محمد یوسف،کماراسنگاکارا اور ہم

 سال 2011-12 میں کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آئیں جن میں محمد یوسف کی کرکٹ میں واپسی کا عندیہ دیا گیا تھا۔اس خبر پر میری خوشی دیدنی تھی چونکہ محمد یوسف میرا پسندیدہ ترین کھلاڑی تھا اور میں تب یہ خیال رکھتا تھا کہ اس کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے بہت سے دوسرے کھلاڑیوں کی مانند انا کی بھینٹ چڑھایا ہے اور وہ ابھی مزید کرکٹ کھیل سکتے تھے۔

اسی بات کا تذکرہ جب میں نے استاد جی سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ محمد یوسف کی واپسی کسی بھی طرح کرکٹ پاکستان کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔اب انکا ریٹائر ہو جانا ہی بنتا ہے۔اسی میں انکا اور پاکستان کی کرکٹ کا فائدہ ہے۔

میں جوکہ حبِ یوسف میں چورو مخمور تھا ایک دم سے بھڑک اٹھا کہ استاد جیسا کرکٹ کا فین اور فہم و فراست والا بندہ ایسے کیسے کہہ سکتا،میں سمجھا انہیں شائد کوئی بھول لگی ہو اور انہیں بتلانے لگا کہ محمد یوسف نے آخری دو ٹیسٹ میچز انگلینڈ کیخلف انگلینڈ میں کھیلے تھے جن میں انکا اسکور 56،33،0،10 رہا تھا اور اس قبل کیویز لینڈ میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کا میں اس کا اسکور کچھ یوں رہا 17،41،0،83،0،77 جسکی اگر ایوریج نکالی جائے تو 7۔31 جو کہ مجموعی طور پرمحمد یوسف کے لحاظ اچھا نہیں لیکن چونکہ یہ رن مشین کا بیڈ پیچ چل رہا تھا اسلئے درگزر فرمائیں اس سے قبل چمپئینز ٹرافی 2009 کی کارگردگی دیکھیں 23،87،45،45 اور انڈیا کیخلاف کھیلی 87 رنز کی اس اننگ کی تعریفیں کرنے لگا اور شعیب ملک کیساتھ ملکر بنائی گئی اس تاریخی ریکارڈ ساز پارٹنرشپ کی اہمیت پر اپنے تئیں موجود ٹمٹاتی لالٹین سے روشنی ڈالنے لگا کہ کیسے پاکستان نے عرصے بعد ایک آئی سی سی ایونٹ میں روایتی حریف کو شکست دی۔

انہوں نے تحمل سے میری بات سنی اور کہا کہ سب درست ہے اور کہا محمد یوسف وہ مجھ سے بھی زیادہ بڑے فین ہیں۔لیکن اب وقت بدل چکا انکے ریٹائر ہونے میں ہی افادیت چونکہ وہ دو سال مزید جو کھیلیں ان میں انکی پرفارمنس 2006،07 والی نہیں ہوگی وہ انکے کیرئیر کا پیک ٹائم گزر گیا یہی دو سال ایک نیا لڑکا کھیلے اسکو تجربہ ملے گا جو کہ اگلی دہائی کے لئے ملک اور کرکٹ کا فائدہ ہے۔

یہ منطق سمجھنے کے لئے مجھے تین ،چار سال لگے بات تب پلے نا پڑی لیکن اب ضرور پلے پڑی ہے۔ اسی سال لنکا کے دو عظیم کھلاڑی ریٹائر ہوئے جوبلاشبہ محمد یوسف کے پائے کے ہی بلے باز تھے۔مہیلا جے وردھنے اور کمارا سنگاکارا دونوں نے کرکٹ کی دنیا کو ورلڈ کپ 2015 کے بعد خیرباد کہنے کا مصمم ارادہ کر لیا لیکن کرکٹ سریلنکا کی درخواست پر سنگا نے محض ٹیسٹ کرکٹ میں کچھ عرصہ مزید کھیلنے پر رضا مندی ظاہر کی۔اور اگست میں انڈیا کیخلاف دوسرے ٹیسٹ کے بعد کرکٹ کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ گئے اور انکو انکے شایان شان طریقے سے گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا گیا۔

جب ان سے ایک یا دو سال مزید کھیلنے کے لئے کہا گیا تو سنگاکارا نے کچھ یوں جواب دیا:
"مجھے نہیں معلوم کہ میری ٹیم میں کیا اہمیت ہوگی اگر میں مزید 12 مہینے کھیلوں"
"مجھے کہا گیا کہ میں مزید دو سال کھیلوں تو میں مزید 1000 رنز بنا سکتا اور شائد میں ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ رنز کرنے والا کھلاڑیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ جاؤں،لیکن اگر آپ اسپر غور کریں کہ کرئیر بڑھانے کی محض یہی وجہ ہے تو پھر یہی درست وقت ہے خیر باد کہنے کا۔"
"میں جب تلک کھیلوں محض کسی ٹیلنٹ کا رستہ ہی روکوں گا"

سنگاکارا کی جانب سے کہے گئے مذکورہ بالا الفاظ اور محمد یوسف کا کرکٹ چھوڑنے کا رویے کا موازنہ کر کے دیکھ لیں آپ کو ہمارے اپنی رویے کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔میں ہر ایک چیز سے چمٹ جاتے ہیں اور پھر اسوقت تلک اسکو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتی جب تک ہم سے وہ جگہ چھین نا لی جائی۔اسکی متعدد مثالیں روزمرہ کی زندگی سے بھی مل سکتی۔ لیکن کرکٹ کی ہی بات چل رہی تو کرکٹ سے ہی مثال ہے کہ 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں محمد یوسف کی جگہ مصباح الحق کو شامل کیا گیا۔اس وقت دونوں کی عمر تقریباً کے لگ بھگ تھی مصباح یوسف سے چند ماہ بڑے ہی ہیں۔اس فیصلے کو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن مصباح کی بیٹنگ نے ناقدین کے چھکے چھڑا دیے۔یوں کرکٹ پاکستان کو ایک کھلاڑی ایک کپتان ملا جس نے اگلے اور ایسے مشکلوں برسوں میں ٹیم کو سنبھالا جب چاروں طرف سے مشکلات آئے روز اپبا گھیرا تنگ کررہی تھیں۔ لاہور حملے کی منحوست کے بادل ابھی چھٹے نہ تھے کہ اسپاٹ فکسنگ کے واقع نے کرکٹ پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ایسے میں مصباح نے ٹیم کو کافی اچھا سہارا دیا۔ یہ الگ بات کہ کافی لوگوں میں مصباح کو لیکر کافی خدشات ہیں لیکن وہ الگ بحث ہے پھر کبھی سہی۔ابھی جو نکتہ اسکو ہی چند اور نقطوں کی صورت سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔

مہیلا و سنگا کے جانے بعد سریلنکا ایکایک کمزور ٹیم لگنا شروع ہو گئی ہے۔لیکن مہیلا و سنگا کی جگہ لینے والی کھلاڑیوں کو معلوم ہے کہ وہی اب ٹیم کے مستقل رکن ہے دو ایک سال میں تجربہ بھی آ جائے گا،ٹیلنٹ کی کوئی کمی پہلے ہی نا ہے۔کچھ عرصہ ٹیم کمزور ضرور لگے گی لیکن پھر پہلی سی حالت پر آنے کی قومی امید ہے۔اس وقت قومی ٹیم میں مصباح و یونس سنئیر ترین کھلاڑی ہیں مصباح41کا آکڑا عبور کر چکے جبکہ یونس 38 کا ہندسہ چھونے کو ہیں۔دونوں کھلاڑیوں کا جلد یا بدیر ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا۔بقول شخصے"اسی وی تسی آں"یہ بھی ہم ہی ہیں اور یہی ہمارا سماجی و عمومی رویہ ہمارے سیاستدانوں سے لیکر حکومتی ملازمین تک،ایک کلرک سے لیکر دوکان کے مالک تک یہی ہمارا رویہ ہے۔ہم کبھی بھی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے یہاں تک ہم سے نیچے والے عاجز آ کر ہمیں ہٹانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں۔کلرک صاب اپنی معینہ مدت سے چند سال مزید نوکری کر کے بھی جگہ چھوڑنے کو تیار اور نہ ہی گلی کی نکڑ میں چھوٹی سے کریانے کی دکان والا چاچا جسکی آنکھوں کی بصارت آئے روز گھٹتی جا رئی اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار ہے۔

محمدیوسف ہو یا سعید انور ، شعیب اختر ہو یا وقار یونس یہاں تک کے وسیم کو بھی ہم ایسے رخصت نا کر سکے جیسے انکو کیا جانا چاہئیے یا جس کے حقدار تھے اور اس بات کا ملال مجھے ایسے کئی ایک پاکستانیوں کو ہوگا لیکن اسکی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے نئے آنے والوں کے جگہ خالی کرنا مناسب نہ سمجھا، پاک کرکٹ میں ایک ہی بندے کو ٹھیک سے الوادع کہے جانے کا موقع ملا اسکا نام انضمام الحق اب معلوم نہیں وہ بھی جگہ چھوڑتے یا نہیں لیکن 07 کے ورلڈکپ میں حالات ایسے ہو گئے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ لینا پڑا۔ انکے اس فیصلے کا ہر طرف سے خیر مقدم کیا گیا۔ پی سی بی کی جانب سے انہیں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں الوداعی میچ کھیلایا گیا جس میں ایک انکلوژر انکے نام سے منسوب کیا گیا۔آیا یہ فیصلہ انکا اپنا تھا یا حالات کی مجبوری لیکن اس فیصلے نے انکو وہ عزت دلوائی جسکے وہ حقدار تھے۔

اگر اسی بات کو کرکٹ سے ہٹ کر تھوڑی سیاسی پس منظر میں دیکھا جائے تو شائد ہی جنرل مشرف ہی واحد ایسے صدر جنکو صدرات کے عہدے سے معزول/برطرف نہیں کیا گیا بلکہ عزت کیساتھ عہدے کی لاج کیمطابق انکو رخصت کیا گیا اور نئے صدر کو عہدے کا چارج دیا گیا۔دیکھا جائے تو جنرل مشرف صاب بھی عہدہ چھوڑنے کو تیار نہ تھے لیکن انہوں نے حالات سے مجبور ہو کر یہ فیصلہ لیا تو انکی رخصتی بھی باعزت طریقے سے ہوئی ورنہ وہ بھی تارڑ صاب کی طرح تانگے پر بیٹھ کر گھر جا رئے ہوتے۔

قصہ مختصر، اپنی بات کو یوں سمیٹوں گا کہ ہمیں خود ہی اپنی جگہ خالی کرکے نئے آنے والوں کو موقع دینا ہوگا۔اسی میں ہماری اور قوم کی فلاح ہے۔ہمیں عمومی سماجی رویوں سے ہٹ کر فیصلے کرنے ہوگے یہی مثبت تبدیلی ہے اور یہی بہتری کی امید۔اسکے علاوہ ہمیں بات سمجھنے میں بھی ضرورت سے زیادہ وقت لگتا ہے اور ہم ہمیشہ تبھی ہی بات کو سمجھتے ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا۔یونہی بات ہی رہ جاتی مقصد جاتا رہتا۔
 
عبداللہ
About the Author: عبداللہ Read More Articles by عبداللہ: 4 Articles with 3527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.