حجاب: ایک ضرورت

 اسلام نے عورت کوجو عزت و احترام دیا ہے اس کو دیکھ کر اسلام دشمن عناصر اسے ہضم نہیں کر پا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کے اسلامی لباس اور پردہ کی تہذیب کو لوگ پچھڑے پن کی علامت بتاتے رہتے ہیں۔ مسلم عورتوں کے پردے کی مخالفت بہت شدت سے کی جاتی ہے۔ان کو نہیں معلوم کہ اسلام نے پہلے سے چلے آرہے پردہ کے نظام کو رائج کیا ہے نہ کہ ایجاد کیا ہے۔ ان کویہ بھی نہیں معلوم کہ مقدس کتاب ’وید‘ اور عیسائی اور ’بودھ‘ مذاہب میں عورتوں کے لیے پردے کے احکامات ہیں جس کی پابندی ہونی چاہئے لیکن وہ لوگ نہیں کرتے۔

اسلام سے پہلے عورتوں کا جانوروں سے بھی برا حال تھا۔’بابل‘ میں یہ قانون تھا کہ اگر کسی شخص سے کسی عورت کا قتل ہو جاتا تھا توسزاے موت اس کی بیوی کودی جاتی تھی۔قدیم یونانی تہذیب بہت ہی عظیم تہذیب مانی جاتی ہے وہاں بھی شروع میں عورت کا احترام کیا گیا لیکن دھیرے دھیرے یونانیوں نے اپنی انا اور جنسی ہوس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر عورت کو تذلیل و توہین کا خوب نشانہ بنایا گیا، عصمت فروشی ایک عام سی چیز تھی۔رومیوں کے مردوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی بیوی کو قتل بھی کر سکتے تھے۔اس کے علاوہ وہاں بھی عصمت فروشی عام بات تھی۔مصری لوگ عورت کوشیطان کی نشانی قرار دیتے تھے۔کہیں یہ بھی رواج تھا کہ ایک عورت کئی مردوں کے بیچ مشترک ہوتی تھی اور اِس زمانے میں بھی یہ تہذیب موجود ہے۔قبل از اسلام عرب میں بھی عورتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا،جس شخص کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تھی وہ اپنے کو بڑاذلیل سمجھتا تھا، نظریں جھکا کر چلتا تھا۔عام طور پر لڑکی پیدا ہونے پر زندہ دفنابھی دی جاتی تھی۔

اسلام نے عورت اور مردکو برابری کا درجہ دیا، جائز حقوق دیے اور اس کی عصمت اور عفت کی حفاظت کا نظم بھی دیا۔ اسلام عورتوں سے یہ توقع بھی کرتا ہے کہ وہ اپنے اِس مقام کی پاسداری کریں۔

عام طور پرصرف عورتوں کے لیے ہی حجاب کی باتیں ہوتی ہیں جبکہ قرآن پاک میں عورتوں کے حجاب سے پہلے مردوں کے لیے حجاب کا حکم آیا ہے۔اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

’’اے نبیؐ!مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں،یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اﷲ اس سے باخبر رہتا ہے‘‘ (سورہ نور۔۳۰)

اسی سورہ کی اگلی آیت میں عورت کے لیے ارشاد ہوتا ہے ’’اور اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے، شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، بیٹے۔۔۔۔۔‘‘

سورہ الاحزاب ۔۵۹ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’اے نبی!اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ‘‘۔

جسم ڈھانکنے کے سلسلہ میں عورت و مرد کے لیے الگ الگ احکامات ہیں۔ مردوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنی ناف سے لیکر گھٹنوں تک سارا بدن لازماً ڈھانک کر رکھیں جب کہ عورتوں کے لیے چہرے کے سوا باقی تمام جسم کو اور ہاتھوں کو کلائیوں تک ڈھانکنے کا حکم ہے۔ اگر وہ چاہیں تو چہرے اور ہاتھوں کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔بعض علما کا کہنا ہے کہ ہاتھ اور چہرہ بھی ان اعضائے جسمانی میں شامل ہیں جن کا ڈھانپناعورتوں کے لیے لازمی ہے یعنی خواتین کے حجاب کا حصہ ہے۔یہی قول افضل بھی مانا گیا ہے۔

پہنا گیا لباس ایسا نہ ہو کہ صنف مخالف کے لباس سے ملتا جلتا ہو۔یعنی عورتوں کے لیے جو لباس ہیں وہیں لباس پہنیں مردوں کے لباس کی طرح ان کا لباس نہ ہو۔ اسی طرح مردوں کے لیے جو لباس مخصوص ہیں، وہی پہنیں عورتوں جیسے نہیں۔

قرآن میں جو بھی احکامات ہیں ان کی تعمیل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ہم روزہ ، نماز ، حج و ذکوۃ کو تو فریضہ مانتے ہیں لیکن حجاب کے فریضہ کو اہمیت نہیں دیتے۔ہم اپنی معصوم بچیوں کواچھے سے اچھے شلوار جمپردوپٹہ کی سوغات دیں اور جسم پر مڑھے ہوئے جینس و ٹاپ کابائکاٹ کریں۔ انشا اﷲ یہ بھی ہماری عبادت میں شمار ہوگا کیونکہ یہ اﷲ رب العزت کا حکم ہے۔

ہم اپنے گھر کی عورتوں کو سمجھا ئیں کہ حجاب عورت کے مقام کی کمی نہیں کرتا بلکہ وہ تو عورت کا مرتبہ بلند کرتا ہے اور اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کرتا ہے اس لیے وہ جس طرح اکثر گھر کے اندر بے تکلفی سے رہتی ہیں اُسی طرح سے وہ گھر کے باہر نہ نکلا کریں۔گھر سے باہر نکلنا ہے تو مسلمان عورت بن کر، حجاب کے ساتھ۔جو خواتین حجاب کا احتمام کرتی ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں اور جو خواتیں نہیں کرتی ہیں وہ اﷲ کی رضا حاصل کریں او ر روشن خیال مسلمان ہونے کا لبادہ اتار کر حکم الہی کی پاسداری میں خود بھی حجاب اختیار کریں اور اپنی بچیوں اور متعلقین کو بھی ترغیب دیں۔

ہم آئے دن اخبار میں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ کیے گئے شرم ناک اور نازیبا سلوک کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔یہاں میں اخبار کی کچھ خبروں کے حوالے دے رہا ہوں:
۱۔ این․ڈی․ٹی․وی․ ۲۳؍فروری۲۰۱۴؁ء: دلّی میں آسام کی لڑکی کے ساتھ اس کے دوست نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔
۲۔ اسی اخبار کی ۱۲؍جون ۲۰۱۴؁ء کی خبر کے مطابق دلّی میں ہی چلتی کار میں ۲۵؍سالہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ۔
۳۔ ۲۹؍جولائی ۲۰۱۴؁ء کے مندرجہ بالا اخبار میں لڑکی کے مطابق وہ اپنے گھر ’اُتّم نگر‘، دلّی سے نکلی۔ دو جانکار لڑکوں نے اسے اپنی بائک پر بٹھایا اور نجف گڑھ لے گئے جہاں اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوا۔
۴۔ ۱۴؍ستمبر ۲۰۱۴؁ء کو اسی اخبار میں ’سونے پر سہاگا‘ کی خبر شائع ہوئی وہ یہ کہ ’دلّی میں جسم فروشی کا اڈّا چلانے والی خاتون کے ساتھ چلتی کار میں گینگ ریپ کیا گیا۔
۵۔ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۴؁ء کے اسی اخبار کی خبر کے مطابق والد ایک نجی کمپنی کے سینئیر اکزیکیوٹیو کے نابالغ لڑکی کو پیشہ کرانے کی غرض سے ملازم نے نشے کا عادی بنایا۔
۶۔ ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۴؁ء کو اسی اخبار میں ایک ۲۳؍ سالہ لڑکی کے ساتھ اسکے ’بوائے فرینڈ‘ نے اپنے دوستوں کے ساتھ،چلتی کار میں گینگ ریپ کیا۔اس کے بعد نہرو پلیس کے علاقہ میں لڑکی کو پھینک کر فرار ہو گئے۔ اُس کی ماں دلّی پولیس میں ’مہلا سپاہی‘ ہے۔
۷۔ ۱۱؍نومبر۲۰۱۴؁ء کو اسی اخبار میں خبر تھی کہ دلّی کے ’دوارکا ‘ کے جنوب مشرقی علاقہ کے ایک گسٹ ہاؤس میں ایک شادی شدہ خاتون(۳۰) کے ساتھ چار لوگوں کے گینگ ریپ کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا۔خاتون کسی معاشی معاملات کو سلجھانے کی غرض سے گسٹ ہاؤس گئی تھی۔
۸۔ ۲۰؍نومبر ۲۰۱۴؁ءکے امر اُجالا کی خبر کے مطابق معشوقہ کوساتھیوں کے حوالے کر کے گینگ ریپ کیا۔
۹۔ ’نو بھارت ٹائمس‘ ۲۹؍نومبور۲۰۱۴؁ءکی اشاعت میں لکھتا ہے ’چار دنوں میں تین آنر کلنگ، بھائیوں نے گلا دبا کر مارا‘۔
۱۰۔ ۱۸؍جنوری ۲۰۱۵؁ء کے اسی اخبار کے مطابق غازی آباد کے وجئے نگر کی طالبہ کے ساتھ گینگ ریپ کیا جو پکڑے گئے۔یہ تینوں اس کے دوست تھے جنھوں نے کوچنگ سے بہلا پھسلا کر گاڑی میں بٹھا لیا تھا۔
۱۱۔ اسی تاریخ میں ’امر اُجالا‘ میں ایک خبر تھی کہ نوئڈا کے ونود نگر کی دوشیزہ ایک نجی کمپنی میں کام کرتی تھی۔ اُسی کمپنی میں سیکٹر ۲۲ کا رہنے والا ’دیپک‘ بھی کام کرتا تھا۔ دونوں میں دوستی ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد دیپک کے ساتھ اُس کے گھر پر رہنے لگی۔الزام یہ ہے کہ دیپک نے شادی کی لالچ دیکردوشیزہ کا استعمال کیا۔

اس طرح کی بے شرمی کی مجرمانہ خبریں ہم ہندی، اردو اور انگریزی اخباروں میں آئے دن پڑھتے رہتے ہیں اور انسانیت کی گرتی ہوئی قدروں پر افسوس کے ساتھ ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔بھیڑ اور بھیڑئے کی دوستی کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟ بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا خبروں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ حادثات نہیں تھے بلکہ لڑکیوں کو دی گئی آزادی کی انتہا ہے۔کچھ کر گزرنے کی کوشش میں سب کچھ گنوا کر بیٹھ جانا ،بڑے گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔یہ ایساگھاٹا ہوتا جس کی بھرپائی ہو ہی نہیں سکتی،زندگی ایسا بوجھ بن جاتی ہے کہ کسی کی بھی نظر اس کو سنبھال ہی نہیں سکتی، ہر ایک کی نظر سے گر جاتی ہے۔

بچوں کی تعلیم اور تربیت کے سلسلہ میں والدین کو سخت ہونا پڑے گا۔ وہ موقع بڑے فکر والا ہوتا ہے جب ماں اور باپ دونوں کو کارو بار یا ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے باہر رہنا ہوتا ہے۔بچے گھر میں اکیلے رہیں یا ملازم کے ساتھ۔دونوں حالات بچے کی حفاظت اور تربیت کے لیے مناسب نہیں۔’آروشی تلوار‘کا قتل ابھی آپ لوگ بھولے نہ ہوں گے۔اکیلی لڑکی ماں باپ دونوں پیشے سے ڈاکٹر۔ماں کو اپنا کلینک گھر پر ہی رہ کر چلا سکتی تھیں۔ لیکن روپیہ کمانے کی ہوس، لڑکی کو نوکر کے سہارے چھوڑ کرکتنا روپیہ کمانا چاہتے تھے۔ان کے پاس نہ روپیہ رہا نہ لڑکی،نہ عزت اوران کا رزق جیل کی روٹی۔

بھارت میں ہونے والے بڑے جرائم میں زنا کا جرم چوتھے نمبر پر آتا ہے۔’قومی جرائیم رکاڑد بیورو ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق2012میں24923زنا کے معاملات بھارت بھر میں درج ہوئے۔ان میں سے24,470ایسے جرائم تھے جن میں مجرم اور ’وکٹم‘ دونوں ایک دوسرے کے شناسا تھے صرف 453معاملے اجنبیوں کے بیچ ہوے۔چراغ کے نیچے اندھیرا والی بات بھارت میں سب سے زیادہ زنا کے معاملے دلّی میں ہی ہوتے ہیں یا پھر جبل پور میں۔یہ معاملات ہیں جو درج ہوئے ہیں بہت سے معاملات لوک لاج کی وجہ سے درج ہی نہیں ہوتے۔اسی طرح سے مندرجہ بالا شمار نمبر ۵ ؍پر آپ نے پڑھا کہ ایک آفسر کی بیٹی کوملازم نے پیشہ کرانے کی غرض سے نشہ کا عادی بنایا۔

بچیوں کی حفاظت کے لیے ہمیں تدابیر کرنی ہوں گی جس کی ہمیں کہیں سے تربیت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اﷲ کے احکام اور رسولؐ کے فرمان میں اس سے متعلق ساری ہدایات موجود ہیں۔اگر نہیں معلوم ہیں تو کسی عالم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بازار میں بہت سی کتابیں موجود ہیں کسی دین دار مصنف کی کتاب سے اسفادہ کیا جا سکتا ہے۔ماں کو یہ فیصلہ خود کرنا ہو گاکہ بچّوں کی تربیت اور ان کی حفاظت کے لیے اس کا گھر میں رہنا ضروری ہے یا بچوں کا نوکروں کے بھروسے چھوڑ کر ملازمت ضروری ہے ؟یہ ملازمت اس وقت بہت ضروری ہو جاتی ہے جب گھر میں کمانے والا اور کوئی نہ ہو۔شریعت کے رو سے گھر کے خرچ کے لیے کمانے کے ذمہ داری مرد کی ہی ہوتی ہے۔لیکن اکثر لوگ ناشکری کرنے لگتے ہیں اور کہنے میں بھی نہیں چوکتے کہ اگر ہم دونوں مل کر نہ کمائیں تو گھر کا خرچ نہ چلے۔اس بات کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کبھی نہیں ملتا۔ہمارے پاس اتنی رقم ہی رہ جائے گی جتنی ہمارے قسمت میں ہوگی باقی گر سکتی ہے، چوری ہو سکتی ہے یا ڈاکٹروں کے پاس جا سکتی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کا مقصد ملازمت کا نہ ہونا چاہئے۔ خدا نہ خواستہ اگر ضرورت پڑے ملازمت بھی کر لے۔لڑکیوں کا اکیلا آنا جان کہیں نہ ہونا چاہئے۔اگر ساتھ میں مرد ہے تو اس کا بھی محرم ہونا ضروری ہے۔دین کے احکامات کے تحت ہم اپنے بچوں کی پرورش کریں ،انشا اﷲء ہم سب محفوظ رہیں گے۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.