تجزیہ نگار

شعبہ ہائے زندگی میں سیاستدان، دانشور یا تجزیہ نگار معاشرے میں بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں انکی دانشوری و تجزیہ نگاری اور سیاست کے نشیب وفراز کو لوگ بغور توجہ سے دیکھتے، سنتے اور اُنکی تجاویز پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اسکا مطلب یہ ہوا کہ انکی دانشوری و تجزیہ نگاری،تجاویز اور سیاسی سرگرمیاں معاشرے میں سرائیت کرتی ہے سیاست،ادب اور صحافت بے چین روحیں ہیں جو اپنا نمایاں مقام خود بناتی ہیں۔پھر تو ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ معا شرے میں اچھائی یا بگاڑ کے ذمہ دار بھی ان ہی لوگوں کو ہونا چاہئے قوموں کو بگاڑنا سنوارنا بھی تو ان کی ذمہ داری میں شامل ہونا چاہئے ،یہاں پر میں سیاستدانوں کی بات کرنا نہیں چاھوں گاکیونکہ سیاستدانوں کے کردار،حرکات و سکنا ت ہم پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں قوموں کی شعوری،اخلاقی،مذہبی، تربیت میں معاشرے کی اکائیوں کا بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ ہی اکائیاں اپنے اصل فرائض سے غافل ہیں میں جب بھی الیکٹرونک میڈیا یا پرنٹ میڈیا پر پاکستانی تجزیہ نگاروں کو تجزیہ کرتے دیکھتا یا پڑھتا ہوں تو سوائے کفِ افسوس ملنے کے میرے پاس کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ سیاست کے بطن سے پیدا شدہ ایک معاشرتی بگاڑ کی تصویر پر تنقید کے نشتر چلانے کو ہی تجزیہ نگاری سمجھتے ہیں بہت سے سیمینار فلاح وبہبود کے نام پر کرائے جاتے ہیں اور مہمانِ گرامی کے نام پر انھیں دعوت دی جاتی ہے کہ آپ عوام کی فلاح وبہبود پر بات کریں گے تو وہاں بھی یہ تنقیدی پہلووں کو نکال کر پروگرام کا مقصد تبدیل کر دیتے ہیں۔بھائی آپ کیوں سیاست کے ہیر پھیر میں پڑ جاتے ہیں؟ آپ کچھ وقت نکال کر معاشرے میں بگڑتی صورتحال کو روکنے کے لئے تجزیہ کریں لوگوں کو راغب کریں کہ تمھارے بچے کل کے معمار ہیں انکی کیسے پرورش کی جائے ،انکو کسطرح ایک مہذب شخص بنایا جائے اپنے بچے کو کسطرح بے راہ روی ،جنسی،چوری، ڈکیتی،رشوت خوری،قتل و غارت گری،ملاوٹ،کم تولنا،جھوٹ بولنے سے روکا جا سکتا ہے ۔کیا آپکی نظر کبھی کوڑا چنتے ہوئے بچوں پر نہیں پڑی،کیا بازاروں میں صارف سے زیادہ گداگروں پہ نہیں پڑتی شاید یہ آپکا شعبہ نہ ہو لیکن آپ بھی تو اسی معاشر ے میں سانس لے ہیں آپکے ذہن کا محورہر وقت نواز شریف زرداری، الطاف حسین ،اور دیگر سیاست دان کیوں ہوتے ہیں؟آپ کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ اسوقت زوال پذیر ہے

میں نے بھی زندگی کی 56بہاریں اور خزاؤں کا سامنا کیا ہے جسمیں معاشرے کو سنوارنے کے کرداروں کا نام میرے ذہن میں سنہری حروفوں سے کندہ ہیں اُس وقت پڑھنے لکھنے کا رحجان تھا ،جسمیں حکیم سعید شہید،اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ،ابن صفی، جمیل الدین علی، پی ٹی وی کا دور آیا تو وہاں بھی اسوقت معزز افراد نے قدم جمائے پی ٹی وی بھی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنا مختصراً میرا نکتہ یہ ہے کہ تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو معاشرے کی اصلاح کیلئے کام کرنا چاہئے تنقیدی تجزیہ نگاری کو کم کرنا چاہئے کیونکہ اسکے اثرات ہمارے معاشرے کو مسخ کر رہے ہیں

روزآنہ صبح جب میں اخبار کا آڈیٹوریل پڑھتا ہوں تو صبح ہی صبح تنقیدی ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر ایک صفحے پر چار آرٹیکل ہیں تو ان میں کوئی آرٹیکل ایسا نہیں ہوتا جو معاشرے کی اصلاح کرتا ہوا نظر آرہا ہو معاشرتی مسائل پر لکھنے والے بیچارے اپنے آرٹیکل چھپنے کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91188 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More