اسلام میں میراث کا نظام اور معاشرے میں خواتین کی حق تلفی(۳)

 تقسیم میراث وہ اہم فریضہ ہے جس میں کوتاہی عام ہے اس اہم فریضہ کے تارک عام پائے جاتے ہیں کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے ترکہ پر کوئی ایک وارث یا چند ورثاء مل کر قابض ہو جاتے ہیں۔کسی دوسرے کا حق کھانا حرام ہے اور حرام کھانے پر جہاں آخرت میں عذاب ہوگا وہیں دنیا میں بھی اس کے بڑے نقصانات ہیں۔ دین سے دوری کا سبب ۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اﷲ فرمایا کرتے تھے ’’ میں نے بصیرت کی بناء پر تجربہ کیا ہے کہ لوگوں کی دین سے دوری میں اسی 80 فیصد حرام مال کھانے کا عمل دخل ہے،اور دس فیصد اس سے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں اور دس فیصد اس سے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار نہیں کرتے۔ کسی دوسرے کا حق کھانا گناہ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک معاف نہ کرایا جائے معاف نہیں ہوگا۔ممکن ہے اﷲ رب العزت مہربانی فرما کر حقوق اﷲ کو معاف فرما دیں مگر حقوق العباد (بندوں کے حقوق ) اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک اس شخص سے معاف نہ کرا دیئے جائیں جس کے حقوق تلف کئے ہیں۔ ایک الائچی حرام مال کھانے کے بے شمار ذرائع ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے بے شمار ایسے بندے ہیں جو ا ن ذرائع سے بچتے ہیں مگر شرعی تقسیم میراث ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دیندار لوگ بھی ہیں، کئی لوگ سود، چوری، جھوٹ و فریب سے بچتے ہیں اور دیندار ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن میراث کے باب میں دوسروں کے حقوق کھا کر آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں۔ حالانکہ مرنے والے کی جیب سے اگر ایک الائچی نکلے تو کسی وارث کے لئے شرعاً جائز نہیں کہ وہ اس الائچی پر قابض ہو جائے کیونکہ اس میں تمام ورثاء کا حق ہے۔ اس الائچی کو بھی ترکہ میں رکھ کر شرعی طریقہ سے تقسیم کیا جائے گا۔ لوگ رواج پر تو عمل کرتے ہیں مگر قرآن مجید پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ رواج یہ ہے کہ عورتوں کو جہیز میں کچھ سامان دے دیتے ہیں اور میراث میں جو ان کا حق بنتا ہے خود ہضم کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کو جہیز میں پوری دنیا کی دولت دے دے اس کے بعد اس بیٹی کا میراث میں ایک روپیہ بھی حق بنتا ہو تو وہ ایک روپیہ اس بیٹی کا حق ہے یہ اس کو دینا پڑے گا۔ اگر اس دنیا میں نہ دیا تو کل آخرت میں اپنی نیکیوں کو صورت میں دینا پڑے گا۔ کچھ لوگ عورتوں سے یہ کہلوا کر کہ ہم نے اپنا حق معاف کر دیا،بے فکر ہو جاتے ہیں ایسا کرنے سے ان کا حق معاف نہیں ہو گا اسکی صرف ایک صورت ہے وہ یہ کہ میراث کے مال کو اور جائیداد کو شرعی طریقہ سے تقسیم کر دیا جائے اور جائیداد ورثاء کے نام کر کے حوالے کر دی جائے اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنی مرضی سے اپنا حق ہبہ کرنا چاہے یا واپس کرنا چاہے تو جائز ہے۔ جبری ملکیت وراثت کے ذریعہ جو ملکیت ورثاء کی طرف منتقل ہوتی ہے وہ جبری ملکیت ہے، نہ تو اس میں وراثت کا قبول کرنا شرط ہے اور نہ وارث کا اس پر راضی ہونا شرط ہے بلکہ اگر وہ اپنی زبان سے یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا تب بھی شرعاً وہ اپنے حصے کا مالک بن جاتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے حصے کو قبضے میں لینے کے بعد شرعی قاعدے کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔میراث کی شرعی تقسیم میں کتنی کوتاہی ہوتی ہے ؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ میراث کے مسائل ہر عالم اور مفتی کو یاد بھی نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے یہ مسائل پڑھے نہیں ہوتے ، بلکہ وجہ یہ ہے کہ ان سے کوئی میراث کے مسائل پوچھنے والا ہی نہیں آتا حالانکہ ہر روز ہزاروں مسلمان فوت ہو رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء کے پاس میراث کے مسائل پوچھنے والوں کی لائنیں لگی ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر روز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے انسان فوت ہو رہے ہیں لیکن طلاق کے مسائل پوچھنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدس نے علم میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے وعیدیں سنائیں۔ ذیل میں میراث کی اہمیت اور فضیلت اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔ علم میراث سیکھو اور سیکھاؤ ۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے فرمایا تم علم فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو بھی سیکھاؤ کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی حصہ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان اسکا فیصلہ کرے۔ میراث نصف علم ہے تم فرائض (میراث)سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤکہ وہ نصف علم ہے بلاشبہ وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے سلب کیا جائے گا۔ عالم جو فرائض (میراث ) نہ جانتا ہو ایسا ہے جیسا کہ بے سر کے ٹوپی یعنی اس کا علم بے زینت و بے کار ہے۔ سر جس میں چہرہ ہی نہیں ۔حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس نے فرمایا جس نے کسی وارث کے حصہ میراث کو روکا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے ۔ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعت خداوندی میں مشغول رہتے ہیں لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں (یعنی بلاوجہ شرعی کسی حیلے سے محروم کر دیتے ہیں یا حصہ کم کر دیتے ہیں) ایسے شخصوں کو اﷲ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔حضور نے فرمایا جس نے مال حق کے ساتھ لیا تو اس میں برکت ڈالی جائے گی اور جس نے بغیر حق کے مال لیا تو اس کی مثال اس شخص سی ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث ، طلاق اور حج کو سیکھو یہ تمہارے دین میں سے ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو عنقریب آدمی اس علم کا محتاج ہو گا جس کو وہ جانتا تھا، یا ایسی قوم میں ہو گا جو علم نہیں رکھتے۔
Muhammad Raza
About the Author: Muhammad Raza Read More Articles by Muhammad Raza: 13 Articles with 11825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.