شوگر

میٹھا کھانے کی خواہش کہاں سے جنم لیتی ہے؟کیا چینی کھانے سے واقعی انسان اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے؟ کیا چینی پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟کیا چینی کھانے سے زیابیطس ہوتی ہے؟ان چند سوالوں کے جواب جرمن انسٹیٹیوٹ آف کونزیوم کی ایکسپرٹ اور ماہر حیاتیات پروفیسر سوزن کلاؤس نے اخباری نمائندے کو تفصیلاً دئے کہ آپ کے سامنے من پسند چاکلیٹ کا ٹکڑا پڑا ہے اور منہ میں پانی بھر آیا ہے آپ کو بھوک بھی نہیں ہے لیکن آپ محسوس کرتے ہیں کہ میٹھا کھانا چاہئے اور چاکلیٹ کھا لیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ میٹھا کھانے کی خواہش کیوں اور کہاں سے پیدا ہوتی ہے،اس کی کئی وجوہات ہیں،پہلی یہ کہ ایک انسان میٹھا کھائے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ پیدائشی عمل میں شمار ہوتا ہے جیسے پیدا ہوتے ہی بچے کے منہ میں میٹھا دیا جاتا ہے اور وہ میٹھے بغیر کچھ اور طلب نہیں کرتا بدیگر الفاظ انسان پیدائشی طور پر میٹھا کھانے کا عادی ہے اور بالخصوص کھانا کھانے کے بعد ہر انسان سوئٹ ڈش کھانے کی خواہش رکھتا ہے۔دوسری بات یہ کہ میٹھی اشیاء ہمیں ذائقہ دار اور لذیذ محسوس ہوتی ہیں اور تیسری بات چینی ہمارے دماغ میں کئی مثبت رد عمل مثلاً متحرک اور بہبود فراہم کرتی اور بعض خلیات کو موثر طریقے سے حرکات میں رکھتی ہے جس سے ذہنی سکون میسر ہوتا ہے تجربات بتاتے ہیں کہ چینی اور چربی کا ایک خاص مقدار میں استعمال مجموعی طور پر انسانی جسم کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انسان جسمانی اور روحانی طور پر پُر سکون رہنا چاہتا ہے اس لئے انسانی جسم کیلئے چینی اتنی ہی مفید ہے جتنا پانی یا نمک اور دیگر متبادل غذائیں،چینی یا نمک ذائقہ دار کونزیوم ہیں جو کھانوں کو لذیذ بناتے ہیں اور عام طور پر ان کے استعمال کو عادت نہیں کہا جا سکتا بلکہ روزمرہ اور ضروریاتِ زندگی کیلئے اہم جز ہیں، لیکن زیادہ مقدار میں کسی بھی کونزیوم کا استعمال صحت کے لئے مضر ہے،چینی کا ایک تجربہ چوہوں پر کیا گیا کئی ماہ انہیں چینی کھلانے کے بعد اچانک ترک کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ان کا ذہنی توازن بگڑنے لگا اور دماغی خلیات میں نمایاں طور پر تبدیلیاں نمودار ہوئیں چونکہ چینی کا تجربہ انسانوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا اس لئے محقیقین کا کہنا ہے چینی کا استعمال کم سے کم کیا جائے نہیں تو عادت بن سکتی ہے۔کئی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسان پر چینی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا کیونکہ چینی ایک غذا ہے نہ کہ ہیروئین یا نکوٹین وغیرہ کہ اسکی عادت میں مبتلا ہوجائیں، اگر آپ کو چاکلیٹ کی خواہش ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ چینی یا میٹھا کھانے کی عادت میں مبتلا ہیں عام طور پر کھانے کے بعد چاکلیٹ ،کیک وغیرہ مخصوص مقدار میں کھایا جا سکتا ہے لیکن کوشش کی جائے کہ پھلوں کا کوسوئٹ ڈش کے طور پر استعمال کریں چینی سے تیار کردہ تمام پروڈکٹس سے دور رہیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں اور یہ سوچیں کہ چینی صحت کے لئے نقصان دہ ہے یہ سچ ہے کہ مکمل طور پر میٹھا کھانے سے گریز نہیں کیا جا سکتا لیکن کمی کی جا سکتی ہے ۔چینی میں بہت کیلوریز شامل ہیں جو تیزی سے خون میں شامل ہو جاتی ہیں اور انسولین کی سطح کو بڑھاتی ہیں اور موٹاپا پیدا کرتی ہیں چینی کی ملاوٹ کے سافٹ ڈرنکس میں بھی بہت زیادہ مقدار میں کیلوریز پائی جاتی ہے ہم محسوس نہیں کر پاتے اور رفتہ رفتہ عادت بن جاتی ہے بھاری اجسام کے افراد کیلئے چینی نہایت نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔مٹھاس ایک سیب اور خربوزے میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ پھلوں کے رس میں قدرتی طور پر مٹھاس شامل ہوتی ہے لیکن چاکلیٹ یا آئس کریم سے موازنہ نہیں ہوتا پھل جسمانی نظام کو اتنا متحرک نہیں کرتا کیونکہ پھلوں کو چبائے بغیر کھایا نہیں جا سکتا جبکہ چاکلیٹ یا آئس کریم فوراً منہ میں جاتے ہی جذب ہو جاتے ہیں اور ایک خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے،اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو چینی کی مقدار کو محدود کرنا لازمی ہے اور متبا دل اجزا پر انحصار کرنا ہو گا۔کئی تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ چینی کا استعمال عادت نہیں لیکن دماغی خلیات کو ایکٹو رکھتی ہے زیادہ مقدار میں استعمال سے عادت بن سکتی ہے اگر آپ چینی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ذہن کو آمادہ کرنا ہوگا کہ چینی نقصان دہ ہے تب ہی آپ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.