تندرستی ہزار نعمت ہے

تندرستی ہزار نعمت ہے اس لئے دنیا میں تندرستی سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں، اکثر وبیشتر یہ جملہ سننے میں آتاہے کہ تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک تندرستی بھی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قدرت کی دیگر تمام نعمتوں سے لطف اندوزہونے کے لیے تندرستی اور اچھی صحت بنیادی شرط ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اگر انسان صحت مند اور توانا ہو تو وہ ہر مشکل کام کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ زندگی بھر ہر شخص خود کو دکھوں تکلیفوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور بیماری کی صورت میں مارا مارا پھرتاہے ، مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے

اس کا یہ مطلب نہیں کہ تندرستی اسی صورت میں ہزار نعمت ہے جب انسان تنگ دست نہ ہو غالب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تنگ دستی نہ ہو بلکہ خوشحالی ہو تو تندرستی اور بھی زیادہ نعمت بن جاتی ہے۔ اچھی صحت کے لیے مناسب خوراک ،صاف پانی،ورزش، صفائی، مناسب آرام اور زندگی میں باقاعدگی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صحت عامہ کئی مسائل سے دوچار ہیں۔اکثریت لوگوں کی معیار زندگی پست ہیں، انہیں نہ تو مناسب خوراک میسر ہے اور نہ ہی مناسب طبی سہولتیں میسر ہیں۔ پاکستان میں ہر 1400 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر 326 افراد کے لیے ایک نرس اور 1531 افراد کے لیے ہسپتا ل کا ایک بیڈ میسر ہے، جو بین الاقوامی میعار سے بہت کم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اوسط عمر 60 یا 70 سال ہے۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے عوام کی اکثریت حفظان صحت کے اصولوں سے بالکل نا واقف ہے۔یہ لوگ اپنے علاج کے لیے پہلے تعویزگنڈوں کا سہارالیتے ہیں اور جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں ۔عوام صفائی کا شعور نہیں رکھتے۔ لوگ مکانوں کے قریب گلیوں میں کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں،جن سے بدبو اور جراثیم پرورش پاتے ہیں اور اکثرعلاقے وبائی امراض کا شکار رہتے ہیں ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے ۔آج بھی بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔اسی طر ح خوراک کی ہر چیز میں ملاوٹ کا یہ رجحان ہو گیا ہے کہ آج عوام کو گدھے ،گھوڑوں کا گوشت بھی کھلایا جا رہا ہے۔آجکل بیماری کے ہاتھوں اتنے مریض نہیں مرتے جتنے غیر معیاری ادویات سے لو گ مر رہے ہیں ۔75 فیصد ادویات میں ملاوت ہوتی ہیں ۔بہت سے جعلی ڈاکٹر ایسے ہیں جن کے پاس کو ئی باقاعدہ میڈیکل کی ڈگری نہیں ہوتی ہے بلکے یہ لوگ کسی میڈیکل سٹور پر چند سال کام کرکے اور چند ادویات کے نام یاد کر کے کسی گاؤں میں کلینک کھول کر عوام کی جانوں سے کھیلتے رہتے ہیں جبکہ اصلی ڈاکٹر بھی کسی سے کم نہیں ہیں یہ سرکاری ہسپتالوں میں حاضری لگا کر اپنے پرائیویٹ کلینک میں بھاری فیس وصول کر کے خوب کمائی کرتے ہیں۔اور بغیر ٹیسٹ کے یہ علاج شروع ہی نہیں کرتے ہیں۔غرض عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہاہے اور کوئی ان کی شنوائی کرنے والا نہیں ہے۔جب تک ہم اپنے ملک سے صحت کے نام پر لوٹ مار ختم نہیں کریں گے اور تمام سرکاری ہسپتالوں کو حالت بہتر نہیں بنائیں گے نظام صحت کبھی بہتر نہیں کر سکیں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Jamal Ur Rehman Siddiqui
About the Author: Jamal Ur Rehman Siddiqui Read More Articles by Jamal Ur Rehman Siddiqui: 2 Articles with 2749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.