اہلبیتِ اطہار کی محبت و افضیلت

اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں اہلبیتِ کرام سے محبت کا حکم فرمایا ہے :

قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی۔
ترجمہ : اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرما دیجئے! میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ہوں بجز قرابت داروں کی محبت کے
(سورۃ شوریٰ : 23)
جامع ترمذی شریف میں حدیثِ پاک ہے (حدیث نمبر: 3722) سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ سے محبت کیا کرو کیونکہ وہ تمھیں نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے اور اللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کیا کرو اور میری محبت کی خاطر میرے اہلبیت سے محبت کیا کرو۔

(جامع ترمذی شریف، ج 2 ، ص219، باب مناقبِ اہل بیت۔ زجاجۃ المصابیح ج5 ص314/315)

سننِ ابن ماجہ شریف و جامع ترمذی شریف کی روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

والذی نفسی بیدی لا یدخل قلب رجل الایمان حتیٰ یحبکم للہ و رسولہ ( جامع ترمذی شریف، باب مناقب العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، ج 2، حدیث نمبر 3691) وفی روایۃ ابن ماجۃ یحبھم للہ ولقرابتھم منی ( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 137)
ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے۔ کسی شخص کے دل میں ایمان داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تم (اہلبیت) سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر محبت نہ کرے۔ سنن ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں جب تک کہ وہ ان (اہلبیت) سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔

اور حدیث شریف میں ہے
ادبو اولادکم علی ثلاث خصال حب نبیکم وحب اہلبیتھ وتلاوۃ القران۔
ترجمہ: تم اپنی اولاد کو تین باتوں پر تربیت کرو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، آپ کے اہلبیت اطہار کی محبت اور تلاوت قرآن
(الفتح الکبیرللامام السیوطی)

ارشادِ خداوندی ہے: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو تم سے ہر ناپاکی کو دور فرما دے اور تمھیں پاک کر کے خوب صاف ستھرا کر دے
(سورۃ الاحزاب: 33)

اس آیتِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اہلبیت کو ہر قسم کی فکری، اعتقادی، عملی ، اخلاقی، ظاہری و باطنی نجاستوں پاک و صاف ، طیب و طاہر رکھا ۔
اس کے شانِ نزول کے متعلق ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں : جس وقت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں رونق افروز تھے اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: اے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والو ! بیشک اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ ہر گندگی کو تم سے دور رکھے اور تمھیں مکمل پاکیزگی عطا فرمائے۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنھا، حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کویاد فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے اہلبیت ہیں۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اہلبیت سے نہیں ہوں؟ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں تم بھی اہلبیت سے ہو۔ (زجاجۃ المصابیح ج 5 ، ص 316)



اللہ تعالی کے لطف و انعام، فضل و احسان کا تقاضہ یہ ہے اس منعمِ حقیقی سے محبت کی جائے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لئے سرکار سے محبت کی جائے، حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کے لئے اہلبیتِ اطہار سے محبت کی جائے۔

گو کہ حضراتِ اہلبیت کی محبت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حصولِ محبت کے لئے زینہ ہے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت زینہ ہے اللہ کی محبت کے حصول کے لئے۔ جو کوئی انسان قرب الٰہی کا متمنی ہو اور بارگاہِ ایزدی میں باریابی چاہتا ہو تو اس کے لئے راستہ یہی ہے کہ وہ حضراتِ اہلبیت ِ کرام سے محبت کرے جس کے نتیجے میں سے قربِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ملے گا اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ ِ اقدس سے اسے پھر بارگاہِ رب العزت کا قرب نصیب ہوگا۔


ایمان تمام عبادات واحکام کے لئے شرط کا درجہ رکھتا ہےاور اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے لئے محبتِ اہلبیت شرط ہے۔

٭٭٭ محبت کا معیار ٭٭٭
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت کرنے کا حکم فرمایا اور معیارِمحبت بھی بتا دیا: حبک الشیء یعمی ویصم ( سنن ابو داؤد شریف) محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے یعنی محب اپنے محبوب کے اندر نہ کوئی عیب دیکھ سکتا ہے اور نہ اس کے متعلق کوئی عیب سن سکتا ہے۔

معیارِ محبت یہ ہے کہ محبوب کے اندر عیب ہو تب بھی دکھائی نہ دے اور اللہ سبحانہ وتعالٰی اور اس کے حبیب ِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن نفوسِ قدسیہ سے محبت، الفت و عقیدت کا حکم فرمایا ان ذواتِ قدسیہ کی پاکیزگی و طہارت کا اعلان بھی خود فرمایا ہے اور ان سے ہر طرح کے رجس و عیب کی نفی فرمائی ہے۔

اگر کوئی اس اعلانِ خدا کے بعد بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی نامناسب چیز منسوب کرتا ہے یا ان کے پاکیزہ کردار پر انگلی اٹھاتا ہے اور ان پر دنیا داری کا الزام لگاتا ہے، تو وہ ان پر اعتراض نہیں کر رہا ہے بلکہ آیتِ قرآنی پر اعتراض کرہا ہے اور ساتھ ساتھ اصولِ محبت کی خلاف ورزی کر کے دائرہِ محبت سے نکل جاتا ہے۔

حضور شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلبیتِ کرام سے جہاں محبت کا حکم فرمایا وہیں محبینِ اہلبیتِ کرام کے لئےمژدہِ جنت و نویدِ شفاعت عطا فرمایا : شفاعتی لامتی من احب اہل بیتی و ھم شیعتی (کنزالعمال، ج 13) میری شفاعت میری امت کے ان خوش نصیبوں کے لئے ہے جو میرے اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں۔
(دیلمی، کنزالعمال، ج 13) میں حدیثِ پاک ہے:
اربعۃ انا لھم شفیع یوم القیامۃ، المکرم لذریتی والقاضی لھم حوائجھم، والساعی لھم فی امورھم عند مااضطرواالیہ، والمحب لھم بقلبہ ولسانہ۔
ترجمہ: چار خوش نصیب ایسے ہیں میں قیامت کے دن ان کی شفاعت کرونگا:
(1) میرے اہلبیت کی تعظیم و تکریم کرنے والا
(2) ان کے لئے ان کی ضرورت کی چیزیں پیش کرنے والا
(3) ضرورت کے وقت ان کے امور کا بندوبست کرنے والا
(4) اور دل و زبان سے ان کی محبت رکھنے والا۔
زجاجۃ المصابیح ، جلد 5، ص 315 میں مسند امام احمد کی روایت ہے: عن ابی ذر قال وھو آخذبباب الکعبۃ سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا ان مثل اہل بیت فیکم مثل سفینۃ نوح من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا ھلک رواہ احمد۔

سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبکہ وہ بابِ کعبہ کو تھامے ہوئے تھے: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: آگاہ رہو بےشک میرے اہل بیت کرام کی مثال تم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے جو اس میں سوار ہو نجات پالیا، اور جو اس سے پیچھے رہا ہلاک ہوگیا۔
(مشکٰوۃ المصابیح ج2 ص 573، زجاجۃ المصابیح ج5 ص 315)
 

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1274572 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.