پاکستان کا یرقان زدہ نیوز میڈیا

آج کل کی دنیا میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک نیوز میڈیا بھی عوام کو باخبر رکھنے کا ایک کآر آمد ذریعہ سمجھا جاتا ہے . پاکستان میں یوں تو غیر سرکاری الیکڑانک نیوز میڈیا کافی تاخیر سے کام کرنا شر وع ہوا مگر دنیا کے بہت سے معتبر اداروں مثلا بی بی سی اور سی این این کے مطابق پاکستانی الیکٹرانک نیوز میڈیا اپنے اندر بہت ہی "سیمابی " صفات رکھتا ہے . لیکن ایک افسوس ناک امر جو ٢٠٠٢ میں الیکٹرانک میڈیا سے پہلے پرنٹ میڈیا کا بھی خاصہ تھا اور آج الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہمارے ٹی وی لاونجز اور بیڈ روموں تک رسائی حاصل کر گیا ہے ، سوتے جاگتے ہمارے بڑوں چھوٹوں ، خواتین اور مردوں کی شخصیت میں زہر گھول رہا ہے وہ ہے جمہوری اقدار، جمہوری فیصلوں ، جمہوری روایات سے نفرت ، حقارت اور بے اطمینانی ! ایک تسلسل ہے جو سن ٦٠ کے غیر جمہوری دور سے شروع ہوا ، مشرقی پاکستان میں جاری بے انصافیوں اور ملٹری آپریشنز کی سچی تصویر دیکھانے میں ناکام یرقان زدہ ، پیلی صحافت نے مغربی پاکستان کے عوام کو کبھی اس شعور سے آگاہ نہ ہونے دیا کہ ان کے اپنے بھائیوں پر انکی اپنی افواج کیوں اور کیسے ستم روا رکھے ہو ئے ہے.حالات چلتے رہے اور مشرقی پاکستان میں ہماری شکست فاش کا ذکر بھی مغربی پاکستان کے عوام کو غیر ملکی خبر رساں اداروں سے ہوا اور وہ کالم نگار اور ملکی پرنٹ میڈیا جو سرکاری خبر رساں اداروں سے وابستہ تھے انہوں نے اس دوران اپنا منافقانہ کردار بہت خوبی سے ادا کیا اور عوام کو یہ بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ مشرقی پاکستان کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں .

مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا ، نوے ہزار جنگی قیدی بھارت کی جیلوں میں پڑے تھے مگر عوام کی منتخب حکومت کو سپورٹ کرنے کی بجاۓ اردو خبارات نے "رائی کا پہا ڑ" بنانے کی روایت قایم کی. خاص طور پر سب سے زیادہ بکنے والے اردو اخبار نے تو پاکستان کی پہلی منتخب جمہوری حکومت کو عوام میں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی . لسانی ہنگاموں کو ہوا دینی ہو یا نیشنلایزیشن پالیسی پر سرمایہ داروں کو بھڑکانا ہو یا عوام کو بیرونی دنیا کے حالات سے بے خبر رکھ کر مہنگائی کے مصنوعی جن سے خوفزدہ کرنا ہو ! یہ اردو اخبار اور اسمیں لکھنے والے کالم نویس ہمیشہ اپنے قلم کو سستے میں بیچتے رہے اس بات کا یقین ہمیں آج ہوجاتا ہے جب وہی کالم نویس اپنے جرایم کا سرے عام اعتراف کرتے ہیں ! جس ذوالفقارعلی بھٹو اور اسکی حکومت کو پاکستان کے لیے " عزاب " قرار دیتے تھے آج اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ کوئی سیاستدان اور کوئی حکومت اس نازک دور میں پاکستان کا اسطرح دفا ع نہ کر پاتی جیسے بھٹو حکومت نے کیا .

1977 کے الیکشنز میں ایسی تمام اردو اخبارات ، رسائل ، جریدے کھل کر جمہوری حکومت کے خلاف ہوگیے جنہیں جمہوردشمن طاقتوں کی پشت پناہی تھی اور وہ تمام مذہبی گروہ بھی شانہ بشانہ کھڑے تھے جو قیام پاکستان کے خلاف تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی ٹھیکیداری کو ہی اپنا کاروبار بنا کر بیٹھے تھے . جمہوری حکومت ایسی تمام عوام دشمن قوتوں کے لیے ایک خطرہ تھی لہذا ایک محا ذ بنا لیا گیا جس میں سرما یہ داروں کا پیسہ ، اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں ، مذہبی ٹھیکدا روں کا بغض ، سیاسی یتیموں کی نفرت اور پیلے صحافیوں کا قلم زہر اگلنے لگا . سیاسی پارٹی کا اخبار یقینن اس سونامی کا اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا .حکومتی ٹی وی اور ریڈیو چونکہ آزاد نہیں سمجھے جاتے اس لیے انکے سچ کو بھی جھوٹ مانا گیا اور دوسری طرف ان اخبارات کی خبروں اور کالموں کے جمہوریت کے خلاف نفرت پھیلاتے سفید جھوٹ کو بھی پاکستان کے شہروں میں رہنے والے کوڑھ مغز مڈل کلاسیوں نے سچ سمجھا کردار کشی کو " تفتیشی صحافت " کا نام دیا گیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو کبھی بغیر ثبوت جواہر لال نہرو کا بیٹا بنایا گیا اور کبھی حسنہ نامی کسی نادیدہ خاتون سے انکی تیسری شادی کی افواہیں پھیلائی گئیں . آج جو لوگ بڑے طمطراق سے " سینئیر تجزیہ کا ر" بنتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو چار پانچ دہایوں پہلے کی تاریخ ایسے بتاتے ہیں جیسے اس زمانے کی ساری شہادتیں دریا برد ہو چکی ہیں اور اب کوئی نہیں جو زمانے کو یہ بتا سکے کہ آج جمہوریت کے چیمپئین بننے والے اور صحافت کے اصول نئی نسل کو تبلیغ کرنے والے خود کتنے تہی د ا ماں ہیں اور انکے کریڈٹ پر کیسی کیسی جمہوریت دشمن قلمی سازشیں ہیں .

جرنیل ضیا کا دور ایسے قلم بیچنے والوں کے لیے بڑا مبارک ثابت ہوا البتہ جو اخبارات اور قلم کے سچے رفیق تھے انکو جیلیں بھی ہوئیں ، انکے اخبارات کی اشاعت بند کی گئی ، اشتہارات ملنا تو دور کی بات ہے ایسے اخبارات پر سخت سنسر شپ عا ئید کی جاتی اور پورے پورے کالم سادہ صفحات کی صورت اختیار کر جاتے . سچے ضمیر کے صحا فیوں نے تو کوڑے تک کھا ئے جو کہ تاریخ میں شاید اپنی نوعیت کا پہلا وا قعہ ہو . کچھ اخبارات کو جبری ختم کیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں اخبار سے تعلق رکھنے والے افراد بے روزگار ہوۓ اور انکے خاندان کسمپرسی کا شکار !

مساوات پیپلز پارٹی کی نمایندہ اخبار تھی جسکی جبری بندش اورہزاروں کارکنوں کی بے روزگاری نے ایڈیٹر ابراہیم جلیس کو ایسا صدمہ دیا کہ وہ دماغی شریان پھٹنے سے انتقال کر گیۓ شاید اس وقت کی جابر ضیا حکومت یہی چاہتی تھی کہ ہر باضمیر اخبار نویس دم توڑ جاۓ -

ایسے واقعات سے کچھ بے ضمیر صحافیوں کے ضمیر زندہ بھی ہو گیۓ بہت سوں نے توبہ بھی کر لی لیکن یہ توبہ سچی توبہ ثابت نہ ہوئی 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب پارلیمان نے مارشل لا کا خاتمہ کیا تو ان اخبارات اور کالم نگاروں کی مو شگا فیاں دوبارہ شر و ع ہوگیں . جونیجو حکومت میں کراچی کے حالات کو بد سے بدتر کرنے میں یہ "پیلے صحافی" پیش پیش رہے. یھاں تک کے جونیجو حکومت کو "اخبارات میں چھپے الزمات " کا مجرم ٹہر ا کر چلتا کر دیا گیا.

١٩٨٨ء میں انتخابات ہوۓ اور ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو عوام نے منتخب کیا گو حمید گل نے٢٠ سال بعد اعتراف جرم بھی کیا کہ پیپلز پارٹی سے یہ انتخابات چوری کرلیے گیے تھے اور پس پردہ پاکستان قومی اتحاد کی طرح کا بھا ن متی کا کنبہ جوڑ جاڑ کر پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت تک محدود رکھا گیا تاکہ منتخب حکومت عوام کے حق میں قانون سازی نہ کر پاۓ .آدھا پونا مینڈیٹ حاصل کرنے والی حکومت بھی مقتدرہ حلقوں کو ایک آنکہ نہ بھائی ! ان کے منتخب ہوتے ھی اخبارات نے ایک بار پھر جمہوری اداروں ، سویلین رہنماؤں اور منتخب قیادت کے بارے میں زہر افشانی شر وع کر دی . ادھر کالم نویسوں نے کردار کشی کا اچھا خاصہ مواد مارکیٹ کو فراہم کیا . ایک جرنیل اپنے ١١ سالہ دور میں اس معاشرے کی تقسیم در تقسیم کر گیا تھا یرقان زدہ صحافت نے اس تقسیم سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا اور کبھی کراچی کی لسانیت اور کبھی پنجاب میں فرقہ واریت کو خوب بیچا .

بے نظیر بھٹوصاحبہ ایک خاتون تھیں مگر انہوں نے اس زرد صحافت کا مردانہ وار مقابلہ کیا اس ١٨ ماہ کے دور میں انکے شوہر آصف علی زرداری کو مستقل کردارکشی کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور تفتیشی صحافت کے علمبرداروں سے اتنا بھی نہ ہوا کے بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کارفرما با اختیار وں کا پتہ لگا کر قوم تک پہنچاتے نہ ہی وزیراعظم کے شوہر اور انکی کابینہ پر لگے الزمات کی صحافتی تفتیش کر سکے اور نہ ہی عوام کو مڈ نائیٹ جیکلز کی پلاننگ اور حقیقت سے آشنا کر سکے.

ایک بار پھر جمہوری حکومت کو اخبارات کی دیوانگی کے سپرد کیا گیا اور پھر یہ قلم بیچ کالم نویس اورصحافت کے نام پر دھبہ قسم کے رپورٹرز کوئی "فالو اپ " کرنے کی بجاۓ اپنے اپنے گھروں کو سدھار گنے-

٩٠ کی دہائی میں اگر چہ نواز شریف کی حکومتوں کو یہ سہولت مہیا رہی کہ پرنٹ میڈیا میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی تھی اور " جاگ پنجابی جاگ " کے نعرے نے کافی حد تک ایسے کالم نگاروں کو نواز شریف حکومت کوشدت کے ساتھ بدنام کرنے سے روکے رکھا مگر ایک واضح پیغام ان کالموں کے ذریعے عوام کو اس پوری ٩٠ کی دہائی میں بھی یہی دیا گیا کہ منتخب ، جمہوری حکومتیں نااہل .کرپٹ ، ملک دشمن ، عوام دشمن ، بھارت نواز ، امریکی غلام وغیرہ وغیرہ ہیں اور اگر ملک و عوام کی فلا ح عزیز ہے تو اس ملک خداداد کو " عزیز ہم وطنوں " کا خطاب لینا ہوگا .١٩٩٩ میں یہ خطاب ایک بار پھر ملک کے عوام کو نصیب ہوا اس بار اسلام کا نقاب نہیں بلکہ روشن خیالی کی " میکسی " زیب تن کی گئی.

جاری ہے .....
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 63044 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More