بچوں کی خودکشی یا معاشرتی قتل

کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ میں واقع نجی اسکول میں دو طلباء کی خودکشی کی خبر نے نہ صرف دل دہلا دیا بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ میٹرک کے دو بچوں نے خودکشی کرلی انھیں ایک دوسرے سے محبت ہوگئی تھی لیکن والدین کو ان کی یہ محبت پسند نہیں تھی مختلف ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ان دونوں بچوں کے خطوط پڑھنےکے بعد ذہن میں بہت سے سوالات ابھرنے لگے ان بچوں کی نادانی میں کی حرکت سے ان کی جان چلی گئی لیکن بہت سے داناؤں کے لیئے کئی سوالات چھوڑ گئی مناسب نہیں لگتا کہ اتنے بڑے المیے کے بعد اس حادثے کے رونما ہونے کے دوران واقعات پر تبصرے کیئے جائیں لیکن وہ اس لیئے ضروری ہے کہ آئیندہ ایسے واقعات سے اپنے ہونہاروں کو بچایا جاسکے۔

سب سے پہلا سوال کھڑا ہوتا ہے دونوں بچوں کی گھریلو تربیت پر کہ ان بچوں نے ایسا انتہائی قدم کیوں اٹھایا جب کہ ابھی دونوں بچے زیر تعلیم تھے اور ہمارے اس معاشرے میں شادی کے لیئے صاحب روزگار ہونا اشد ضروری ہے تو ابھی سے انھوں نے اپنے والدین کو لکھے گئے آخری خط میں ذکر کیا کہ آپ اس سے میری شادی نہیں ہونے دینگے اس وجہ سے یہ قدم اٹھارہےہیں تو ایسا کیا ہوا ان کے والدین کی طرف سے کہ انھیں یہ غلط قدم اٹھانا پڑا۔

پھر سوال کھڑا ہوتا ہے اس درسگاہ پر جہاں وہ زیر تعلیم تھے اور انھوں نے اسکول کی اسمبلی میں جانے کے بجائے کلاس روم میں خودکشی کرلی اسکول میں اساتذہ کی زمہ داری صرف نصابی کتابیں پڑھانا نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنا بھی ان پر نظر رکھنا بھی ہے کون اسمبلی کے لیئے موجود ہے کون نہیں یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے اگر بچے کسی غیر معمولی سرگرمی میں مصروف نظر آئیں تو ان کے والدین کو آگاہ کرنا بھی اساتذہ کی ذمہ داری ہے ہر ماہ اسکولوں میں اساتذہ والدین کی ایک میٹنگ انھی باتوں کی آگاہی کے لیئے بلائی جاتی ہے میں معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا کم عمری میں عشق محبت جیسے یہ واقعات اکثر اسکولوں میں ہی ہوتے ہیں ایسے ہزاروں دوسر ے ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جن سے ان لوگوں کی رائے کو بہت تقویت ملتی ہے کہ کم از کم اسکول کی سطح تک مشترکہ نظام تعلیم نہیں ہونا چاہیے یا کم از کم ہائی اسکولز لڑکے اور لڑکیوں کے الگ ہونے چاہیئے ۔

ایک بہت بڑا سوال اٹھتا ہے ہمارے معاشرے پر جہاں سب سے زیادہ اثر میڈیا اور شوشل میڈیا کا نظر آتا ہے جہاں انٹرنیٹ نے دنیا کے فاصلے کم کردیئے ہیں لیکن ایک گھر میں رہنے والوں کے درمیان بہت فاصلے پیدا کردیئے ہیں مختلف خبروں میں یہ بھی دیکھایا جارہاہے کہ لڑکے نے فیس بک پر ایسے مواد پوسٹ کیئے تھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے باوجود والدین اس بات سے لاعلم رہے یہ بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ باتیں جو والدین کو بچوں سے یا بچوں کو والدین سے کرنی چاہیئے وہ سوشل میڈیا پر کی جاتی ہیں گھریلو ناچاقی تک کا ذکر سوشل میڈیا پر کیا جاتاہے ۔

اب اس واقع کے بعد جہاں وہ دونوں بچے جان سے گئے ان کے والدین اور گھر والوں پر ایک قیامت ٹوٹ گئی لیکن سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے میں سینکڑوں ایسے پیج ، گروپس اور کمیونٹی بن گئی ہیں جو ان بچوں کی موت پر طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں بحرحال یہ سب تفتیشی اداروں کا کام ہے کہ اصل ماجرہ کیا تھا اس طرح کے مواد کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے نہ صرف ان بچوں کے لواحقین کے دکھوں اور زہنی اذیت میں مزید اضافہ کرے گا بلکہ شوشل میڈیا استمال کرنے والے کم عمر بچوں کی ترغیب دینے کا باعث بھی بنے گا ۔لیکن جو حقیقت ہے وہ یہ کہ ان دونوں بچوں کی موت کے ذمہ دار یہ پورا معاشرہ ہے جہاں بے حسی عدم توجہ اور لاپرواہی عروج پر ہے اور ہر روز اس طرح کے واقعات جنم لے رہے ہیں جہاں بچوں کے انٹرنیٹ کے استمال کا کوئی دائرہ حدود نہیں انھیں دیکھا تک نہیں جاتا کہ وہ انٹر نیٹ کا استمال کس طرح کررہے ہیں والدین یہ دیکھ کر مطمعن ہوجاتے ہیں کہ بچے کم از کم گھر پر ہی مصروف ہیں اساتذہ اس پر مطمعن ہیں کہ ہم بچوں کو نصاب پڑھا رہے ہیں لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بہت ضروری ہے جو سب سے پہلے والدین کا کام ہے انہیں بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی روشناس کرانا ہوگا ایست واقعات رونما ہونے کی ایک بڑی وجہ دینی تعلیم سے دوری بھی ہے انسان ایک دفعہ پیدا کیا گیا اور ایک ہی دفعہ اسے مرنا ہے پھر اپنے رب کے سامنے حاضری دینی ہے کوئی دوسرا جنم نہیں ہونا یہ سب دنیاوی اور فضول باتیں ہیں انسان کو اللہ کی طرف سے عطاء کردہ نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت انسان کو زندگی دی گئی خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ، ماں باپ کے آگے اف تک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ باتیں بچوں کو ہم نے بتانی ہے ہم نے سیکھانی ہے ہم نے تربیت کرنی ہے ، سوشل میڈیا کا تو یہ حال ہے کہ اس نے ہماری قومی زبان تک کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے رومن اردو ایک نئی زبان متعارف ہوگئی ہے یہ کون سی زبان ہے یہ کون لوگ بولا کرتے تھے اس کی تاریخ کیا ہے کیوں یہ زبان شوشل میڈیا پر اپنے عروج پر ہے ان مرحوم بچوں کے خط سے اندازہ کرلیں کہ رومن اردو نے شوشل میڈیا پر کس حد تک سرائیت کرلی ہے ۔ آج اسکول کے بچے سے پوچھو کہ سب سے مشکل مضمون کون سا ہے تو کہا جاتا ہے اردو مضمون مشکل لگتا ہے یہ باتیں لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب تربیت کے زمرے میں آتی ہیں ہر چیز حکومتیں نہیں کرتی ہمیں اپنی زمہ داری بھی پوری کرنی ہونگی اس معاشرے کے سدھار کے لیئے اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا جب اپنے بچوں اپنے طلباء کی تربیت کریں گے تبھی ایک تربیت یافتہ معاشرہ میسر آئے گا۔

ٹی وی پروگرامز بچوں کی نفسیات پر بے پناہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹی وی پروگرامز کے لیے لیبل وضع کیے گئے ہیں تاکہ والدین اپنے بچوں کو وہ پروگرام دیکھنے سے روک سکیں جنہیں دیکھنے سے ان کی شخصیت پر منفی اثر ہو سکتا ہو۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں بھی والدین اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کر پاتے، جبکہ ہمارے ملک میں تو والدین کو اس بارے میں علم بھی نہیں کہ ٹی وی پروگرامز کے بارے میں اس طرح کی پابندیاں وجود رکھتی ہیں۔

گھر پر اسلحہ رکھنا اور اس تک بچوں کی آسانی سے رسائی ہونا آخر کس کی غلطی ہے؟ حقیقت میں تو بلاوجہ گھر پر اسلحہ رکھنا ہمارے اسی اسلحہ کلچر کی ہی دین ہے، جو ہمارے ملک کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔

اگر آپ ان کی کوئی بات پوری نہیں کر سکتے، تو انہیں نرم انداز میں سمجھائیں، اور اپنے فیصلے کے حق میں دلائل دیں۔ تیز آواز میں بات کرنا، غصہ کر کے ان سے اپنی خواہش دبانے کو کہنا، یا ان کی بات پر توجہ نہ دینا بچوں میں منفی جذبات کو جنم دیتا ہے۔ کچھ بچے اس طرح دہل جاتے ہیں، لیکن زیادہ بے خوف بچے کبھی کبھی دلبرداشتہ ہو کر غلط قدم بھی اٹھا بیٹھتے ہیں۔
 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 149440 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More