اقوم عالم کی تنزلی کے اسباب

انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ ماضی کے بیتے لمحوں اور وقوع پزیر حالات کی روشنی میں مستقبل کی پلاننگ کرتاہے۔تاریخ کی اہمیت سے بھلا کسے انکار ہوسکتاہے ۔یہ تاریخ ہی تو ہے کہ دیوان کے دیوان ماضی کے نقوش سے بھرے پڑے ہیں ۔جس میں انسان کے جب سے تب کے حالات کو قید کرلیاگیاہے ۔تاریخ انسانیت میں قوموں کو عروج بھی ملا اور قومیں تنزلی کا شکار بھی ہوئیں ۔

فلسفہ تاریخ سے ہی تو پتہ چلے گا کہ تباہ شدہ قومیں کیوں تباہ ہوئیں۔ ان کی تباہی کے پیچھے کیا عوامل تھے اور جب یہ قومیں عروج پر تھیں تو اس عروج کی کیا وجوہات تھیں ۔ اس فلسفہ تاریخ کے سبق سے آج کے مسلمانو ں کو یہ بھی اندازہ ہوجائے گاکہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ان میں کیا کمزوریاں ہیں اور عروج پر کیسے پہنچے تھے اور اب ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟۔

اگر بنی اسرائیل کبھی خدا کیلئے ایک پسندیدہ قوم تھے تو صرف اس لئے کہ انہوں نے ان اسباب کوفراہم کیا جو عروج و کامیابی کا باعث تھے لیکن بعد میں یہی قوم ذلت و خواری کا شکار بھی ہوئی۔قران مجید فرقان حمید نے قوموں کی رفعت کو بھی بیان کیا اور ان کے مذموں کاموں کی بنا پر انکی تنزلی کا ذکر بھی کیا۔جیسا کہ قرآن نے صالح اعمال کی بنا پر صالح قوم کو ان الفاظ سے یاد کیا:انی فضلتکم علی العا لمین‘‘ ۔بداعمالیوں کی بناپر تنزلی کا شکار قوم کو اسی قران میں کچھ اس طرح مخاطب فرمایا:’’ضربت علیہم الذلۃ و المسکنۃ‘‘

محترم قارئین :یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کوئی بھی قوم بارگاہِ ایزدی میں حسب ونسب کی بنا پر محترم نہیں بنتی بلکہ اس کے اعمال اس کو بلندیوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔

میں اپنی قوم کی حالت دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبورہوگیا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ قوموں کا عروج و زوال کس میں ہے ۔وہ کون سے محرکات ہیں جو قوموں کی ترقی کا باعث بنے اور وہ کونسے اسباب ہیں جو قوموں کے زوال کا باعث بنے ۔لہٰذا وہ اسباب جو کسی قوم کے زوال کا باعث بنتے ہیں وہ صرف مسلمانوں سے مخصوس نہیں ہیں بلکہ جس قوم کے اندر بھی یہ اسباب پائے جائیں وہ قوم زوال پذیر ہو کر رہے گی پھر چاہے وہ قوم بنی اسرائیل ہو خواہ ثمود اور عادہو یا مسلمان۔

آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر وہ اسباب پیش خدمت ہیں ۔٭حکم عدولی:خدا وند عالم نے ہر امت کیلئے ایک رہبر و رہنما کا اہتمام کیا ہے کوئی بھی معاشر ہ رہبر کے وجود سے خالی نہیں ہے چاہے وہ قیادت نیک ہو یا فاسق و فاجر اورجس چیز سے قائد اور ملّت کے مابین جو واسطہ ہے وہ اتباع کا واسطہ ہے ۔اس قائد وہ رہنماکی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم و ملّت میں اختلاف کا باعث نہ بنے ۔بلکہ اتحاد و اتفاق کی علامت بنے ۔ملّت اس کی اطاعت پر سر تسلیم خم کرے۔

اسپین میں مسلمانوں نے تقریباََآٹھ سو سال حکومت کی لیکن جب ان کی صفوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ تو رفتہ رفتہ ان کی حکومت جاتی رہی۔ قابل توجہ بات ہے !!جس ملک میں مسلمانوں کا عروج تھا۔ آج اسی اسپین میں مسلمان خوف وہراس کی زندگی گزار ہا ہے؟

یاد رکھیں!! جس قوم میں امام ورہبر کی اطاعت نہیں ہوتی اس قوم کے زوال اور تنزلی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا بلکہ بسا اوقات اس قوم کی نافرمانی کو دیکھ کر خود اس قوم کا رہبر ہی اپنی ہی قوم کے کے زوال کا نقارہ بجادیتا ہے۔

٭ظلم اورزیادتی ۔ قرآن کی نگاہ میں بھی قوموں کی ہلاکت کا اہم سبب ظلم ہے اور ظلم کے ذریعے حاصل ہونے والی کسی بھی چیز میں دوام نہیں ہوتا۔بلکہ وہ عارضی طور پر کامیابی مل جاتی ہے لیکن اس کی عمر زیادہ نہیں ۔قوموں کی تباہی میں ظلم کا اہم کردار رہا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کی حیات کفر کے ساتھ تو ممکن ہے لیکن ظلم کے ساتھ اس کی بقا نا ممکن ہے۔قران مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ :’’وما کنامہلکی القریٰ الا واہلہا ظالمون‘‘
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور ہم شہروں کو ہلاک نہیں کرتے مگر جبکہ ان کے ساکن ستمگار ہوں ۔

٭تفریق قوموں کے لیے زہر ہے :’’ قرآن نے شدت سے مسلمانوں کو تفرقہ اور اختلاف سے منع کیاہے اور اس کے مضر اثرات کی طرف انسان کو متوجہ بھی کیا ہے۔قران مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اطیعوا اللّٰہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذہب ریحکم‘‘
ترجمہ کنزالایمان:’’اور اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی ‘‘

اس آیت سے معلوم یہ ہوا کہ باہمی تنازع ضعف و کمزوری اور بے وقاری کا سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ باہمی تنازع سے محفوظ رہنے کی تدبیر خدا اور رسول کی فرماں برداری اور دین کا اِتِّباع ہے ۔

راہِ خدا میں خودکو پیش نہ کرنا:اسلام میں جہادکا ترک کرنا بھی قوموں کے زوال کا ایک اہم سبب ہے ۔کیوں کہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو اس کاسنہری دور دورِ جہاد ہے ۔جس میں مسلمانوں نے شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہِ خدا کہ لیے ہمہ تن تیار رہے ۔جہاں جب اور جس طرح ضرورت پیش آئی خود کو پیش کیا ایک لمحہ کے لیے بھی غفلت نہ برتی اور جہاد فی سبیل ﷲ کی بدولت دنیا پر اپنی حکمرانی کے جوہر دکھائے ۔
قران مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَ جٰہِدُوْا فِی اﷲِ حَقَّ جِہَادِہٖ
’’ترجمہ ٔ کنزالایمان :اور اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا‘‘

خیانت : انسان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ اﷲ کا امین ہے۔جن قوموں میں خیانت کا مرض عام ہوجاتاہے زوال ان کا مقدر بن جاتاہے ۔ترقی کی سب راہیں ان پر مسدود ہوجاتی ہیں ۔ناکامی و نامرادی کے دروازے ان پر کشاہ ہوجاتے ہیں۔

قرآن کریم نے امانت قبول کرنے کو ایک مثبت صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کے بر عکس خیانت ایک بری صفت ہے ۔ خیانت کا اثر صرف انسان کے اخلاق پر نہیں پڑتا بلکہ پورے معاشرہ پر پڑتا ہے ۔اس مکروہ فعل کا اثرپوری سوسائٹی پر پڑتاہے ۔جس سے اعتبار و اعتماد کی فضا آلودہ ہوتی ہے ۔شکوک و شبہات اور خدشات جنم لیتے ہیں ۔یوں معاشرے میں بے چینی پھیلتی چلی جاتی ہے ۔یہ بھی قوموں کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے ۔

تاریخ شاہد ہے کہ ایک فرد کی خیانت پوری قوم پر اثر انداز ہوتی ہے۔کتابوں میں ایسے سینکڑوں واقعات مندرج ہیں ۔جو ہمیں اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ خیانت کے مرض میں مبتلا افراد پوری ملّت کے لیے زہر آلود ثابت ہوئے اور اس قوم کو یہ خیانت دیمک کی طرح چاٹ گئی اور پھر پسپائی اور ناکامی ان کا مقدر بن گئی ۔یہ وہ چیدہ چیدہ باتیں تھیں جو ایک سطحی ذہنیت کا انسان بھی سمجھ سکتاہے ۔چنانچہ تحریر میں انہی سرفہرست محرکات کو پیش کیا گیا۔جو ہر ملّت کی ناکامی میں یکساں پائے جارہے تھے ۔آئندہ ہم قوموں کے عروج کے حوالے سے بھی آپ تک اہم معلومات پہنچائیں گے ۔ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازتے رہیے گا۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542816 views i am scholar.serve the humainbeing... View More