اقتدار کی ہوس

یہ دور حالات و واقعات کا ہے ۔پاکستان بننے کے بعد بنیادی خرابی یہ رہی کہ ہمارا سیاسی نظام مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہو سکا ، ہماری سیاسی شیرازہ بندی نہیں ہوئی ،اگر ابتدا میں ہی ہمارا کوئی سیاسی نظام قائم ہو جاتا اور جو چیزیں بعد میں دیکھنے میں آئیں شاید نہ ہوتیں ۔یہ ہماری کمزوری رہی ،مگر دیکھا جائے تو بحیثیت پاکستانی ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ہم نے ہر شعبے میں نہ صرف خود کو منوایا ہے ، بلکہ محدود وسائل اور بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ایٹمی طاقت بھی ہیں ۔ہم نے میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے علاوہ بہت سے شعبوں میں کامیابی و کامرانی کے پرچم بلند کیے ہیں ۔بحیثیت قوم ہم میں بہت قابلیت ہونے کے علاوہ ایسی صلاحتیں موجود ہیں جس سے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔

پاکستانی قوم کی آرزوئیں چاہے جتنی بلند کیوں نہ ہوں ، جہاں ہم پہنچ ہیں، وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ پاکستان قوم بہت کچھ حاصل کر چکی ہے اور بہت کچھ ابھی حاصل نہیں کر پائی ۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی شیرازہ بندی کا نہ ہونا ہے آج جس مقام پر ہم کھڑے ہیں وہاں دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا بہت آسان ہے۔ یہ وقت الزام تراشی کا نہیں بلکہ اعتراف کرنے کا ہے کہ ہم سب نے غلطیاں کی ہیں ۔خرابی کسی ایک جگہ سے نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے شروع ہو کر ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔ ہم نظام کی بجائے شخصیات کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ جمہوریت کو آنے میں عرصہ درکار ہوتا ہے،جمہوریت کے تسلسل میں ہر غلطی کے بعد اصلاح ہوتی ہے اور ایک دن مضبوط جمہوری نظام کی بنیاد پڑتی ہے ۔جس ملک میں بھی جمہوریت کا تسلسل برقرار نہ رہا ، وہاں ملکی استحکام اور ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟اس کے ذمہ دار بریک لگانے والے لوگ ہیں ۔پاکستان میں ہر چیز غلط نہیں ہو رہی ،یہاں بیٹھ کر اس کو لوٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرکے اسے گالیاں دینے والے جب کسی دوسر ے ملک جاتے ہیں تو خود ہی ان کو اپنی حیثیت کا پتہ چل جاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہم اپنے ملک کی قدر نہیں کرتے ،اعلیٰ عہدے اور مقام حاصل کرنے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یہ ملک نہ ہوتا تو وہ کیسے اس مقام تک پہنچتے۔

ہمارے پاس ان تمام باتوں کی وجہ لیڈرشپ کا مسلسل فقدان ہے۔اگر کوئی اچھا لیڈر آیا تو ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے،یہ ملک معرضِ وجود میں آیا کیونکہ ایک سلسلے وار قیادت میسر آئی ۔مولانا طفر علی خاںؒ، محمد علی جوہرؒ، علامہ محمد اقبالؒ،قائداعظمؒ انہوں نے لوگوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی ۔ آج مائیں اپنے بیٹوں کو انجینئر ،ڈاکٹر، آرمی آفیسر ،بنکر بنانے کی دعا کرنے لگی ہیں ۔انتظار اس وقت کا ہے جب مائیں باکردار قیادت کے لئے دعا کرنے لگیں ،کیونکہ با کردار قیادت قوم کی ماؤں کی دعاؤں کی مرہونِ منت ہے۔اسی خلا کی وجہ سے ہم آج اس مقام پر ہیں ۔جہاں عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ،وہ غربت ،افلاس کے ہاتھوں اتنی افسردہ ہے کہ اسے راستہ نظر نہیں آرہا اور جنہوں نے راستہ دکھانا ہے وہ اپنی اقتدار کے حصول کی جنگ میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں اس بے چاری عوام پر زرا سا ترس بھی نہیں آتا۔

عمران خان کو اپنا قائد ماننے والے خوش ہو گئے تھے کہ ہمیں کوئی قائد مل گیا ہے،مگر انہوں نے آج تک کیا کیا……؟ سوائے عوام کو استعمال کرنے کے کچھ نہیں۔عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن انہوں نے اپنی ذاتی خواہش ،ہٹ دھرمی ، انا پرستی اور اپنے ساتھیوں کے مفادات کے تحفظ کے علاوہ غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔یہ درست ہے کہ نظام درست ہونا چاہئے، اسی میں بھلائی ہے،مگر اس نظام کو درست کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے۔جن ممالک میں نظام بنے ہیں وہ کوئی بیس،تیس سال میں نہیں بنے ،انہیں آہستہ آہستہ بہتری کی جانب لانے میں ایک عرصہ لگا ہے ، انہوں نے نظام کے ساتھ اپنے ملک کو ترقی کی ڈگر سے نہیں روکا ،لوگوں کا وقت ضائع نہیں کیا۔دھرنوں ،جلسے ،جلوسوں سے گریز کرنا ہو گا۔عوام کو سوچ دینا ہو گئی کہ ملک میں معاشی استحکام کی ضرورت ہے، اس کے لئے ہر کسی کو کام کرنا ہے۔آپ کو عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ سے اپنے نمائندہ کے طور پر اسمبلیوں میں بھیجا ہے ،تاکہ انہیں روزگار مل سکے،انڈسٹریاں چلیں ،روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں ،تعلیمی سرگرمیوں میں اصلاحات ہوں ، صحت کے شعبے میں تبدیلی آئے،غربت کا خاتمہ کرنے کے اقتدامات کئے جائیں۔اقتدار میں کوئی بھی ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟جبکہ آپ بھی اسی اسمبلیوں میں ہو جہاں قانون سازی ہو رہی ہے۔جہاں تمام معاملات پر آپ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ آپ کے نمائندے ہر کمیٹی کے ممبر ہیں ۔آپ صرف میڈیا پر اپنی باتوں تک محدود ہیں،اگر آپ ایک لیڈر ہیں اور ایک بڑی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں تو آپ نے عوام کے لئے آج تک کیا کیا ہے ۔الیکشن کی دھاندلی اور صرف دھاندلی کے رونے کے علاوہ ۔آپ کی ابتدا میں سوچ درست تھی، لوگوں کو محسوس ہوا تھا اور ان کی امید بندھی تھی کہ شاید ہمیں قیادت میسر آ گئی ہے لیکن آپ نے اپنے کام سے باور کروا دیا کہ مجھے صرف وزیر اعظم بناؤ تو میں کوئی کام کر وں گا ورنہ کچھ نہیں ۔اسے لیڈر شپ نہیں کہتے ۔

چار حلقوں پر آپ نے پوری قوم اور ملک کو داؤ پر لگا دیا ،مگر آخر کیا ہو گا ،دوبارہ الیکشن ہوں گے ،کیا آپ 122حلقہ سے ایازصادق کو شکست دے پائیں گے؟جی نہیں ،ایاز صادق ایک سیاسی ورکر ہے انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی ہوتے ہوئے بھی اپنے حلقے کو باقاعدہ وقت دیا ،ان کے علاقے میں جا کر تو دیکھیں ،علاقے میں گراس روٹ تک عوام ان سے خوش ہے۔ 125 کے حلقے میں کیا پی ٹی آئی جیت جائے گی ؟ خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں حامد خان جیتں گے؟ جنہوں نے ہارنے کے بعد اپنے علاقے میں قدم تک نہیں رکھا،مگر خواجہ سعد رفیق ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے آج بھی کام کر رہے ہیں۔ریلوے جو ڈوبا ہوا بڑا محکمہ تھا اس کی بہتری کی کاوش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ملتان لودھراں حلقہ 154 میں جہانگیر ترین جیتیں گے؟ یہ سرمایہ دار اپنے حلقے میں لوگوں کی کیا خدمت کرتے ہیں،جن سے چند منٹ کا وقت لینا مشکل ترین کام ہے ،وہ لودھراں میں کیا کریں گے……؟پی ٹی آئی کی اپنی پارٹی میں بے انصافیوں کے انبار ہیں ،یہ کیسی پارٹی اور قیادت ہے جو اپنی پارٹی میں امیر لوگوں کو تو سر پر بیٹھاتی ہے اور غریب کارکنوں کو صرف استعمال کرتی ہے۔ بہت سے لوگ جو اپنے ملک سے پیار اور اس کی بہتری کے لئے سوچتے ہیں ، اس بات سے خوش تھے کہ پی ٹی آئی پورے ملک میں بڑی جماعت بن کر ابھری ہے مگر وہی لوگ ان کی کارکردگی کو دیکھ کر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔

ملک کو شدید نقصان پہنچانے والوں میں ایک طبقہ نام نہاد دانشوروں کا بھی ہے ، وہ ابلاغ سے وابستہ ہو کر حکومتی اداروں میں گھسے رہے ،جبکہ حقیقی اور سچے لوگ ہر دور میں گھروں میں محیط رہے ، ان سے استفادہ کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے،جو نہیں کیا گیا۔ان خوشامدی ٹولے نے جی حضوری کا خود تو فائدہ اٹھایا مگر ملک و قوم کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔

یہ وقت اپنی تمام تر غلطیوں کو درست کر تے ہوئے آزاد نظام انصاف کو قائم کرنے کا ہے ، جس میں تمام امتیاز سے بالاتر ہو کر امیر، غریب کو برابر مواقع میسر ہوں ، ظالم کا احتساب کر کے ظلم ختم کیا جائے، تو پاکستان جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتاہے اور یہ نظام ہر سطح پر ہونا چاہئے ، چاہے وہ سیاسی پارٹی ہو ،حکومت ہو ، ادارے ہوں یا اعلیٰ شخصیات ہوں۔ہمیں حقیقی لوگوں کی تلاش کر کے ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اقتدار کی خاطر ملک کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اپنے اندر کی کمزوریوں کو دور کر کے ملکی ترقی اور سالمیت کے لئے اپنا موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔وزیر اعظم کی خواہش کی بجائے لیڈر بننا ہوگا۔اقتدار کو اپنا حصولِ مقصد بنانے کی بجائے غریب عوام کی بھلائی کا سوچنے کی ضرورت ہے۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 94867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.