ایک بھیانک تصویر

آج ہم کس مقام پر ہیں ، اس کی تھوڑی سی تصویر کشی کرتے ہیں ،تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہم کس نہج تک پہنچ چکے ہیں اور کیا ہمیں اس کا احساس بھی ہے……؟قصورکا دل دھلا دینے والا واقعہ ہوا،جس میں گاؤں کے ہر گھر سے بچوں اور بچیوں سے زیادتی ہوئی۔اس پر با اثر لوگوں اور پولیس کی بے حسی کا اندازہ بھی ہوا، ان کی کوئی داد رسی نہ ہوئی ۔آخر سوشل میڈیا پر شورو غل بے چارے متاثرین کی شنوائی کا سبب بنا،میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا ،لیکن آہستہ آہستہ اس واقعہ کا شور ماند پڑگیا ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق لبرٹی کے ہوٹل میں چار با وردی پولیس اہلکاروں نے ثانیہ نامی لڑکی کو چھے روز تک زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا ،جس میں شبہ کیا جار ہا ہے کہ ایس ایچ اور شادمان بھی اس گھناؤنے کام میں ملوث ہے۔مانا والہ میں چار اوباش نوجوانوں نے چھٹی جماعت کے طالب علم کو ہوس کا نشانہ بنا ڈالا،پنڈی بھٹیاں کے نواحی گاؤں کوٹ قادربخش میں ایک پانچ سالہ بچہ جو باہر کھیل رہا تھا ،اُسے زیادتی کا نشانہ بنا دیاگیا،ملتان میں میٹرک کی الوداعی پارٹی میں جھگڑے کا بدلہ لینے کے لئے پروفیسر کے بیٹے کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا، 95 فیصد سے زائد نمبر لینے والے پروفیسر کے بیٹے سے زیادتی کی ویڈیو نیٹ پر ڈال دی گئی ، جس سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گیا ، جھنگ میں قائم بھراوانہ میں زیادتی کا واقعہ ہوا اور بھکر میں 40 سالہ گونگی بہری کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ وہ کیس ہیں جن کی رپورٹ ہوئی، درجنوں واقعات ایسے ہیں، جہاں اپنی عزت بچانے کے لئے زبانیں بند کر لی جاتی ہیں۔

یہ تصویر ہے ہمارے معاشرے کی ۔جسے ہم باشعور معاشرہ کہتے ہیں۔ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو کیسے ان درندوں سے بچائیں……؟یہ سفاک لوگوں کو کون لگام دے گا……؟نہ حکومت انہیں روک رہی ہے ، نہ ہی قانون انہیں لگام ڈال سکا ہے اور نہ ہی معاشرے نے ان درندوں کے لئے کوئی مثبت کردار ادا کیا ہے۔

سزا کیوں دی جاتی ہے؟اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو مجرم کو اپنے کیے ہوئے جرم کا احساس ہو اور وہ آئندہ سے یہ جرم نہ کرے ،دوسرا، وہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے اورکوئی دوسرا ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کر سکے ،مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، ہمیں نہ تو اپنے حقوق کا اندازہ ہے ،نہ بتایا جاتا ہے اورنہ ہی انصاف میسر ہے ۔معاشرے میں کچھ برائیاں اس قدر پروان چڑھ گئی ہیں،جن کی روک تھام کی جانب کسی کا دھیان نہیں ہے۔ اس کی وجہ ارباب اقتدار کی بے حسی اور ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں دوسرے کسی معاملے کی جانب توجہ دینے کے لئے وقت نہیں ہے،اس کے علاوہ ان کے کسی بچے کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوا ہوتا۔

اس درندگی میں بہت سے لوگ ساری زندگی ذہنی مریض بن کر گزارتے ہیں ،کچھ خودکشی تک کر جاتے ہیں اور کسی کو کوئی خبر تک نہیں ہوتی ۔اس تمام صورتحال کا ذمہ دار حکومت عدالت اور معاشرہ ہی تو ہے۔اگر حکومت اپنی عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی،عدالت انصاف نہیں دیتی اور معاشرہ اپنا فرض نبھا تے ہوئے ایسے لوگوں کو بے نقاب نہیں کرتا تو ایسی بھیانک تصویر تو بنے گی۔عوامی محافظ خوفناک جانور بن کر چیر پھاڑ کرنا شروع کر دیں اور ان کی تفتیش بھی انہی کے ’’پیٹی بھائیوں ‘‘ کریں ،نہ ثبوت ،نہ ہی گواہ رہنے دیا جائے اور قانونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجرم سرِ عام پھر رہے ہوں، تو ان درندوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

ایسے غلیظ حرکات میں جو بھی پکڑا گیا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُسے ایسی سزا نہیں دی گئی جس سے دوسروں کو سبق ملے۔ عدالت انصاف کرنے پر آئے تو کرسکتی ہے۔ان کے پاس تمام قوانین موجود ہیں، جن پر انتہائی سخت سزائیں دی جا سکتی ہیں۔میں ساؤتھ کوریا میں ایک عدالتی فیصلے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ایک سات سالہ بچے کو تاوان کے لئے اغواء کرلیاگیا۔ کورین عوام نے اپنے کلچر کو آج بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بچوں سے کوئی زیادتی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن ایک شخص نے بچے کو اغواء کرلیا۔بچہ کیونکہ شور کررہا تھا اس نے اسے چپ کروانے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، جس سے اس کی سانس بند ہوگئی اور وہ مرگیا۔ اس واقعہ کو ٹی وی اور ریڈیو میں مسلسل تشہیر کیا گیا۔ بچے کے گھر والوں کی حالت عوام کو بتائی گئی۔ پولیس نے اپنی کارکردگی سے مجرم کو پکڑلیا۔ مجرم کو عدالت میں پیش کیا گیا، جج نے قانون کے مطابق جرمانہ اور سزا سنائی اور اس کے ساتھ حکم دیا کہ مجرم کو تمام سکولزمیں ہر ہفتہ لے کر جایا جائے،وہاں کے بچے اور ان کے والدین کے سامنے وہ ایک فرضی بنائے ہوئی بچے کو اسی انداز میں پکڑے جیسے اُس نے اغوا شدہ بچے کو پکڑا تھا اور بچہ مرگیا تھا۔ وہاں موجود بچے اور والدین اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ فاضل جج نے ٹی وی پر اُس کو نشر کرنے کا بھی حکم دیا اور ایسا ہی کیا گیا۔ مجرم کو ہر ہفتے ایک سکول لے جایا جاتا جیسے ہی وہ ڈمی بچے کے منہ پر اور گلے پر ہاتھ رکھتا تو لوگ اسے جوتوں اور ہاتھوں سے اُس سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے اور اس منظر کو ٹی وی پر براہ راست دکھایا جاتا۔ ایسی سزا کے بعد کیسے کسی دوسرے کو جرأت ہوسکتی ہے کہ ایسا گھناؤنا جرم سرانجام دے۔
ہمارے فاضل جج صاحبان کو بھی کچھ ایسے فیصلے سنانے ہوں گے، جس سے اس معاشرے میں بڑھتی ہوئی ان خوفناک درندگی سے وارداتیں کرنے والوں کو ایسی حرکت سوچتے ہوئے بھی ڈر لگے۔ حکومت کو بھی ان معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ سیاستدان جو عوام کے نمائندے ہیں۔ انہیں صرف اپنے اقتدار کی سوچ ہے۔ یہ کیا نیا پاکستان بنائے گئے……؟ انہیں سوائے الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو استعفٰی دلوانے کے علاوہ کوئی سوچ نہیں۔ ارباب اختیار کو سنجیدہ ہوجانا چاہیے، سرپانی سے گزر چکا ہے۔ آج عوام خوف وہراس میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کا بیڑہ اٹھانے والوں کو اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ برائیاں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ ان کے اثرات کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں کچھ انداز کرنا ہوگا۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.