مشرق وسطی میں پاکستان کی اہمیت……

پچھلے دنوں انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی کے حوالے سے سرچ انجن گوگل پر،سوشل میڈیا پر بعد ازاں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ایک معلومات شیئر کی گئی کہ ایک سروے کے مطابق نریندر مودی کو دنیا کا احمق ترین(stupid) وزیر اعظم ڈکلیئر کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ان کی بڑی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔اس میں ان کے اپنے کرتوت اور اپنے آپ کو expose کرنے کے طریقے کہ کبھی اپنے سوٹ پر اپنا نام پرنٹ کروانا کبھی یوگا کی کلاس دینا وغیرہ بھی شامل حال رہا مگر اس احمق ترین وزیراعظم نے پاکستان اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے حوالے سے کبھی بھی کوئی احمقانہ قدم نہیں اٹھایابلکہ ہمیشہ پاکستان کو رسواکرنے کے منصوبے بنائے ان میں تازہ ترین اور دانشمندانہ اقدام عرب امارات کی طرف قدم اٹھانا ہے اور ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے جب پاکستان کے دیرینہ دوست اور وزیراعظم کو سیاسی پناہ دینے والے ملک سعودی عرب پر یمن کے معاملے پر پاکستانی گورنمنٹ نے جھنڈی کرادی اور اپنے آپ کو غیر جانبدار ہونے کا اعلان کیا تو انڈیا نے فورا اس خالی جگہ کو پر کرنے کیلئے لیبک یا اخی کہہ کر مودی کو عرب امارات روانہ کیاجہاں پرعرب شیوخ نے نہایت گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور بھارتی وزیراعظم کو ایک سٹیڈیم میں ہندو کمیونٹی کے سامنے پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی کھلے عام اجازت دے دی۔یہ فعل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگر پاکستان اپنی صلاحیتوں کو دوست ممالک کیلئے بروئے کار نہیں لا سکتا تو پھر بھارت کو اپنا حامی بنانے میں کو امر مانع نہیں ہونا چاہئے

بھارت کا مذاکات سے فراراور کشمیر ایشو کو پس پشت ڈالنے کی تجویز دینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اب بھارت کو خطے میں امن کیلئے پاکستان کی طرف دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔اگرچہ پاکستانی حکومت اور سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ میں پاکستان میں’ را‘ کی در اندازی اور دخل انداری کے ناقابل تردید ثبوت بھی پیش کئے۔دہشت گردانہ کارروائیوں اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے واضح شواہد بھی اقوام متحدہ میں منظر عام پر لائے گئے جس بنا پر پاکستان کو ہمدردیاں سمیٹنے کا مواقع بھی میسر آئے۔مگر یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پاکستان نے مشرقی وسطی میں اپنے وقار اور اہمیت پر سوالیہ نشان چھوڑ دیئے ہیں اور مستقبل میں یہ سوالیہ نشان جگہ جگہ ہمارا پیچھا بھی کریں گے مثلا اس کا اثر پاک چین راہداری پر بھی پڑے گا ایران سے تعلقات بھی غیر مستحکم ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں اسی طرح ریاض کابل ابوظہبی بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کررہے ہیں یہ ایک نہایت ہی گھمبیر مسئلہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو مقام پاکستان کو عرب ممالک میں حاصل ہے اسے کسی طور بھی بھارت حاصل نہیں کرسکتا مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری خارجہ پالیسیوں پر کمزور گرفت قوت فیصلہ کا نہ ہونا کسی بھی پالیسی کو بروقت نافذ العمل نہ کرنا لیت و لعل سے کام لینا بھی ہماری کمزور سفارت پردلالت کرتا ہے۔

پاک ہند تعلقات گذشتہ چھ عشروں میں کبھی بھی اس قابل نہیں رہے کہ ان پر اظہار اطمینان کیا جاسکے یا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاسکے۔ اس طویل عرصے کے د وران دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں لڑی جاچکی ہے جن پر سوائے افسوس کے کو ئی چارہ نہ ہے اوریہ جنگیں تاریخ میں پستی اور تنزلی کے طور پر تحریر کی گئیں ہیں ۔دو پڑوسیوں کا اس طرح باہم دست و گریباں ہونا ایک دوسرے پر فوج کشی کرنا اور ایکدوسرے کو موردالزام ٹھہراناہر دو فریقین کیلئے وبال بن چکا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک اپنے عوامی مسائل کے حل کی جانب کبھی بھی یکسوئی اور دل جمعی سے توجہ مبذول نہ کرسکے۔گذشتہ دنوں دونوں جانب سے قومی سلامتی کے مشیروں کی میٹنگ کا نہ ہونا بھی محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ بہت سے واقعات کے نقطہ عروج کا شاخسانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر یہ خبر ہاٹ ایشوکے طور پر شائع اور نشر کی جارہی ہے۔ جن واقعات نے حالیہ میٹنگ کو سبوتاژ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ایک تو مسئلہ کشمیر ہے دوسرا انڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل اور بلااشتعال فائرنگ ہے اور اسی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ انڈین آرمی کے ہیلی کاپٹرز کی انتہائی نیچی پروازیں بھی ان مذاکرات میں خلیج ڈال گئیں جبکہ شسما سوراج کا تعصبانہ بیان بھی ان مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اور صرف دہشت گردی کے حوالے سے بات کی جائے۔ نہایت احمقانہ اور بیوقوفانہ عمل اور رویہ ہے اور حد اعتدال کو روندنے کی ہٹ دھرمی سے بھرپور کوشش ہے اور جو لب و لہجہ استعمال کیا گیا وہ نہ تو سفارتی تھا اور نہ ذمہ دارانہ۔ ایسی بے اعتدالیوں کی بنا پر کیسے باہمی اعتماد و اعتبار پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں سرتاج عزیز کادو ٹوک اور خوشامد سے عاری بیان بھی انڈیاکی توقعات پر پانی پھیر گیا۔یہی وجہ ہے کہ روابط کی کڑیاں مربوط ہونے کی بجائے از سر نو ٹوٹنے لگی ہیں۔

پاک وہند تعلقات کی اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ملاقاتوں پر عداوتیں حاوی رہیں اور کئی بار ایسابھی ہوا کہ مذاکرات عداوتوں کے خاتمے کی جانب گامزن ہوئے لیکن بڑھتے بڑھتے پھر عداوتوں اور نفرتوں سے متنج ہوئے ۔ہر دو فریقین کے درمیان یہ کشیدہ صورت حال اس وقت ہی ختم یا کم ہوسکتی ہے جب اعتبار و اعتماد کو پروان چڑھانے کی منافقت سے پاک کوشش کی جائے ۔بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق ایک طرف بھارت مذاکرات کے ڈھونگ کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے دوسری طرف را کی مدد سے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو بھی روبہ عمل لارہا ہے گذشتہ روز بھی چار ’را‘ کے دہشت گرد پکڑے گئے ہیں اور باقاعدہ ثابت ہوچکے ہیں کہ ان کو فنڈنگ بنکوں کے ذریعے انڈیا سے ہورہی تھی اور وہ پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے اسی طرح گذشتہ رات کندن پور اور قرب جوار کے گاؤں پر مارٹر گولوں کی بارش فائرنگ سے نہتے اور بے گناہ شہریوں کی شہادت بھی بھارت کی مذاکرات کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت چیخ چیخ کر بیان کررہی ہے یعنی چور بھی کہے چور چورچور۔ بہرحال یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ یہ تنازعات اور عدواتیں نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی بھارت کے اور آخر الذکر کو بھی اتنی ہی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جتنا کہ پاکستان کی جانب سے ہوتا ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ تمام بڑی چھوٹی ملک دشمن سرگرمیاں اور وارداتیں اتنی نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی جتنا کہ جانی و مالی نقصان کے طور پر دکھائی اور سنائی دیتا ہے بلکہ یہ اعتماد و اعتبار کے دامن کو اس طرح چھیدتی ہیں کہ ان پر پیوند بھی کارکرثابت نہیں ہوتے۔انڈیا کی منافقانہ روش کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں اور معاملات پربھی نظر ثانی کرنا چاہئے کہ ہم نے کہاں کہاں پر کوتاہی ،نااہلی اوربزدلی کا ثبوت دیاہے
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192119 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More