ن لیگ کے تین سپوت گر گئے

خواجہ سعد رفیق کے بعدسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سپیکر اور اسمبلی کی ممبر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ لودھراں کے حلقہ این اے 154کے کامیاب ن لیگی امیدوار صدیق بلوچ دھندلی ،جعلی ووٹ کے باعث تاحیات نااہل ہوگئے عدالت نے الیکشن میں انتظامی بے ضابطگیوں پر نوٹس لیتے ہوئے این اے 122اوراین اے 154میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا ہے ان امیدواروں کے پاس سپریم کورٹ جانے کا آپشن بھی موجودتھامگر ن لیگ نے سپریم کورٹ میں جانے کی بجائے عوامی عدالت میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ ن لیگ کے گرتے ہوئے گراف کو سہارا دیا جائے ن لیگ کے کارکنان پہلے ہی ایسا چاہ رہے تھے ن لیگ کے کارکنان الیکشن چاہتے تھے عدالت سے رجوع کرنا مناسب نہیں بلکہ غلطی تصور کررہے تھے ۔ن لیگ لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری ملک محمود الحسن سے ایاز صادق کے فیصلے کے بعداسی دن راقم کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ صدیقی صاحب اب نواز شریف کو چاہیے کہ عدالت میں جانے کی بجائے عوام میں آئیں الیکشن لڑیں ،میں نے کہا کہ جناب ملک صاحب اگر ن لیگ الیکشن ہار گئی تو ن لیگ کا سیاسی قد زمین بوس ہو جائے گا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ صدیقی صاحب یہ نہیں ہو سکتا کہ ن لیگ ہار جائے انشاء اﷲ ہمارا یقین ہے کہ ن لیگ ہی میدان جیتے گی میدان لگے تو سہی ۔۔۔۔ عوامی عدالت میں جانے کا فیصلہ مبصرین کے نزدیک ن لیگ کی ساکھ کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کرے گا ہر کوئی جانتا ہے کہ ن لیگ ان تین عدالتی فیصلوں کے بعد سلامتی ،اعتماد بحالی کی راہ تلاش کر رہی ہے اگر ن لیگ ان تینوں نشستوں سے ہار جاتی ہے تو اس کی ساکھ مزید خراب ہو گی اور بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو نمایاں کامیابی ملنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے ،جبکہ ن لیگ نے الیکشن کی شاہراہ پر دوڑنے کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا کہ ضمنی انتخابات منعقد کروائے جائیں اور تحریک انصاف کو شکست فاش دے کر اس کی حیثیت اسے باور کروائی جائے اب دونوں طرف سے سخت مقابلے کا یقینی طور پر ہوگا دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو زیر کر نے کیلئے پلاننگ میں مصروف ہو گئی ہیں اب دیکھتے ہیں کون کس کو شکست دیتا ہے ویسے یہ حقیقت ہے کہ لاہور خصوصاََ پنجاب عمومی طور پر ن لیگ کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے ن لیگ کسی قیمت پر نہیں چاہے گی کہ تحریک انصاف کے امیدوار لاہور کے دو جبکہ لودھراں کے ایک حلقے سے کامیاب ہوں کیونکہ ایسا ہونے سے تحریک انصاف کا قد بڑھے گا جو بلدیاتی الیکشن میں نقصان دہ ہوگااگر ن لیگ الیکشن کی طرف رجوع نہ کرتی تو تب بھی بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ کو نقصان ہوتا ۔تین فیصلوں نے بعد ن لیگ کی حکومت مشکوک ہونے کا خدشہ تھا جسے صاف کرنے کیلئے ن لیگ نے مشکل اور اصولی فیصلہ کیا ۔حکومتی اتحادی سربراہ جے یو آئی (ف)مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اتنا اچھلنے کودنے کی ضرورت نہیں اگر ن لیگ ضمنی انتخابات میں بھی کامیاب ہو گئی تو تحریک انصاف کیا کرے گی ۔عمران خان نے فیصلے کے بعداپنے خطاب میں کہا کہ میں ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں مجھے انصاف لینے کیلئے اڑھائی سال لگے ساتھ پچیس لاکھ روپے خرچ کرنے پڑے تو ایک عام آدمی کو انصاف کیسے ملتا ہوگا ؟ یہ ہے وہ جملہ جس نے ہمیں مزید پریشان کر دیا کہ قومی لیڈران کے نزدیک بھی ایک عام آدمی کو انصاف ملنا انتہائی مشکل ہوگیاجس کا اظہار سرعام ہورہا ہے ۔جبکہ اسلام کے عادلانا نظام خلافت میں انصاف عوام وخواص کو ان کی دہلیز پر فوری ملتا تھا یہ بات سچ ہے کہ انصاف کا حصول پاکستان میں ایک خواب بنتا جارہا ہے غریب آدمی قانونی چکر میں نہیں پڑتا کیونکہ وہ اسے اپنے لئے وبال جان سمجھتا ہے وہ یہ خیال کرتا ہے کہ انصاف حاصل کرنے کیلئے اتنا پیسہ کہاں سے لاؤں اگر پیسے کا بندوبست بھی ہو جائے تو بااثر لوگوں کے اثر سے کیسے بچوں گا ایک لمبا عرصہ بھی ضائع ہوگا۔لوگ مایوس ہوکر قانون کے دروازے پر دستک نہیں دیتے ۔اگر کوئی غور کرے تو پتا چلے گا کہ عمران خان کے الفاظ کیا کیا مطلب ہے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اگر اتنا امیر با اثر آدمی انصاف کیلئے اس قدر ٹھوکریں کھا کر انصاف حاصل کرتا ہے تو ایک عام آدمی کیسے انصاف حاصل کرے گا جس کے پاس پیسہ،سفارش،تعلق نام کی چیز ہی کوئی نہیں۔تحریک انصاف کے بعد انصاف کا ایک امیدوار این اے 89 کا امیدوار مولانا احمد لدھیانوی بھی سامنے آگیا ہے جنھوں نے عدالت سے رجوع کیا تو فیصلہ ان کے حق میں آگیا وہاں بھی ضمنی الیکشن ہو گا یا نہیں اس کا فیصلہ بھی ہو جانا چاہیے۔موجودہ کرپٹ نظام کی اصلیت قوم کے سامنے آنا ایک اچھا عمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ظالمانہ ،کرپٹ ،عوام دشمن نظام سے خلاصی حاصل ہی کیوں نہیں کر لی جاتی؟جو کرپٹ لیڈرز کا تحفظ کر رہا ہے ۔اس سلسلے میں دینی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام دوست نظام کا قیام ممکن ہو سکے۔ برکیف موجودہ نظام نے حصول انصاف کو بااثر،دولت مندوں کے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے الیکشن میں فراڈ ،جعلی ووٹ کاسٹنگ،جعلی ڈگری ہونا ثابت ہو چکا جو اس بات کوظاہر کر رہا ہے کہ الیکشن میں جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کا دھندہ ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ہوتا رہاہے جسے روکنا ناممکن ہے وقتی طورپر شور شرابا ہوگا پھر پراسرار خاموشی۔۔۔۔۔ ضمنی الیکشن میں بھی یہی ہوگا جو سابق الیکشن میں ہوا نہی لوگوں کو ٹکٹیں دی جائیں گی جن پر قدغن لگے نااہل قرار دئیے گئے ،جعلی ووٹ کاسٹنگ کے مرتکب ہوئے ،جعلی ڈگریاں لے کر قوم کو دھوکا دیتے رہے دنیا بھر میں پاکستان کیلئے بدنامی کا باعث بنتے رہے ۔قوم کے مفلوک الحال عوام سوال کر رہے ہیں کہ قوم کو دھوکا دینے والے کیا اب بھی صادق وامین رہے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب میاں نواز شریف کو دینا ہوگا جن کی جماعت وفاق میں حکمرانی کر رہی ہے اور صوبے بھی ان کے کنٹر ول میں ہیں ۔اگر یہ صادق وامین نہیں رہے تو دوبارہ ان کو قوم پر مسلط کیوں کیا جارہا ہے؟کیا ن لیگ کے پاس کوئی صادق وامین نہیں ہے جو ان حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے سکے ؟ شائد نہیں۔۔۔کیاپاکستان میں صادق وامین لوگوں پر اسمبلیوں میں جانے پر پابندی عائد ہے؟کیا کرپٹ نظام اور کرپٹ لیڈرز کا راستہ روکنا ہر پاکستانی کا فرض نہیں؟ ہاں بالکل فرض ہے ہمارے نزدیک کرپٹ نظام اور کرپٹ لیڈرزسے چھٹکارا ممکن ہے اس کیلئے اسلامی طرز انتخاب کاطریقہ اختیار کرنا ہوگا (جس کی مختصراً تفصیل راقم نے اپنے گذشتہ کالم شفاف الیکشن مگر کیسے ؟ میں بیان کی تھی)اگراس پر عمل کیا جائے تونیک صالح،انسان دوست قیادت قوم کو میسر آسکتی ہے جس کے دل میں انسانیت کا حقیقی معنوں میں درد ہوگا۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.