہے اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے مجھ سے کسی نے میری دنیا چھین لی ہو۔پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ ہر چیز پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پیچھے سے مہر آکر میرے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہے
"اسی دن کا مجھے خوف تھا۔۔۔۔ اور اسی لیے میں تمہیں ٹوکتی رہتی تھی۔۔اور اب دیکھو۔۔۔" اس کی آواز میں نرمی ہوتی ہے یا ہمدردی؟ اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی جاتی ہے اور کامران ۔ ۔ ۔۔ ۔ وہ بھی خاموشی کے ساتھ گردن ہلاتا ہوا ایک طرف ہوجاتا ہے۔ اور میں وہیں پر بالکل اکیلی رہ جاتی ہوں۔ پل بھر کے لیے تو ہر طرف اندھیرا ہی معلوم ہوتا ہے ۔۔
"میں۔۔۔۔ ایسا تو نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ میں تو صرف۔۔۔۔۔" بے ساختہ آنسو نکلنے لگ جاتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭8
یکم مارچ 2006 بروز بدھ
پچھلے چند دنوں سے میں مسلسل اپنے آپ کو کوس رہا ہوں۔ کبھی دل غالب آجاتا ہے تو کبھی دماغ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ؟؟ ہر وقت کرن سے وہی الفاظ میرے کانون میں گونجتے رہتے ہیں۔ دماغ کہتا ہے کہ یہ تو قسمت کا کھیل ہے تو دل پوچھتا ہے کہ قسمت نے یہ کھیل میرے ساتھ ہی کیوں کھیلا ؟دماغ کہتا ہے کہ محبت تو پھول جیسی ہوتی ہے ایک نہ ایک دن اس کو مرجھانا ضرور ہوتا ہے تو دل پوچھتا ہے کہ اگر واقعی محبت پھول جیسی ہوتی ہے تو میری محبت کے پھول کو کھلنا نصیب کیوں نہیں ہوا؟ کیوں میری محبت کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا؟ کیوں میرے حےو میں محبت کے پھول کی جگہ کانٹے آئے؟ آخر کیا قصور تھا میرا؟ ۔۔۔۔ صرف محبت ۔ ۔۔ ۔۔

میرے اس رویہ سے گھر والے بھی بہت پریشان ہونے لگ گئے۔ آج شب جب میں کمرے میں لیٹا تھا تو میرے پاس امی آئیں اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔
"طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔" میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھتی ہیں
" جی امی۔۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔" فوراً ادباً بیٹھ جاتا ہوں
"میں کافی دنوں سے دیکھ رہی ہوں، تم کہیں کھوئے کھوئے رہتے ہو۔۔۔کیا وجہ ہے؟" وہ پیار سے پوچھتی ہیں
"نہیں امی۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔ بس ویسے ہی۔۔" مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیتا ہوں
" بیٹا! گر تم مجھے ہی اپنی تکلیف نہیں بتاؤ گے تو اور کس کو بتاؤ گے؟"
"امی۔۔۔ جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہیں۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔"ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہتا ہوں
" لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تم ٹھیک ہو۔۔۔" میرے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہتی ہیں
" بس ویسے ہی۔۔۔ دل اداس رہتا ہے۔۔۔ کوئی کام کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔۔" خوابوں کی دنیا میں گم ہو کر جواب دیتا ہوں
"تو۔۔۔۔ اس دل کو قابو میں رکھنا سیکھو۔۔۔آگے تم خود سمجھ دار ہو۔۔۔کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں"
ان کی یہ بات سن کر میرا دل مزید اداس ہو جاتا ہے اور مجھ میں مزید کچھ کہنے کی سکت باقی نہیں رہتی اور میں بہانہ کر کے وہاں سے چلا جاتا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
دانیال کی محبت کیا کرن کے دل میں اپنی جگہ بنا پائے گی؟۔۔۔۔۔ کیا کرن بھی دانیال سے محبت کر پائے گی کبھی ؟۔۔۔ کیا ہوگا آگے؟
جانیے "محبت پھول جیسی ہے" کی اگلی قسط میں
 
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 99142 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More