کراچی ایک یتیم شہر

شہر کراچی کی حیثیت اس دولتمند یتیم کی طرح ہے جس کو سب لوگ مل کر لوٹ رہے ہیں ،لیکن کوئی اس کا سرپرست بننے کو تیار نہیں ،آج کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا ۔کراچی شہر کوئی جدی پشتی سرمایہ دار شہر نہیں تھا بلکہ آج کے شہریان کراچی کے آبااجداد جن کی اکثریت لٹ پٹ کر ہندوستان سے آئی تھی نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے اس شہر کو روشنیو ں کا شہر بنایا یہ الگ بات ہے کہ ان ہی کی دوسری نسل پر یہ الزام لگایاجاتا ہے کہ انھوں نے اس روشنی کے شہرکو اندھیروں میں تبدیل کر دیا ہے ۔پورے ملک کو 70%ریونیودینے والے شہر کے باسیوں کی صورتحال یہ ہے کہ ان سے سکون سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے ۔
تازہ ترین واردات شہریوں کے ساتھ یہ ہوئی ہے کہ ایک عدالتی فیصلے کا سہارا لے کر اچانک چنگ جی رکشے بند کردیے گئے جس سے روزآنہ لاکھوں افراد سفر کرتے تھے ،حالانکہ جب ان رکشوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اہل الرائے اور اصحاب الرائے نے اس کی مخالفت کی تھی ایک بین الاقوامی شہر کو چھوٹے گاؤں میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔اس بندش کی وجہ سے آپ دیکھتے ہوں گے بسوں اور مزدا بسوں کی چھت پر بیٹھ کر لوگ اپنے دفاتر جانے پر مجبور ہیں ۔دوسری طرف ہزاروں افراد اچانک بے روزگار ہو گئے جو دن بھر ان رکشوں کو چلاکر پہلے ایک تنظیم کے لوگوں کو بھتہ دیتے پھر اپنے بچوں کے لیے کچھ لے کر جاتے ۔26اگست کو ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی کی تاسیس پر ہونے والے ایک پروگرام کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی نے یہ افسوسناک اطلاع دی ایک کہ چنگ جی ڈرائیور نے کئی روز کی بے روزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی ۔اب اس ملک میں یہی اندوہناک سانحات ہورہے ہیں جس میں لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر خود کشی کررہے ہیں یا اپنے بچوں کو قتل کررہے ہیں ۔

25اگست بروز منگل جماعت اسلامی کراچی نے پرل کانٹی نینٹل میں کراچی کے صحافیوں ،رپورٹروں اور شہری مسائل پر ڈائری لکھنے والوں کا امیر جماعت اسلامی کراچی جناب حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ ایک نشست کا ہتمام کیا ۔اس پروگرام میں پہلے شہر کراچی کے موجودہ سلگتے مسائل پر ایک وڈیو دکھائی گئی اس کے بعد حافظ نعیم الرحمن نے تفصیل کے ساتھ کراچی کے مسائل پر بات کی جس میں سب سے اہم مسئلہ اس وقت ٹرانسپورٹ کا ہے کہ لوگ بسوں میں لٹک کر اور چھتوں کے اوپر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں انھوں نے کہا کہ المیہ تو یہ ہے کہ اس شہر کو کوئی اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو لوگ اس شہر کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ پچھلے اٹھائیس سال سے ہر صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا حصہ رہے ۔بلدیہ کراچی ان کے پاس تھی یہ پانی اور سیوریج کا مسئلہ حل نہ کر سکے ۔جناب نعمت اﷲ خان کے دور میں کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ تقریباَ فائنل ہو گیا تھا اس کی نہ صرف فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو چکی تھی بلکہ چائنا کی کمپنی کے ساتھ تمام معاملات پر مذاکرات ہو چکے تھے ۔اگر نعمت اﷲ صاحب رہتے یا پھر بعد کے آنے والے اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے تو کراچی کے کروڑوں باشندے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے اس شہر کے وارث بننے کا دعویٰ کرنے والوں سے کوئی پوچھ سکتا ہے انھوں نے کراچی کے شہریوں کے سفری مشکلات کم کرنے کے لیے اپنے دور میں کیا کارنامے انجام دیے ،بلکہ یہاں تک ہوا کہ نعمت اﷲ صاحب نے اپنے دور میں کراچی شہر میں سو سے زائد بڑی بسیں چلائی تھیں اسے بھی بعد کے آنے والوں نے بند کردیا ،اب اس وقت حکومت سندھ نے جن بیس بسوں کا اعلان کیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مانند ہے ۔کراچی کی اصل ضرورت پوری کرنے کے لیے چار ہزار بڑی بسوں کی ضرورت ہے لیکن کم از کم اس وقت ایک ہزار بسیں فوری طور پر سڑکوں پر لانے کی ضرورت ہے ۔

دوسرا اہم مسئلہ پانی کا ہے جناب نعمت اﷲ صاحب نے اپنے دور میں حب ڈیم کے ذریعے اہل کراچی کے لیے سوملین گیلن پانی کی فراہمی کا انتظام کیا ،پھر انھوں نے کے فور منصوبے کو آخری شکل دے دی تھی اس پر کام کا آغاز اب سے دس برس قبل یعنی 2005میں ہوجانا چاہیے تھا لیکن ایم کیو ایم جو بلدیہ میں برسراقتدار تھی اس نے اپنے دور میں اس منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کیا کوئی ان سے پوچھنے والا ہے کہ انھوں یہ مجرمانہ غفلت کیوں کی ۔آج اس منصوبے کا افتتاح ہوئے بھی مہینوں گزر گئے لیکن کام شروع نہیں ہوا اب سے دس سال قبل اس کی مالیت بھی کم تھی اب اس کی مالیت دوگنی ہو گئی ہے ۔پھر اس بات کا بھی خوف ہے کہ کئی برسوں بعد جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو اسے بحریہ ٹاؤن والے نہ لے جائیں اور کراچی کے شہری اسی طرح پانی کو ترستے رہیں ۔

کراچی کے شہریوں کا ایک اہم مسئلہ کے الیکٹرک کی ظالمانہ کارروائیاں ہیں ابھی حال ہی میں کراچی کے صارفین کے لیے چارجز میں تیس فیصد کا اضافہ کیا گیا اس اضافے کے خلاف ہم ان شاء اﷲ سپریم کورٹ میں جارہے ہیں ۔جب کے ای ایس سی کو بیچا گیا اس وقت ایم کیو ایم ہر سطح پر اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی اس نے اس فروخت کے خلاف کوئی احتجاج کی صدا بلند نہیں بلکہ اپنے اہم لوگوں کو بھاری تنخواہوں پر ملازمتیں دلوائیں آج کراچی کے شہری لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں ،کے الیکٹرک نے ایک یونٹ بجلی پروڈیوس نہیں کی بلکہ سستے داموں واپڈا سے بجلی لے کر مہنگے داموں کراچی کے شہریوں کو دے رہے ہیں ہم نے ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں کے الیکٹرک کے دفتر کے سامنے آٹھ گھنٹے کا دھرنا دیا وہیں روزہ کھولا تراویح پڑھی اس لیے کہ کے الیکٹرک کے کرتا دھرتا کراچی کے شہریوں کی مشکلات کو سمجھیں ہم اس پر آئندہ مہم چلانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ہمین امید ہے کہ آپ تمام صحافی برادری ہمارا ساتھ دے گی ۔

پانی بجلی ٹرانسپورٹ کے بعد اہم مسئلہ یہ ہے کراچی کی آمدنی والے اداروں کو کراچی سے چھین کر صوبائی حکومت اپنی تحویل میں لے رہی ہے ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنترول اتھارٹی بنادیا گیا ہے ،واٹر بورڈ کو بھی سندھ حکومت نے لے لیا ہے اسی طرح اور اداروں پر بھی حکومت سندھ دانت گاڑے بیٹھی ہے اگر سب کچھ سندھ حکومت لے لے گی تو بلدیہ کراچی کے پاس کیا بچے گا ۔افغانی صاحب نے تو اپنے دور میں موٹر وھیکل ٹیکس کے لیے روڈ پر آکر احتجاج کیا تھا اور اپنی میئر شپ کی قربانی دی مہینوں اپنے سیکڑوں کونسلروں کے ساتھ جیل میں بھی رہے ،کراچی جو پہلے ہی ایک یتیم شہر تھا اسے صوبائی اور مرکزی حکومت مل کر لوٹ رہی ہے ۔

میری رائے یہ ہے کہ اس وقت شہر میں صرف جماعت اسلامی ہے جو کراچی کے شہریوں کے حقیقی مسائل کو اجاگر کررہی ہے آنے والے بلدیاتی انتخاب میں آپ کو اپنے قلم کے ذریعے کراچی کے شہریوں کو یہ بتانا ہوگا کون لوگ ہیں جو اس شہر کے لیے مخلص ہیں میں آپ سے کہتا ہوں اس شہر میں صرف جماعت اسلامی ہے جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے اور وہ کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں اخلاص کے ساتھ کام کررہی ہے ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.