منقسم کشمیر کے بچھڑے صحافیوں کی ملاقات!

گزشتہ دنوں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے صحافیوں کے ایک وفد نے اسلام آباد،مظفر آباد اور لاہور کا دورہ کیا۔ ا س دورے کا اہتمامکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشنز(کے آئی آئی آر) ، سنٹرفار پریس ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز(سی پی ڈی آر ) اور برطانوی این جی او ’ ری کنسیلیشن ‘ نے کیا ۔اسلام آباد میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے صحافیوں کی دو روزہ ورکشاپ بھی منعقد کی گئی۔ دو روزہ’’ انٹرا کشمیر ورکشاپ‘‘ میں مقبوضہ کشمیر کی دو سینئر اور معروف صحافتی شخصیات شجاعت بخاری اور افتخار گیلانی کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر سے آئے صحافیوں کے وفد میں راشد مقبول ، عرفان رشید ، شاہانہ بشیر بٹ ، طارق میر،فیصل یٰسین،ریاض ملک ،محمود الرشید ،رفعت محی الدین ،زینت ذیشان ،عاشق مشتاق جبکہ آزاد کشمیر سے راجہ کفیل احمد ، اعجاز عباسی ، اطہر مسعود وانی،سردار زاہد تبسم ،شہزاد احمد راٹھور،الطاف حمید راؤ ، سید خالد گردیزی ،سردار عابد صدیق ،قمرالزمان ،عابد خورشید،راجہ سرفراز،آمنہ عامر،ثمر عباس،اور راشدہ شعیب نے شرکت کی۔ ’کے آئی آئی آر‘ کی طرف سے میزبان امجد یوسف اور’سی پی ڈی آر‘ کے ا رشاد محمود کے علاوہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے میڈیا ایڈوائزر سید عزادار کاظمی ، حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے الطاف وانی اور’کے آئی آئی آر‘ کے سید وقاص کوثر بھی موجود تھے۔

’انٹرا کشمیر ورکشاپ‘ میں کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافیوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل میں میڈیا کے کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس متعلق صحافتی ذمہ داریوں اورامکانات کا احاطہ کیا گیا،پاکستان اور بھارت کے درمیان ’امن عمل‘ میں صحافیوں کے فعال کردار کا جائزہ لیا گیا اور کشمیر کے دونوں حصوں کے میڈیا کے درمیان قریبی تعاون اور پیشہ وارانہ ہم آہنگی کے خطوط تلاش کئے گئے۔ورکشاپ میں چار ورکنگ گروپ بنائے گئے جنہوں نے باہمی مشاورت سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے منقسم کشمیر کے دونوں حصوں میں میڈیاکے درمیان رابطے، تعاون کے لئے سفارشات مرتب کیں جنہیں اتفاق رائے سے منظور کرتے ہوئے’ ورکشاپ ‘کے آخر میں جاری بارہ نکاتی اعلامیہ میں شامل کیا گیا جس میں صحافتی مواد کے تبادلے، مشترکہ سوشل میڈیا گروپ کے قیام، رابطوں میں تسلسل پر اتفاق،مشترکہ وکنگ گروپ کی تشکیل ، جوائنٹ ٹریننگ پروگرام کا انعقاد، دونوں طرف کے صحافیوں کی رکنیت سازی،کشمیر کے دونوں طرف کی صحافتی تاریخ مرتب کرنے، جموں وکشمیر کے حوالے سے ڈیجیٹل لائبریری قائم کرنے،منقسم کشمیریوں کے حوالے سے دستاویزی فلم،سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں طرف کے صحافت کے طالب علموں کے لئے لیکچرز،مشترکہ نیوز لیٹر کی اشاعت،کشمیری صحافیوں کے لئے ایوارڈزاور دنیا بھر میں مقیم کشمیری صحافیوں کی ڈائریکٹری مرتب کرنے کے نکات شامل ہیں۔اس موقع پرمقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے صحافیوں پر مشتمل پندرہ رکنی ’انٹرا کشمیر جرنلٹس ورکنگ گروپ‘ قائم کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر سے افتخار گیلانی، محمود الرشید، طارق علی میر، پیرزادہ عاشق، فاروق جاوید خان، شاہانہ بٹ ، محمد اسلم بٹ اور بشیر احمد بشیرجبکہ آزادکشمیر سے الطاف احمد راؤ ، اطہر مسعود وانی،سردار عابد خورشید، عابد صدیق، شہزاد احمد راٹھور،، آمنہ عامر اور سید خالد گردیزی شامل ہیں۔اشاعتی مواد کے تبادلے کے لئے مقبوضہ کشمیر سے راشد مقبول،حکیم عرفان جبکہ آزادکشمیر سے ثمر عباس ا ورآصف رضا میر پر مشتمل ایک چار رکنی ’ کونٹینٹ شیئرنگ گروپ ‘ بھی قائم کیا گیا ۔
مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کے وفد نے اسلام آباد میں مختلف تقریبات میں شرکت کی اور مختلف سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔ مظفر آباد کے دورے میں وہاں کے صحافیوں نے کشمیری صحافتی وفد کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اور اس موقع پر منقسم کشمیر کے بچھڑے کشمیریوں کے مشترکہ درد اور مشترکہ آنسوؤں کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مظفر آباد میں ہونے والی تقریب سے خطاب اور کشمیری صحافیوں کے وفد سے ملاقات کرنے والوں میں سید عارف بہار،طارق نقاش،اسلم میر،سردار ذوالفقار،ظہیر جگوال،سید آفاق شاہ،سہیل مغل، سید ابرار حیدر،غلام اﷲ کیانی،آصف رضا میر،روشن مغل، ذولفقار بٹ، راجہ وسیم،عامر قریشی،اختر بخاری،شجاعت و دیگر شامل تھے۔مظفر آباد میں دونوں طرف کے کشمیری صحافیوں کی طرف سے کہا گیا کہ لائین آف کنٹرول(سیز فائر لائین) سے کشمیریوں کے لئے آنے جانے کی سہولت میں آسانیاں پیدا کی جائیں،مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل جنوبی ایشاء میں امن کے قیام ، پاکستان و بھارت کی ترقی اور خطے سے غربت کے خاتمے کا ضامن ہے،دونوں طرف کے کشمیریوں کو باہم مل بیٹھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، خطہ میں امن کے قیام کے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں ، دونوں طرف کے کشمیریوں کے باقاعدہ ملاپ سے دوریاں کم ہو نگی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کے لئے جبری پابندی کی لکیر سے کشمیریوں کو آنے جانے کی آزادانہ اجازت ہونی چاہئے، مظفرآباد اور سرینگر کے درمیان روائیتی رابطوں کی بحالی ضروری ہے، دونوں طرف کا میڈیا تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتا ہے ،سرینگر مظفر آباد بس سروس کے ذریعے دونوں طرف کے مختلف شعبوں(صحافی، وکلاء، اساتذہ، ڈاکٹرز،پروفیسرز ، قلمکاروں ،شاعروں) کے گروپوں کو بھی آنے جانے اور ہنگامی صورتحال میں منقسم کشمیری خاندانوں کو ہنگامی طور پر آنے جانے کی اجازت دی جائے ۔ سید شجاعت بخاری اور سید افتخار گیلانی کا کہنا تھا کہ ہماری دلی خواہش تھی کہ انٹرا کشمیر جرنلسٹس ملاپ ہواور اس ملاپ کی ہمیشہ کوشش کی ۔ اب ہماری کوشش ہے کہ آزاد کشمیر کے جرنلسٹس کو سرینگر لے کر جائیں اور یہ سفر چکوٹھی کے راستے ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے ملاپ او ر میل جول کے بغیر ہم مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ 2005کا دور کشمیریوں کے لئے اہم تھا جب مظفرآباد سرینگر بس سروس کا اجراء ہوا۔ اور کشمیریوں کے منقسم خاندانوں کو ملنے کا موقع ملا۔ بس سروس ، انٹرا کشمیر ٹریڈ سمیت اعتماد سازی اور کشمیریوں کے میل جول کے لئے مزید اقدامات بھی اٹھائے جانے چاہیں تاکہ دہائیوں کی دوریاں ختم ہوسکیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔ مظفرآباد میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی آمد پر دارلحکومت کے صحافیوں کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا، کشمیری وفد کے ارکان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی اور انہیں گلدستے و تحائف پیش کیے گئے، اس موقع پر انتہائی جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مقامی گلوکارہ بانو رحمت نے کشمیری نغمہ ’’ کریو منز جگرس جائے چھم‘‘ (میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن) دلسوز آواز میں پیش کیا تو شرکاء کی آنکھیں بھر آئیں۔

1947-48ء کی جنگ کشمیر،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں،پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ سمجھوتے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ نہ تو عالمی سطح پر اور ناہی پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی سطح پر حل ہو سکا ہے۔اس وجہ سے سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست کشمیر کے عوام جس عذاب مسلسل سے گزر رہے ہیں اس کے مختلف مناظر میڈیا میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے منصفانہ پرامن حل سے گریز کی صورتحال سے کشمیریوں میں اس احساس نے شدت اختیار کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کو خود متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔سالہا سال پہلے ’ سیفما‘ کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر سے صحافیوں کے ایک وفد نے یہاں کا دورہ کیاتھا۔اب طویل عرصے کے بعد سرینگر سے کشمیری صحافیوں کے ایک وفد نے اسلام آباد اور مظفر آباد کا دورہ کیا ہے ۔یوں اس دورے سے پہلی بار حقیقی طور پر کنٹرول لائین کی جبری تقسیم کی وجہ سے دونوں طرف کے بچھڑے کشمیریوں کی میڈیا کے شعبے میں نمائندگی کرنے والے کشمیری صحافیوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور تبادلہ خیالات کا موقع ملا ۔اسلا م آباد کلب میں ہونے والی دو روزہ ورکشاپ میں کلی طور پر پیشہ وارانہ امور پر ہی گفتگو ہوئی اور دونوں طرف کے کشمیری صحافیوں کو اپنے خیالات کے تبادلے کا موقع صحیح طور پر نہ مل سکا،تاہم مظفر آباد میں خیالات اور احساسات کا اظہار دیکھنے میں آیا ۔

ہمارے سامنے ایسے کئی نامور کشمیری صحافیوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خطہ کشمیر کے لوگوں کی مظلومیت اور لاچارگی کا احساس کرتے ہوئے ،سول سوسائٹی کے ایک اہم جز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ۔صحافی کے معنی کو محض ’’ رپورٹنگ‘‘ کے تصور میں محدود نہیں کیا جانا چاہئے،بالخصوص کشمیر کے حالات و قعات کے تناظر میں ۔عالمانہ اور دانشورانہ سوچ ا اور اپروچ صحافت کی ایسی بلندی ہے جس کی تمنا تو کئی کرتے ہیں لیکن اس مقام کو کوئی کوئی ہی پہنچتا ہے۔اس طرح کے کردار کی ادائیگی کے لئے کشمیر سے متعلق ’’ مائینڈ سیٹ‘‘ اور کشمیر کی کم از کم ایک سو سالہ تاریخ کواچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔صحافی کسی علاقے کے حالات و واقعات اور وہاں کے لوگوں کے خیالات اور امنگوں کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔متنازعہ ریاست کشمیر کے سیاسی ’’کریکٹر‘‘ کی کمزوری کی صورتحال میں کشمیر کے صحافیوں پر یہ بڑی ذمہ داری عائید ہو جاتی ہے کہ وہ ریاست کے ان مظلوم،ستم رسیدہ عوام کی بہترین ترجمانی کے لئے اپنا بھرپور متحرک کردار ادا کریں ، جن کے جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی مسئلہ کشمیرکے پرامن،منصفانہ اور مستقل حل نہ ہونے سے گھائل ہیں۔کشمیر کی’ سول سوسائٹی‘ کے ایک اہم شعبے کے طور پر یہ ان کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 611434 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More