پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان۔۔۔ عظمت کا روشن مینار

ممتاز پاکستانی ادیب ، نقاد، محقق، شاعر ، خطیب، ماہر فنون لطیفہ، لسانیات اور دانشور پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان نے 29اکتوبر 2012ء بمطابق 12ذوالحجہ 1434ھ کی درمیانی شب عدم کے کوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا۔ گلِ چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ مہکتا پھول توڑ لیا۔ جس کی عطر بینری سے پچھلے پینسٹھ برس سے اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ مہک رہا تھا۔ علم و ادب کا وہ خورشید جس کی ضیاء پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی۔ عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
؂
یہ کیا دست اجل کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے پھول چُننا اور ویرانے میں رکھ دینا

پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان کی رحلت سے عالم اسلام ایک ایسے مایہ ناز فرزند مفکر و محقق ، مدبرو دانشور اور اُستاد و ادیب سے محروم ہو گیا جس کی نگاہ نکتہ رس میں علم و فکر کی پہنائیاں اور پنہائیاں آئینے کی طرح روشن تھیں اور جس کا راہتوارقلم ہمہ دم سرگرم خرام تھا اور جس کے رشحاتِ قلم سے گہر ہائے معانی کے ایسے چشمے پھوٹتے تھے جو باعث ِ سیرابیٔ قلب و نظر تھے۔ پروفیسر مفتی عبدالرؤف خانؒ 18اپریل 1945ء کو امرتسر (بھارت) میں عبدالطیف خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نیک و پارسا، انسان ہونے کے علاوہ تصوف سے خاص مناسبت رکھتے تھے۔ والدہ بھی پرہیزگار تھیں۔ والدین کے فیض کی وجہ سے دین اسلام کو عمر بھر حرز جان بنائے رکھا۔ جنہوں نے بچپن کے زمانے سے عبدالرؤف خان کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی اور اُس دور کی دستوری روایت کے مطابق دینی اور شروعاتی پرائمری درجات کی تعلیم شاہدرہ لاہور سے دلوائی۔ آپ کے ایک بڑے بھائی عبدالقیوم خان جو کہ گورنمنٹ کامرس کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے ہیں اور دوسرے بھائی عبدالقدوس خان محکمہ واپڈا میں جیالوجسٹ کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول شاہدرہ لاہور ہی سے میٹرک کا امتحان 1960ء میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لے لیا۔ جہاں سے آپ نے 1962ء میں
٭ P-46، گلی نمبر 11، گورونانک پورہ ، فیصل آباد
انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی اورنٹیل کالج لاہور سے لسانیات کا تین سالہ آنرز کورس 1965ء میں پاس کیا۔ 1966ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ فارسی کی ایم اے کلاس میں داخلہ لے لیا 1967ء میں آپ نے ایم اے فارسی فائنل میں فسٹ کلاس کرنے پر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ایم اے فارسی کے دوران ملک کے کئی نامور ادیب آپ کے کلاس فیلوز بنے جن میں نامور ادیب اقبال صلاح الدین کا نام بھی اہم ہے۔
1967ء کو آپ نے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن لاہور سے فسٹ ڈویژن میں بی ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ جب کہ 1968ء میں ایم اے اُردو کا امتحان بھی پرائیویٹ طور پر اعزاز کے ساتھ پاس کر لیا۔ 1968ء میں مفتی عبدالرؤف خان کی پہلی تقرری محکمہ تعلیم میں گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں کلر کہار ضلع چکوال میں بطور لیکچرار فارسی ہوئی۔ آپ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ قدرت نے آپ کے ذہن، مزاج اور طبیعت میں علمی، ادبی اور فکری توانائی بھر دی تھی۔ گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں کی علمی ، ادبی سرگرمیوں میں آپ پیش پیش رہتے۔ نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے انچارج بنائے گئے۔ آپ نے وہاں پر بہت سے مقرر اور اچھے لکھاری (ادیب) تیار کیے۔ آپ کے شاگرد آپ سے اِس قدر مانوس تھے کہ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی آپ کے شاگرد آپ سے رابطے میں رہتے تھے۔ اُس دور کے چند طالب علم اُستاد بن کر شعبہ تعلیم و تدریس سے منسلک ہیں۔ پروفیسر محمد سلیم ( شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں) بھی اُنہی طالب علموں میں شامل ہیں۔ وہ آپ سے رابطہ میں رہتے تھے اور لمبے لمبے خطوط آپ کے نام لکھتے رہتے تھے۔
پروفیسر مفتی عبدالرؤف خانؒ کی تحریر اور تقریر میں ایک عالمانہ شان پائی جاتی تھی۔ وہ ایک ذہین اور نکتہ دان عالم اور مؤرخ تھے۔ وہ بات سے بات کرنا خوب جانتے تھے۔ اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہاں قیام کے دوران اُنہوں نے اپنی شُعلہ بیانی کا جادو جگایا تو اُن کی سحر بھری آواز کالج سے باہر سماجی حلقوں تک بھی پہنچ گئی۔ لوگ آپ کے شاگردوں کی وساطت سے آپ کو مختلف تقاریب میں بطور مہمانِ خصوصی آپ کا واعظ سننے کے لیے بلانے لگے۔ پھر بوچھال کلاں سے ملحقہ دیہات میں کہیں بھی محفل نعت ہوتی، محفل شب ِبرات ہوتی ، محفل شب ِ قدر ہوتی یا واقعہ کربلا کا ذکر کرنا مقصود ہوتا آپ کے مداح آپ کو سننے کے لیے میلوں دور بھی لے جاتے آپ اُن کے شوق اور عقیدت کی وجہ سے رات کی تاریکی میں کٹھن سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ (راقم) سے ایک یادگار سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے۔ آپ نے بتایا تھا کہ ہم چند دوست بوچھال کلاں سے محفل نعت میں شرکت کی غرض سے جا رہے تھے۔ کہ تانگے میں سفر کرتے ہوئے خاصا اندھیرا ہو گیا۔ جس راستے سے ہمیں پہنچنا تھا اُس کا کوچوان کو بھی علم نہ تھا ایک اُجاڑ اور سنسان سا سٹاپ جہاں آدم زاد دور دور تک دکھائی نہ دے رہا تھا۔ تانگے والے نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ ہم پریشانی کے عالم میں تھے کہ آگے جائیں یا واپس چلے جائیں ۔۔۔کیا کیا جائے انہی خیالوں اور سوچوں میں گم ۔۔۔کہ دفعتاً دوسری جانب سے ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دی۔ ہم گھبرا کر سہم گئے ۔ قریب آنے پر دیکھا تو دوسری جائب سے تانگے میں سوار چند نوجوان بیٹھے ہیں اُن کے ہاتھوں میں بڑی بڑی لاٹھیاں تھیں ہماری گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔ قریب آنے پردیکھا تو شاگرد تھے جب انہوں نے بتایا ہمیں معلوم تھا کہ اِس راستے سے کوئی بھی سواری آگے لانے کو تیار نہیں ہو گی آپکو تاخیر ہوتے دیکھ کر گاؤں والوں نے ہمیں لینے کے لیے بھیجا ہے کیونکہ آگے راستہ ہولناک ہے ۔ اُن کی بات سن کر ہماری سانسیں بحال ہوئیں۔ مفتی صاحب کو تو عشقِ مصطفی ؐ کی دولت اور توحیدِ ربانی کی روشنی کو عام کرنا تھا۔ آپ نے بوچھال کلاں میں چار سال اپنی تدریسی خدمات سر انجام دیں ۔ اُردو ادب کے نامور شاعر ادیب ڈاکٹر ریاض مجید آپ کے بوچھال کلاں کالج میں کولیگ رہے ہیں۔
اِس کے بعد آپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج لالہ موسیٰ ہو گیا۔ جہاں آ کر بھی آپ نے اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلایا۔ اُن کی سیماب صفت طبیعت میں یکسوئی اور مزاج میں ٹھہراؤ نہیں تھا۔ وہ ایک درویش صفت ، سادہ اور علم دوست انسان تھے۔ آپ نے لالہ موسیٰ میں بھی اپنی الگ پہچان اور شناخت بنائی۔ آپ کو طویل نظمیں لکھنے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اکثر اوقات آپ فی البدیہہ نظمیں پڑھ جاتے تھے جو کہ موقع و محل کے مطابق ہوتیں۔ مفتی عبدالرؤف خان کے فن آشنا اور مزاج شناس جانتے ہیں کہ آپ نے ہر دور میں محبتیں بانٹیں اور محبتیں سمیٹیں ہیں۔ آپ جہاں بھی گئے وہیں آپ کے دوستوں اور ارادت مندوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔
آپ اپنے شاگردوں کے پُر خلوص، قابلِ اعتماد دوست اور رواز دان بن جاتے تھے۔ کسی کی تعریف کرتے تو قصیدے کی سی تمکنت کے ساتھ ، برائی تو کسی کی کبھی کی ہی نہیں اگر کسی نے ایسا سوال کر بھی دیا تو ہاتھ جھٹک کر اُن کا خاص انداز میں ’’کیا لینا‘‘ کہنا لوگوں کو غلط خیال چھوڑنے پر مجبور کر دیتا۔ لالہ موسیٰ میں آپ نے سنہری دور گزارا۔ کسی تقریب میں آپ اپنی تقریر کے ذریعے ذہنوں کے زنگ اُتار رہے ہوتے تو کسی تقریب میں اپنی کسی مزاحیہ نظم سے محفل کو کشتِ زعفران بنا رہے ہوتے ۔
گورنمنٹ کالج لالہ موسیٰ میں آپ نے 1972ء تا 1980ء سینکڑوں طلباء کے سینوں کو قندیل علم سے منور فرمایا۔ لالہ موسیٰ میں آٹھ سال تدریسی خدمات سرانجام دینے کے بعد آپ کی ٹرانسفر 1980ء میں گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد ہو گئی۔ اِس کالج میں آ کر بھی آپ ہمہ وقت متحرک رہتے۔ کالج کی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں آپ کی دلکش شخصیت سب کی توجہ کا مرکز بنی رہتی۔ طلباء آپ کی سحر انگیز شخصیت کو ڈھونڈتے رہتے۔ کوئی طرحی مشاعرہ کے لیے آپ سے غزل یا نظم کی اصلاح کروا رہا ہوتا تو کوئی تقریر لکھوانے کے لیے آپ کے پیچھے پیچھے بے چین نظر آتا۔
مارننگ اسمبلی میں آپ نے گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد میں بلا ناغہ بارہ سال درسِ قرآن و حدیث دیا۔ آپ کالج کی وہ واحد اور متحرک شخصیت تھیں جو کالج کے اوقات کار سے پہلے ہی مارننگ اسمبلی کے لیے گراؤنڈ میں پہنچ جایا کرتی تھیں۔ کالج کا ہر نیا آنے والا پرنسپل آپ کی انہی کاوشوں اورسحر انگیز شخصیت کا اسیر ہو جاتا تھا۔ پرنسپل چودھری منیر احمد مرحوم ہو یا چودھری منظور احمد مرحوم سب آپ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کر لیتے تھے۔ اور آپ سے عقیدت و احترام سے پیش آتے تھے۔ چودھری منیر احمد تو ریٹائرمنٹ کے بعد مفتی صاحب کے دولت کدہ پر تشریف لاتے رہے ۔ کبھی وہ مفتی صاحب کو اپنے ہاں بلوا لیتے اور مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے اِس نشست میں مفتی عبدالرؤف خان، مشتاق احمد بٹ (بنکر) چودھری منیر احمد اور مولانا محمد بخش رضوی یا چند دیگر دوست مدعو کر لیے جاتے ۔ بعض اوقات مفتی صاحب گھر پر موجود نہ ہوتے تو چودھری منیر گلی کی نکڑ پر بیٹھ کر مفتی صاحب کا انتظار کر رہے ہوتے۔ محبت و ارادت اور پیار کی یہ کہانی بڑھاپے تک جاری رہی۔
اِسی طرح اُردو ادب کے ایک اور دلدادہ شاعر ادیب پروفیسر بد ر منیر ڈار بھی اُن کے بڑے مداح اور پرستار تھے ۔ وہ آپ سے اپنے گھر کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر بھی مشورہ کرتے تھے۔ وہ مفتی صاحب کے پاس بیٹھ کر گھنٹوں نشست کرتے ۔ مگر مفتی صاحب کبھی بوریت کا اظہار نہ کرتے آپ نے دوستیاں بنائی اور دوستیاں نبھائی ہیں۔ گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد میں آپ نے زمانے کی گرد میں گمشدہ بے شمار طلباء کو ادیب ، شاعر اور مقرر بنایا۔ گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد میں آپ نے بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ پڑھایا۔
1992ء میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ہو گیا۔ یہاں آ کر آپ کی ترقی بطور پروفیسر (گریڈ 20) میں ہو گئی اور آپ کو شعبہ فارسی زبان و ادبیات کا چیئر مین نامزد کر دیا گیا۔ آپ نے فارسی مضمون پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایم اے اُردو کو اقبالیات کا پیپر بھی ایک عرصہ تک پڑھایا۔ اقبال شناسی کے حوالے سے اپنے پُر مغز لیکچرز میں وہ اقبال کے سچے عاشق کے طور پر اُبھر کر سامنے آتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ اقبال نے عام مستعمل الفاظ کو نئے معنی و مفاہیم عطا کیے ہیں۔ اُن کی شاعری موضوعات کے تنوع اور وسعت کے باعث طرزِ ادا کے لحاظ سے ممتاز ہے۔
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں
مفتی صاحب فرماتے کہ اقبال کا مرد مومن وہ انسان ہے جو عشق کی بدولت اپنی خودی سے آگاہ ہو جاتا ہے ۔ اقبال کے نزدیک کامل کا معیار جناب رسالت مآب ﷺ ہیں۔ انہی کی پیروی سے انسان کو وہ مقام حاصل ہوتا ہے جسے اقبال نے بال جبرئیل میں یوں پیش کیا ہے۔
ہاتھ ہے اﷲ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وقار آفرین کارِ کشا کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
فکر اقبال اُن کا پسندیدہ موضوع تھا۔ اقبال کی شاعری پر وہ گھنٹوں گفتگو کر لیتے تھے۔ فرماتے کہ اقبال کے کلام کا اہم موضوع اُن کا فلسفہ خودی ہے کیوں کہ یہ عرفان ذات کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے خودی سے مراد عزت نفس اور احساس ذات لیا ہے۔
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اقبال کے پیغام کے حوالے سے مفتی صاحب اپنے شاگردوں اور دوستوں کو یہی باور کراتے کہ اقبال فلسفہ عدم کے بجائے فلسفہ وجود کے مبلغ ہیں۔ زندگی قدرت کا عطا کردہ جوہر ہے جو پیکر خاکی میں پوشیدہ ہے۔ تخلیق آدم کا ایک واضح مقصد ہے اور وہ ہے مشیت ایزدی کی تکمیل۔ لہٰذا انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے جوہر پنہاں کو پہچانے، اُسے اُجاگر کرے اور اُس کی قوت تسخیر کو بروئے کار لائے۔ عرفان و عمل کے بغیر انسان خاک کا پتلا ہے لیکن وہ چاہے تو مولا صفات بھی بن سکتا ہے گویا جہدِ مسلسل ہی زندگی کا راز ہے۔
زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ
جُوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
, پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان کا شمار دُنیائے علم و ادب کی برگزیدہ علمی وادبی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی ترویج و فروغ علم و ادب میں بسر کی۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
مفتی صاحب کو اسلامی مشاہیر سے بڑی محبت تھی۔ اُن کی عظمتوں کے وہ قائل تھے۔ اِس کے علاوہ ہمارے اکابرین سے بھی بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ اُن کے کارناموں کا ذکر اپنی دینی خطابات میں اکثر کرتے رہتے تھے۔ آپ بلا کے طباع ، قادرالکلام اور دریاؤں کی روانی تھی طوفان آفرین جذبات کو اشعار کے نازک آبیگنوں میں بند کر دینے کا سلیقہ اُن کو بخوبی آتا تھا ۔ قافیوں کے تو وہ بادشاہ تھے ۔ نئے نئے قافیے باندھنا اُن پر اخیر تھا۔ اگرچہ شاعری کا شغف بڑھاپے میں کچھ ماند پڑ گیا تھا مگر ذوق و شوق میں کمی نہیں آئی تھی۔
پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان ہمیشہ انسان کی شان اور مان کے قائل رہے انسانی زندگی سلیقہ مندی، سوچ اور فکر کی آزادی آپ کی روشن مثالیں رہیں ہیں ۔ آپ جس طرح علم و ادب کی دُنیا میں ایک شفیق اور مہربان ادیب اور مذہبی سکالر کے طور پر پہچانے جاتے تھے اپنی عملی زندگی میں بھی وہ ایسے ہی آئینے کی مانند تھے۔ وہ نہایت شفقت کرنے والے ، پیار سے پیش آنے والے، خوش مزاج ، ایک سچے اور کھرے انسان ہونے کے ساتھ اُصول پرست بھی تھے۔ یہی سبب ہے کہ اُن کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ جس میں ہر فکر اور فلسفے سے تعلق رکھنے والے لوگ اور ادیب شامل تھے اور اُن کی زندگی کے آخری دن تک یہ سلسلہ جوں کا توں قائم رہا۔
وہ ایک یونیورسٹی اور سکول آف تھاٹ کا درجہ رکھتے تھے۔ کتابوں کے بہت دلدادہ تھے۔ وہ کتابوں سے عشق کرتے تھے ۔ ہر نئی آنے والی کتب کے بارے تجسس رکھنا اُن کا وصف خاص تھا۔ اِس سلسلے میں نئی آنے والی کتاب کے بارے میں کبھی اپنے عزیزشاگرد پروفیسر سعید احمد وٹو سے فون پر دریافت کرتے نظر آتے کبھی اپنے ایک اور شاگرد دوست پروفیسر حفظ الرحمن کلیم سے پوچھ رہے ہوتے کہ مکتبہ اسلامیہ پر گئے تھے کون سی نئی کتاب دیکھ کر آئے ہیں تو کبھی راقم سے فون پر کہتے کہ مکتبہ بغدادیہ سے میری طرف آتے ہوئے فلاں فلاں کتب لیتے آنا۔ قیمت پر بحث نہ کرنا ، میری اُن سے رعایت کی بات ہو گئی ہے۔ شہر کی اسلامی تقریبات میں شمولیت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی رہائشی النجف کالونی میں ہونے والی کسی بھی اسلامی تقریب محفل نعت یا بڑی گیارہویں شریف کے موقع پر ختم پاک سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔ انہیں پتہ ہوتا تھا کہ آج محفل نعت کی تقریب کس گھر میں ہونے والی ہے۔ محلے کی محافل سے باخبر رہنے کے لیے اپنے ایک نوجوان عقیدت مند اور ہمسائے حافظ رضوان علی سے تعلق خاطر رکھتے تھے۔ جس کی ڈرائی کلینر کی دُکان اُن کی گلی کی نکڑ پر تھی متعدد بار راقم کے سامنے مفتی صاحب ہاتھ کی ہتھیلی کا اشارہ اس کی طرف کر کے جوش و محبت سے پوچھتے۔ حافظ صاحب آج کہاں کہاں محفل نعت ہے۔ حافظ صاحب چند لمحوں کے توقف کے بعد بتاتے کہ غوثیہ ٹینٹ سروس والوں کے اور رانا محمد ریاض کے ہاں محفل نعت ہو رہی ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے اُس کی زبانی محلے کی رپورٹ سُن کر مفتی صاحب خوش ہو جاتے ۔ پھر جب راقم اُن کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا تو اُن کے ڈبل بیڈ کے اوپر کتابیں ، اخباریں ، یوٹیلٹی بلز اور یونیورسٹی سے آئے ہوئے پیپرز اور مختلف تقریبات کے دعوت نامے اُلجھے نظر آتے۔ بسا اوقات تو مفتی صاحب کے لیٹنے کے لیے بھی جگہ تنگ نظر آتی۔ ایک دفعہ میں نے کتابوں کو بیڈ سے اُٹھا کر قرینے اور سلیقے سے لوہے کی ایک بڑی شیلف میں سجانا شروع کر دیا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے آپ کے جانے کے بعد کتابوں کا اُلجھاؤ پھر اِسی طرح ہو جانا ہے۔ آپ تکلف نہ کریں۔
مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک سحر انگیز شخصیت و کردار کے مالک تھے جنہوں نے تمام عمر علم و ادب کی آبیاری میں گزار دی۔ عشق رسول ﷺ کی دولت کو عام کیا۔ نبی محتشم ﷺ کی اُلفت و محبت کے نغمے گائے۔ اپنے خوبصورت نورانی، ایمانی اور وجدانی خطابات سے دلوں کی بے آباد اور بے نور کھیتیوں کو سر سبز و شاداب کیا۔ انہوں نے اردو و فارسی علم و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک مشن کے طور پر کام کیا۔ اور اسی دولت کو تادم مرگ بانٹتے رہے ۔ وہ لفظوں ، کتابوں اور کتب شناس افراد کی بے حد توقیر کرتے تھے اُن کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں نایاب کتب موجود تھیں۔ راقم نے جب ’’غیر مسلم شعراء کے نعتیہ انتخاب‘‘ پر مبنی اپنی کتاب چھپوانے کا ذکر اُن سے کیا تو مفتی صاحب نے اُسی وقت غیر مسلم شعراء کی نعتوں پر مشتمل اپنی لائبریری سے تین نادر کتب مہیا کیں۔ اِسی طرح ایک دن کہنے لگے کہ جس طرح تم نے غیر مسلم شعراء کی نعتوں پر مشتمل کتاب ’’سارا عالم ہے منور آپ کے انوار سے‘‘ شائع کی ہے اِسی طرح مسلم شعراء کی نعتوں کا بھی ایک ضخیم انتخاب شائع کریں تو موقع پر ہی اپنی لائبریری سے چار پرانی نایاب کتب فراہم کرتے ہوئے مبارکباد دے کر کہنے لگے کہ اب کام شروع کر دو۔
ریٹائرڈمنٹ کے بعد آپ کی تمام تر مصروفیت دینی محافل کی طرف مبذول ہو گئیں تھیں۔ ہفتے بھر میں کئی کئی محافل نعت کی صدارت و خطابت آپ کے ذمے ہوتی۔ غوثیہ دربار پیپلز کالونی کے سجادہ نشین شاہ صاحب نے اپنی جامعہ مسجد غوثیہ میں نماز جمعہ کے بیان کے لیے مفتی صاحب کی خدمات حاصل کر لیں تھی۔ آپ نے تقریباً پانچ جمعوں میں اپنے روح پرور اور ایمانی بیان سے اہلِ ایمان کے قلب و روح کو منور کیا۔ اِن کے بعد عیدالاضحی کی نماز کا بیان اور واعظ بھی آپ نے دیا۔ جس پر آپ کے عقیدت مندان نے بڑی خوشی ومسرت کا اظہار کیا۔ رات گئے دیر تک احباب و دوستوں کا آنا جانا لگا رہا اور ذکر ہوتا رہا کہ مفتی صاحب نے عیدالاضحی کا خطبہ و خطاب سُنا کر دوستوں کے دل لوٹ لیے ہیں۔ 12ذوالحجہ1434ھ ٹرو کی رات آئی تو نصف صدی سے زائد اپنی نورانی اور روحانی شعاعیں بکھیرنے والا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔ لمحہ فرقت کے آنچل میں برسوں کی قربتوں کے نشاں سو گئے ۔ میں جب بھی سوچتا ہوں کہ پروفیسر مفتی عبدالرؤف صاحب داغ مفارقت دے گئے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور کاروانِ خیال، یادو ں کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب کی وفات سے باب وفا بند ہو گیا۔ لیکن مسکراہٹوں کی خوشبو اور خوشبو کی مسکراہٹوں کا راز دل و نگاہ کے ساز پر ہنوز باقی ہے۔ انسانوں کے اِس جنگل میں ایک دلنواز شخصیت کا سایہ مقدر تھا۔۔۔وہ بھی نہ رہا۔۔۔اُف درندوں کی یہ دُنیا ہے اور احساس تنہائی۔ کوئی محرم ملتا ہے نہ ہی محرم راز۔۔۔ہمزباں ہے اور نہ کوئی رازداں۔۔۔گفتگوئے چشم سمجھے تو سمجھے کون؟۔۔۔حال دل بتاؤں تو بتاؤں کیسے؟۔۔۔اب قصہ درد سُنے گا کون؟۔۔۔میرے دل کی کائنات تو اُجڑ چکی ہے ۔۔۔روح کے دریچوں میں شگاف ہی شگاف ہیں ۔۔۔ایک میں ہوں اور آواز دوست۔۔۔آواز دوست کیا ہے؟۔۔۔دوست کی آواز سے رازو نیاز کا ایک لافانی سلسلہ جڑا ہوا ہے۔۔۔قلب و نظر اب بھی اُن کی یاد سے آباد ہیں۔ اِس یاد سے ہمیشہ روح کے باغیچے میں گلاب کھلے رہتے ہیں۔
آج سے بیس برس قبل پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان سے پہلی ملاقات ایک دینی تقریب میں ہوئی تھی۔ جہاں وہ سٹیج پر اپنی روحانی اور وجدانی گفتگو سے حاضرین کے دلوں کو گرما رہے تھے۔ دیکھا کہ ایک خوددار خدا مست درویش صبا کے لہجے میں بولتا، لحظہ لحظہ موتی رولتا اور دھیرے دھیرے کتاب دل کے بھید کھولتا جا رہا ہے۔ ۔۔میں کہ قحط الرجال کا ماتم کیا کرتا تھا۔ اُن کی محفل میں بیٹھا تو زندگی بہت ہی خوب صورت لگی۔ اب زندگی کا معنی شرمندگی ہرگز نہیں تھا۔ ۔۔کبھی بصیرت ، بصارت سے گلے مل رہی تھی۔۔۔ کبھی خردو جنون کے باہم معانقے کا منظر دیکھا۔۔۔نیم باز آنکھیں۔۔۔کتابی چہرہ۔۔۔اندرون جذب و بیرون مستی۔۔۔خاموشی میں گفتگو اور وقار میں تمکنت ۔۔۔گویائی میں ایک انوکھا سکوت اور مٹھاس و حلاوت ۔۔۔سر پر ہر وقت ٹوپی یا جناح کیپ۔۔۔انتا سچا اور پیارا چہرہ ہر ملنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر لے ۔ بہرحال پہلی ملاقات میں ہی میرے پندار علم کی نبض ٹوٹی اور دماغ کے انتشار کی جگہ روح کا خمار ہمدوش بہار تھا۔
خمار ما و در توبہ و دل ساقی
بیک تبسم شکست و بست و کشاد
حضرت مفتی صاحب سے میری باتوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بیس برس پر محیط رہا۔ اُن کے قرب اور محفلوں میں بیٹھا تو معلوم ہوا کہ وہ تو علم و نور کی روشن دلیل اور اسرار و رموز کا ایک بہتا ہوا دریا ہیں۔ سچائی و روشنی کے اِس پیکر سے مجالست ہوئی تو پتہ چلا کہ ایقان کی دولت کہاں ہے اور کیسے ملتی ہے؟۔۔۔وگرنہ میں اربابِ بصیرت کو تقلیداً اور روایتاً مانتا تو تھا لیکن جانتا بالکل نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ کسی مرد فقیر کے فیض صحبت سے کس طرح ایک بدو و رو سیاہ کار پر بھی کشور باطن کے بھید واء ہونے لگتے ہیں۔
پروفیسر مفتی عبدالرؤف صاحب محو کلام ہوتے تو مولانا روم ، حافظ شیرازی، رومی ، جامی ، سعدی، اقبال کے اشعار گفتگو کے دوران ادا کرتے۔ فارسی ادب کے تو وہ اُستاد تھے۔ ساری زندگی فارسی کو پڑھا اور پڑھایا۔ جب وہ فارسی اشعار کو اپنے خوبصورت انداز سے نذر سامعین کرتے تو الفاظ دِلوں میں اُترتے چلے جاتے۔ علاوہ ازیں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے حوالوں سے کسی بھی محفل کو روحانیت سے مالا مال کرتے چلے جاتے۔
مفتی عبدالرؤف صاحب گفتگو کرتے ہوئے کہتے کہ شب برات ، معراج اور قدر کی درمیانی کڑی ہے۔ شب معراج انسانیت کا نقطہ عروج ہے اور شبِ قدر خدا کے روحانی افعال کا نقطہ عروج جب کہ برات میں رزق کی تقسیم ، موت و حیات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان ، ماہ محرم الحرام، ماہ ربیع الاول شریف آتے تو اُن کی مصروفیات بڑھ جاتی تھی۔ رات گئے تک مطالعہ میں مستغرق رہتے کہ اگلے دن کسی تقریب میں عظمتِ رمضان کو اُجاگر کرنا ہے۔ محرم الحرام میں سید الشہدا حضرت امام حسین ؑ اور آپ کے جانثار ساتھیوں کو عاجزانہ نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے بے قرار نظر آتے۔ میرے ساتھ وہ کئی بار محرم الحرام کی تقاریب میں اپنے ایمان اور روح پرور بیان کے لیے گئے، وہ صحابہ کرام ، بزرگانِ دین اور ہمارے اسلاف کے سچے عاشق اور عقیدت مند تھے۔
جب بھی ربیع الاول کا مبارک مہینہ آتا تو ربیع الاوّل شریف کا چانددیکھ کر تو مفتی صاحب کی خوشی خوشی سے نہال ہو جاتے۔ وہ فون پر اپنے دوست احباب کو ماہ ربیع الاوّل کے ہلال کی مبارکباد یں دیتے۔ اس ماہ مبارک میں اُن کی مصروفیات بہت بڑھ جاتیں۔ ہر طرف سے عقیدت مندان ہلال ربیع الاوّل دیکھتے ہی اُن سے ملنے اور اُن سے اپنے ہاں منعقد کی جانے والی محافل کا وقت متعین کرنے چلے آتے ۔ شہر اور مضافات میں ہونے والی اکثر محافل درود وسلام و نعت میں قبلہ مفتی عبدالرؤف خان کا صدارتی خطاب ضرور ہوتا۔ آپ زیادہ تر مسندِ صدارت پر ہی جلوہ افروز ہوتے۔ ڈاکٹر عبدالشکور ساجد انصاری آپ کے بڑے عقیدت اور نیاز مند تھے ۔ وہ آپ کو اپنے المصطفیٰ تھنکرز فورم کے زیرِ اہتمام ہونے والے ’’فہم القرآن‘‘پروگرام میں صدارتی خطاب کے لیے ضرور بلواتے۔ مذکورہ فورم کے تحت وہ مفتی صاحب سے ’’قرآن اور صاحب قرآن‘‘ کے روح پرور موضوع پر طویل لیکچر سنتے ۔ مفتی صاحب پروگرام کے مقررہ وقت سے قبل پہنچ جاتے ۔مفتی صاحب قرآن مجید کو سامنے رکھ کر سرکارِ مدینہ ﷺ کی شان و رفعت کو قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کرتے تو قلب و روح روحانی دولت سے سرشار ہوتے چلے جاتے۔
پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان نے ۳۹ سال پنجاب کے بیشتر کالجوں میں فارسی زبان و ادب کی قندیل روشن کی ۔ جس وقت مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی کے ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ اُس وقت فارسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن جس طرح وقت کی سرد مہری نے زندگی کے کئی شعبوں میں تبدیلیاں رونما کیں اِس طرح فارسی زبان و ادب بھی دورِ جدید کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سکولوں ، کالجوں میں فارسی مضمون کا وجود تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔ مفتی صاحب کو اِس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ جب نئی نسل فارسی زبان سے روشناس نہ ہو گی وہ رومی، جامی ، سعدی ، شیرازی اور اقبال جیسے قادرالکلام شعراء کے کلام اور افکار کو کیسے سمجھ سکے گی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اقبال کا آدھے سے زیادہ کلام فارسی میں ہے۔ جس میں قیمتی گوہرِ نایاب چھپے ہوئے ہیں۔ اُن تک رسائی کے لیے فارسی سے شغف نہایت ضروری ہے لیکن افسوس نسل نو کو فارسی سے دور کر کے اُن کے ذہنوں پر قفل لگا دیا گیا ہے۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد( پاکستان) میں آپ نے ایم اے اُردو کے طلباء کو ایک عرصہ تک اقبالیات کا پرچہ پڑھایا ہے۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں چند رفقائے کار کے اصرار پر ’’دبستان اقبال‘‘ کے پلیٹ فارم پرفارسی کو اُجاگر کرنے اور اقبال کے فارسی کلام سے روشناس کرانے کے لیے مقامی کالج میں مغرب کے بعد ہفتہ وار لیکچر کا اہتمام کیا گیا جس میں مفتی صاحب نے تواتر سے ہفتہ وار لیکچر میں اقبال کے فارسی کلام اور پیغام کو عام شخص تک پہنچانے کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ اُن کے ایک ارات مند شاگرد پروفیسر حفظ الرحمن کلیم کی کاوشوں اور ذاتی دلچسپی سے درس اقبال کا سلسلہ پہلی بار فیصل آباد میں شروع کیا گیا۔ جس میں مفتی صاحب نے اقبال کے فارسی کلام زبورِ عجم ، ضربِ کلیم ، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ کی مدلل اور جامع تشریح سے مشکل کو آسان بنا دیا۔
اُنہوں نے نماز مغرب کے بعد کے اوقات میں ڈیڑھ سال تک ’’دبستان اقبال‘‘ کے پلیٹ فارم سے اقبال شناسی پر خودی، بے خودی کے حوالے سے اقبال کے پرستاروں کے قلوب و اذہان کو منور فرمایا۔ میں نے مفتی صاحب کو یہ بات کئی بار کہتے سُنا ’’خدا کی قسم اقبال کے کلام میں بہت سارے انمول نگینے پنہاں ہیں جنہیں تلاش کر کے عام بندے تک پہنچانا پہلا فرض ہے۔‘‘ مفتی صاحب کہا کرتے تھے کہ اقبال کے افکار و تاثرات کی گونا گوئی اور بوقلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے۔ اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدتِ نظر رکھتے ہیں۔ اِس ثروتِ افکار سے استفادہ کرنے کا بہترین عمل یہی ہے کہ اس کو عام شخص تک پہنچایا جائے۔ مفتی صاحب حضرت علامہ اقبالؒ کو نذرانہ پیش کرتے ہوئے اکثر فرماتے:
’’اقبال نے رُوی کی مریدی محض اس لیے اختیار کی کہ وہاں اُس کو عشق کی وہ کیفیت نظر آئی۔ جس کا وہ طالب تھا۔ اُس کے عشق میں بصیرت بھی ہے اور حمیت بھی اور اُس کا مقصود خدا سے ہم آہنگی پیدا کر کے خودی کو خدا سے ہمکنار کرنا ہے۔ یہ عشق خدا طلبی میں اِرتقا کو ش ہو جاتا ہے۔ اپنی بابت اقبال نے بہت سی باتیں کہیں ہیں۔ کہیں اپنی خوبیاں بتائی ہیں اور کہیں خامیاں ۔ لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر وہ جو کچھ ہو گیا اور جس کا اعلان اُس نے بیانگِ دُہل کرنا شروع کیا۔ وہ اُس عشق میں غوطہ زنی تھی ۔ جس کی طرف عارف رومی نے اُس کی رہنمائی کی۔ آخرِ عمر میں اقبال کو یہ احساس قوی تھا کہ میں رومی کا ہم رنگ ہو گیا ہوں اور اس دور میں میرا مشن وہی ہے جو اپنے زمانے میں رومی کا مشن تھا۔ ‘‘
بکام خود دگر آں کہنہ مے ریز
کہ با جامش نیرزد ملک پرویز
ز اشعار جلال الدین رومی
بہ دیوار حریم دل بیا ویز
پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان کا بیان کرنے کا انداز ایسے ہوتا تھا کہ تمام سامعین آپ کی بات کو بخوبی سمجھ سکیں ۔ اقبال کے فارسی اشعار کی تشریح کرتے ہوئے ایک ایک حرف کا اُردو ترجمہ کر کے سمجھاتے ۔ بسا اوقات تو اتنے بے تکلف ہو جاتے کہ پنجابی میں سمجھانا شروع کر دیتے۔
تاریخ پاکستان اور تاریخ اسلام کے حوالے سے اُن کا مطالعہ وسیع تھا۔ تاریخ اسلام کے کسی واقعہ کو بیان کرتے تو ایسا لگتا جیسے وہ اپنے سامنے تاریخ اسلام کے اُس واقعہ کو دیکھ رہے ہیں اور دیکھ کر سامعین کو بتاتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ اپنی شیریں گفتگو سے قلب و روح میں ہلچل مچا دیتے تھے۔
ایک بار مفتی صاحب نے سورۃ الحجرات کی تفسیر بیان کی تو لوگ عش عش سبحان اﷲ سبحان اﷲ کرنے لگے۔ اُن کا اصل میدان سیرت النبی ﷺ تھا۔ آپ نے اپنی زندگی میں دل کھول کر عظمت مصطفی ﷺ کے گیت گائے۔ عشقِ مصطفیﷺ کو ہی ایک مومن کے لیے توشہ آخرت قرار دیا۔ آپ کے ملک کے نامور اور معروف نعت خوان، نعت گو شعراء اور سیرت نگاروں سے قریبی مراسم تھے۔
آپ کے عقیدت مند اور ارادت مند جب کبھی آپ کو کسی تقریب میں دعوت دیتے تو وہ کشاں کشاں چلے آتے۔ اُن میں حاجی محمد امین قادری ہوں یا صوفی غلام احمد باری ، پیر یٰسین قادری ہوں یا پیر رحمانی، رانا ریاض احمد ہوں یا ملک قیصر علی، غوثیہ ٹینٹ ہاؤس والے ہوں یا جامعہ قادریہ والے ، ڈاکٹر عبدالشکور ساجد انصاری ہوں یا صاحبزادہ سید ہدایت رسول شاہ ، احسن بھٹی ہوں یا پروفیسر حفط الرحمن کلیم ، مولانا اقبال یوسفی ہوں یا مشتاق احمد بٹ
؂
/فقیرانہ آئے صدا کر چلے
7میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے
ô مفتی عبدالرؤف خان کا حلقۂ ارادت بہت وسیع تھا۔ علم و ادب کی کہشکشاں کے درخشندہ ستارے جن میں پروفیسر ریاض احمد قادری ، احمد شہباز خاور، صاحبزادہ مسعود احمد (مولوی غلام رسول عالمپوری اکیڈمی) ، ڈاکٹر افضال احمد انور، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، ڈاکٹر محمد ریاض شاہد، پروفیسر وقار اصغر پیروز، ڈاکٹر شوکت علی قمر، پروفیسر غلام رسول شوق، پیر آصف مسعود چشتی، علی شیر مرزا، ڈاکٹر سعید احمد وٹو، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر محمد اختر چیمہ، پروفیسر خالد عباس بابر، پروفیسر منظر مفتی، پروفیسر محمد صدیق ناگی، فقیرِ مصطفی، دلشاد احمد چن، حاتم بھٹی، مقصود احمد قادری( کراچی)، پروفیسر توکلی، قمر حجازی، منظر فارانی، حکیم صوفی نذیر احمد قادری، فقیر فیصل آبادی، شاہد فاروق، ڈاکٹر عبدالشکور ساجد، اصغر علی نظامی، رانا دلدار احمد، ڈاکٹر حمید محسن، پروفیسر اخلاق حیدر آبادی، محمد عامر گلزار، غلام رسول کاہلوں اور بدر الدین ہوشیارپوری کے علاوہ دیگر بہت سے نام اہم ہیں۔ جو موصوف سے عقیدت و احترام کا جذبہ رکھتے تھے۔
غرض کہیں سے بھی دعوت آ جاتی مفتی صاحب بڑی خوشی سے اُس تقریب میں جانے کی پیشگی تیاریاں شروع کر دیتے۔ راقم کی تصانیف ’’فخرِ کائنات ‘‘ ، ’’سیرت النبی ﷺ ‘‘ اور غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام پر مبنی ’’سارا عالم ہے منور آپ کے انوار سے‘‘ کے دیباچے قبلہ مفتی صاحب نے بڑی محبت اور نقادانہ نظر سے لکھے میرے تایا جان معروفِ شاعر نور محمد نور کپور تھلویؒ کی شاعری کے حوالے سے مجھے اُن پر تحقیقی کام کرنے کے لیے کہتے رہتے۔ اُنہی کے پرزور اصرار پر ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور نے ’’نور محمد نور کپور تھلویؒنمبر ‘‘ شائع کرنے کی ذمہ داری اُٹھائی اور مجھے ملک بھر کے تمام شناسا نقاد اور محققین سے رابطہ کرنے کو کہا جو کہ ایک خاص عرصہ میں ہم لوگ اُن نامور ادیبوں سے مضامین لکھوانے میں کامیاب ہو گئے۔ جب متذکرہ نمبر چھپ کر سامنے آیا تو اُس میں شامل نامور قلم کاروں کے طویل اور مدلل مضامین سے لے کر پرچے کے ٹائیٹل اور چھپوائی کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ مجھ سے ماہنامہ ’’لکھاری‘‘وصول کرتے ہی بزرگوارم نور محمد نور کپور تھلویؒ کے بیٹے برادر محترم رانا افتخار احمد کو ہدیہ تہنیت پیش کرنے کے لیے فون کرنے لگے ۔ ساتھ ہی لکھاری کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد کی کاوشوں کو سراہنے کے لیے اُنہیں بھی فون کر کے خراجِ تحسین پیش کیا۔ فرط و انبساط سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ اُن کی یہ خوشی دیدنی تھی۔
پروفیسر مفتی عبدالرؤف خان نے یہاں اپنے با اثر خطابات پُر مغز تقریروں اور تحریروں سے ایک زمانے کو معترف بنایا وہاں انہوں نے اپنی شاعری سے بھی زنگ آلود ذہنوں کو چمکانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے طویل موضوعاتی نظمیں بھی لکھیں۔ غزلیں بھی لیکن نعت کو زیادہ پسند کیا اور خوب لکھیں۔ مفتی صاحب نے یہاں اپنے پر اثر خطابات کے ذریعے قلب و ذہن کی تطہیر کا سامان بہم پہنچایا۔ وہاں اپنی دلنشیں نعتیہ شاعری سے بھی دینی محافل کو جگمگایا ہے۔ اُن کی نعتوں میں حضوری اور مہجوری دونوں کیفیتیں ملتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے اشعار میں الفاظ کا دروبست ایسا رکھا ہے کہ اُن کے اکثر مصرعے خوشگوار صوتی تاثر پیدا کرتے ہیں اور یوں اُن کی نعتیں لفظی اور معنوی دونوں حوالوں سے اعلیٰ ادبی اقدار کی حامل ہیں۔ قبلہ مفتی صاحب کا یہ بھی کمال تھا کہ وہ اپنے اشعار میں کسی بڑے اور اہم واقعہ کو نہایت مختصر مگر موزوں الفاظ میں بیان کرنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ وہ اپنے نعتیہ اشعار میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں کو نہایت قرینے سے بیان کر کے نعت کے حسن کو چار چاند لگا دیتے تھے۔ زیرِ نظر آپ کی نعت میں دل و نگاہ کی تطہیر اور پاکیزگی کا سامان موجود ہے۔
رات سجنے لگی دن نکھرنے لگا زندگی کو ملا اک نیا بانکپن
آفتابِ نبوتؐ ہوا ضُوفشاں جس سے روشن ہوئی انجمن انجمن!
ہے وما ینطق جس زباں کیلئے جو ہے والعصر اُس کے زماں کی قسم
اُس کے گیسو کی شرح جو وللیل ہے والضحیٰ کا بیاں اُسکے رُخ کی پھبن
ہے جو صادق وہی تو امیں بھی وہی بزم عالم کا مسند نشیں بھی وہی
اُس کی تعریف کوئی کرے بھی تو کیا جس کا قرآن بیاں جس کا قرآن سُخن
رہنمائی ملی اُس کے کردار زندگی جگمائی ہے انوار سے
بخش دیں جس نے ذروں کو تابانیاں ، راستی کا جہاں کو سکھایا چلن
راہ ویران تھی بلکہ تاریک تھی اُس کے آنے سے ہر سُو اُجالے ہوئے
دور جس سے ہوئیں کفر کی ظلمتیں پھوٹی غارِ حرا سے اِک ایسی کرن
سید الانبیاء خاتم المرسلین لے کر دُنیا میں آئے جو دینِ مبین
شان اُس کی میں صلِّ علیٰ کیا کہوں ، جس کے دم سے کھلا وحدتوں کا چمن
مفتیؔ بے نوا کی فریاد ہے اے مرے مصطفیؐ وقت امداد ہے
دور کر دیں مری سب پریشانیاں میرے دل سے مٹا سارے رنج و محن
مفتی عبدالرؤف مشوروں کا اتھاہ سمندر تھے۔ آپ کا دماغ متوازی دل بھی متوازی اور قلم بھی متوازن تھا۔ آپ اپنے شاگردوں کے لیے شجر سایہ دار تھے۔ صلہ رحمی اُن کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تری آئی
مفتی عبدالرؤف خان کے تینوں بیٹے اُن کی زندگی میں ہی ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر چکے تھے۔ حُسنِ اتفاق ہے کہ تینوں بیٹوں نے کامرس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ بڑا بیٹا ابرار رضا خان ایم ایس سی (اکنامکس) جبکہ منجھلہ بیٹا سلمان رضا خان اور چھوٹا بیٹا طیب رضا خان دونوں ایم کام کر چکے ہیں۔ بیٹی بھی ماسٹرز کرنے کے بعد رشتہ ازواج میں منسلک ہو کر اپنے میاں کے ہمراہ جاپان میں قیام پذیر ہے۔
مفتی صاحب نے اپنی موضوعاتی نظموں اور تحریر و تقریر کے ذریعے ایک عالم کو متاثر کیا لیکن اپنا مجموعہ کلام یا کوئی اشاعت منصہ شہود پر نہ لا سکے۔ راقم (اظہار احمد گلزار) نے متعدد بار اُن سے اِس بارے میں استفسار کیا اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ آپ اپنی کوئی تخلیق اشاعت کے مراحل تک نہ لا سکے تو ہر کی بار وہ بات مسکرا کر ٹال دیتے۔ اُن کی شاعری، تحریریں اور تقریریں اُن کے فرزندان کے پاس موجود ہیں ۔ جن کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے۔
مجھے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ وہ اپنے عزیز رشتہ دار خواتین کو عیدین کے علاوہ بھی کئی بار چادریں ،دوپٹے اور زنانہ سوٹ بذریعہ کورئیر تحفہ میں بھجواتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ غریبوں کی مدد خاموشی سے کر دیا کرتے تھے۔ وہ بڑے خدا ترس تھے اُنہیں جوڑ توڑ بالکل نہ آتا تھا۔ مجھے اکثر صلہ رحمی کے بارے میں تاکید کرتے رہتے تھے کہ رشتہ داروں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھا کرو ۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء کو جب میں عمرہ کی سعادت کے لیے گیا تو دونوں بار قبلہ مفتی صاحب مجھ سے زیادہ خوش تھے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں خادم نعت امیر نواز امیر (فقیر مصطفی) سے اچانک ملاقات ہوئی۔ تو میرا چھوٹا بھائی عزیزم محمد عامر گلزار اپنی کار میں مجھے اور فقیر مصطفی کو نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے کے لیے ریسٹورنٹ لے گئے۔ سعودی عرب کے وقت کے مطابق اُس وقت رات کے ۱۲ جب کہ پاکستان کے دو بجے تھے۔ فقیر مصطفی سے اجازت طلب کر کے میں نے پاکستان میں قبلہ مفتی صاحب کے گھر کے نمبر پر فون کر دیا۔ مفتی صاحب نے ۲ بجے رات نیند کے عالم میں اُٹھ کر فون سنا تو ایسے جیسے انہیں کوئی گمشدہ خزانہ مل گیا ہو ۔ جس طرح رات کے سکوت بھرے لمحات میں مفتی صاحب نے پرجوش اظہار مسرت کیا وہ شاید میں صحیح طرح بیان نہ کر پاؤں۔ شاباش ڈاکٹر اظہار صاحب ! تم نے تو کمال کر دکھایا ہے ۔ کہاں مدینہ منورہ اور کہاں میں۔ میری حاضری ۔۔۔اﷲ اﷲ۔۔۔!اس وقت فقیر مصطفی اور عامر گلزار سے ملاقات ۔ مرحبا مرحبا ماشاء اﷲ ماشاء اﷲ ۔ یقینا اُن کی بلند آواز نے پورے گھر کو نیند سے بیدار کر دیا تھا۔ عزیزم محمد عامر گلزار سے بات کرتے ہوئے یہی تلقین کرتے کہ صلہ رحمی کا خیال رکھا کرو۔ آپ کی عادت تھی کہ خوش ہیں تو اُس کا اظہار بڑے جذبے اور شدو مد سے ہوتا۔ وہ اپنے ہر ملنے والے سے پیار و خلوس اور عجزو انکساری سے ملتے تھے۔ تعلیم کے معاملے وہ کہا کرتے تھے کہ تعلیم دھوپ اور تازہ ہوا کی طرح ہے۔ جو کوئی اس کی جستجو میں نکلے اُسے اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کا ہر لیکچر سننے سے تعلق رکھتا اِسی لیے ان کے پرستار اُنہیں اپنی اسلامی تقریبات پر بار بار مدعو کرتے رہتے تھے۔ جب وہ بات کرتے تھے تو لگتا جیسے لہجے میں ایک دریا بہہ رہا ہو۔
رواں دواں چھوٹے چھوٹے جملے ، خوبصورت معانی بے بہا بندشیں، برمحل اشعار ، بے دھیان بیٹھے طلبہ پر دل آویز چوٹیں، جذبات کا چشمہ صافی تھا۔ دوست احباب کے متعلق بھی پوری معلومات رکھتے تھے۔ جس سے ایک بار مل لیتے پھر اُس کانام بھولتے اور نہ کام۔ میرے خاندان کی مختلف تقریبات میں آنے کی وجہ سے وہ اکثر عزیزوں کے نام تک جانتے تھے۔ اُن سے گرم جوشی سے ملتے اور حال احوال پوچھتے۔
مفتی صاحب کی سیرت اور شخصیت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک دبستان تھے ۔ ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے۔ ایک بہار ستان تھے۔ جہاں بیٹھتے وہیں رونقیں لگا لیتے ۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے کا فن اُن کو بخوبی آتا ہے۔ بناوٹ اور تضح سے دور رہتے تھے۔ دوستوں کے پاس جاتے دوست بھی بناوٹ اور تکلف کے بغیر جو پیش کر دیتے خوش ہو کر کھالیتے تھے اور پھر اُن کے پیش کیے ہوئے کھانے کی بے حد تعریف کرتے چلے جاتے تھے۔
جن سے روشن ہو دل کی دُنیا
وہ آدمی ماہتاب ہوتے ہیں
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ملک ولایت میں مفتی عبدالرؤف خان کس مقام پر فائز تھے ۔ تاہم یہ معلوم ضرور ہے کہ اُن جیسی جامع الصفات شخصیت کم ازکم مجھے کبھی نہیں مل سکے گی۔
موت برحق ہے۔۔۔مرنا سب کو ہے مگر مرنے مرنے میں فرق ہوتا ہے۔ مفتی صاحب نے اپنے کردار، حسنِ سلوک، رواداری ، انکساری ، اخلاص و مروت اور عشق رسول ؐ کی دولت سے مالا مال ہو کر وہ کمالات دکھائے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہیں۔
اُن کی وفات کا صدمہ اس لیے زیادہ ہے کہ ایسے قابل ، وضع دار ، مرنجاں مرنج اور سچے عاشق رسولؐ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ایسی جامع العلوم ہستی سے محروم ہونے کا جتنا بھی غم ہو کم ہے۔
تا حشر تیرے سائے کو ترسیں گی نگاہیں
تجھ سے بچھڑنے کا وہم و گمان بھی نہ تھا
قبلہ مفتی صاحب اس قدر شفیق ، ہمدرد ، خلیق اور انسان پرور تھے کہ اُن کی موجودگی ایک نعمت خداوندی کے برابر تھی۔ وہ ایسے پارس تھے جو مسِ خام کو کُندن بنانے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔ وہ اسطر ح یدبیضا کا معجزہ دکھاتے کہ ذرے کو آفتاب بننے کے فراوان موقع میسر آ جاتے وہ جب بولتے تو اُن کی باتوں سے پھول جڑتے، پڑھاتے تو دلوں کو ایک ولولہ تازہ نصیب ہوتا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو کر اُن کی بصیرت افروز باتیں سنتے۔ ان سے مل کر زندگی سے محبت ہو جاتی بلکہ زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس فزوں تر ہو جاتا ۔ اُن کی وفات کے بعد زندگی کا تمام منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے۔ زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی گرہ کشائی کی تاب کس میں ہے۔
تمہارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا
جواں سال شاعر نصیر احمد اختر کا شمار قبلہ مفتی صاحب کے شاگردان میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے مفتی صاحب کی رحلت پر اُن کی یاد میں ایک منظوم نظم ’’مردِ قلندر چلا گیا‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ جس میں نصیر احمد اختر کی عقیدت اور احترام کے ساتھ ساتھ درد و الم کے چشمے بھی پھوٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔
عرفاں کی منزلوں کا مسافر چلا گیا
حق کے مسافروں کا تھا رہبر چلا گیا
جو حلقۂ درُود کی زینت بنا رہا
پڑھتے ہوئے درود ثناگر چلا گیا
آل نبی پہ اشک بہاتا تھا رات دن
آنسو تھے جس کے صورت گوہر چلا گیا
ہوتے تھے فیض یاب یہاں تشنہ گام سب
علم و ادب کا ایک سمندر چلا گیا
عشق و وفا کے جام سدا بانٹتا رہا
اِک سادہ پوش مردِ قلندر چلا گیا
ویرانیوں نے آن لیا شہر کو نصیرؔ
جو رونقِ جہان تھا اخترؔ چلا گیا
اِس عالم آب و گِل کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے والا دانش ور آج ہمارے درمیان نہیں رہا۔ وہ ایسے انسان تھے جو اپنی بے لوث محبت کے اعجاز سے نار کو بھی گلزار بنا دیا کرتے تھے۔ جب تک دُنیا باقی ہے ایک عظیم اُستاد کے افکار کی صداقت کا نغمہ قلب اور روح کی دھڑکن سے تاابد آہنگ رہے گا۔ جب تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ ایک عظیم اُستاد کے اسلوب کی تقلید کی جاتی رہے گی۔ جن کا حسن اخلاق فکرو خیال کی وادی کے ہر رہرو کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
دُکھ صرف یہ نہیں کہ مفتی عبدالرؤف خان وصال فرما گئے ہیں۔ دُکھ تو یہ ہے کہ ایک ایک کر کے وہ سب لوگ اُٹھتے جا رہے ہیں جن سے بزمِ رونق تھی۔ جن سے زیادہ خوبیوں کے حامل لوگ ممکن ہے ہمارے درمیان موجود ہوں مگر اُن جیسا کوئی اور نہیں ۔ جو لوگ اُن سے ملے ہیں ۔ جو اُن کی قربت میں چند گھڑیاں بیٹھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ موصوف اپنی ذات میں یکتا تھے۔
مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ مفتی صاحب اتنی جلدی بچھڑ جائیں گے۔ ہم لوگ ساری زندگی اپنی موت کے خوف میں گزار دیتے ہیں اور اپنے پیاروں کی موت کے بارے میں ذہنی طور پر خود کو تیار نہیں کرتے۔ چنانچہ جب کبھی اس طرح کی خبر موصول ہوتی ہے تو دل ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اِس بحرِ علم و عرفاں کے کتنے موتی میری آنکھوں کے سامنے آسودہ خاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان میں ایک جہان علم و دانش تھا۔ وہ آج گئے۔۔۔کل ہماری باری ہے۔۔۔رہے نام اﷲ کا۔۔۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
ماخذ

۱۔ شہر نعت، مرتبہ، پیر آصف بشیر چشتی
۲۔ ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور: دسمبر ۲۰۱۱ء
۳۔ روزنامہ عوام فیصل آباد ، یکم مئی ۱۹۹۴ء ، ۱۴ اگست ۱۹۹۴ء، دسمبر ۱۹۹۵ء
۴۔ روزنامہ ’’امن‘‘ فیصل آباد: ۲۰ جون ۲۰۰۹ء
۵۔ ماہنامہ ’’ماہ نور‘‘ لاہور: ستمبر ۲۰۱۱ء
۶۔ القمر، گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد ، ۱۹۹۰ء ، ۱۹۹۳ء، ۱۹۹۵ء
۷۔ روشنی، میگزین ، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، ۲۰۰۷ء
۸۔ چمکتے ستارے، مکتبہ جامعہ بغدادیہ، ۲۰۱۰ء
۹۔ گفتگو ، نصیر احمد اختر (شاعر) شاگرد مفتی صاحب
۱۰۔ گفتگو، سلیماں رضا خان، طیب رضا خان ، ابرار رضا خان(فرزندان)
۱۱۔ گفتگو ، حفظ الرحمن کلیم، پروفیسر ، شاگرد
۱۲۔ گفتگو ، ریاض احمد قادری، پروفیسر
۱۳۔ گفتگو ، حافظ محمد رضوان ،ڈرائی کلینر (ہمسایہ)
۱۴۔ گفتگو، قاری محمد اقبال یوسفی، (خطیب)

Dr Izhar Ahmed Gulzad
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzad Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzad: 46 Articles with 62661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.