اصلی مخدوم

میں نے عرض کیا''اللہ کوکیسے راضی رکھاجاسکتاہے''۔ مسکرا کر نرم آوازمیں بولے ''دنیا میں اللہ کوراضی رکھنا سب سے آسان کام ہے۔'یہ کام اتناآسان ہے جتنا ریموٹ کنٹرول سے اے سی آن کرنا یا ٹیلی ویژن کاچینل بدلنا یاپھر اٹھ کر لائٹ جلانا لیکن اللہ کوراضی رکھنے کی تکنیک سمجھنابہت مشکل ہے۔ ''میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا اور چند لمحے رک کرعرض کیا''جناب آپ نے بھی عجیب بات کہی، کام توآسان ہے لیکن اس کی تکنیک بہت مشکل ہے،مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی''۔وہ مسکرائے اور چندلمحوں کے توقف کے بعد بولے''میرے بچے یہ بات سمجھنے کے لئے تمہیں تخلیق کار کی نفسیات سمجھناہوگی۔''میں نے عرض کیا''جناب تخلیق کارکی نفسیات کیا ہوتی ہے، وہ بولے تم نے ایڈی سن کانام سن رکھا ہے ؟ میں نے فورا عرض کیا''جی ہاں!یہ وہ شخص تھاجس نے بلب ایجاد کیاتھا،جس نے ریلوے کے لئے سگنل کاسسٹم بنایاتھا ،وہ فوراً بولے ''بالکل ٹھیک میرے بچے،میں اسی ایڈی سن کی ایک بات تمہیں سنانا چاہتاہوں۔وہ ایک دن بازار سے گزررہاتھا ، اس نے دیکھا لالٹین بنانے والا ایک کاریگر اس کی تخلیق کو گالیاں دے رہاہے،لالٹین بنانے والے کاکہناتھا ایڈی سن کی ایک احمقانہ تخلیق نے اسے اوراس کے بہن بھائیوں کو بے روزگار کردیاہے۔ایڈی سن اپنی تخلیق کی بے توقیری برداشت نہ کر سکا اوروہ اس کاریگر سے الجھ پڑا،یہ توتکار ہاتھاپائی تک پہنچ گئی۔پولیس آئی اور ایڈی سن کوپکڑ کر لے گئی،اس کے بعدجس بھی شخص نے یہ واقعہ سنا اسے یقین نہ آیا کیونکہ کسی نے کبھی ایڈی سن کو لڑتے یاجھگڑتے نہیں دیکھاتھا لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ حقیقت تھا۔

وہ دم لینے کے لئے رکے اورچند لمحے بعددوبارہ بولے''یہ بظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس میں تخلیق کارکی ساری نفسیات چھپی ہیں۔ دنیاکاہرتخلیق کاراپنی تخلیق کے بارے میں حساس ہوتاہے،وہ اپنی بے توقیری توسہہ لیتاہے لیکن اس سے اپنی تخلیق کی بے عزتی برداشت نہیں ہوتی۔ تم نے مصوروں، افسانہ نویسوں،شاعروں اورموسیقاروں کودیکھاہو گا، یہ لوگ گھنٹوں اپنی دھنوں،شعروں،افسانوں اور تصویروں کی تعریف کرتے رہتے ہیں اورانہیں ہروہ شخص اچھالگتاہے جوان کی تخلیقات کی مداح سرائی کرتاہے۔تم کسی شاعر کے سامنے بیٹھ کر اس کے شعروں کی تعریف شروع کردو ،وہ تمہیں وہاں سے اٹھنے نہیں دے گا،یہ بھی تخلیق کارکی نفسیات ہوتی ہے۔ میں خاموشی سے سنتارہا۔وہ بولے''دنیاکے ہر تخلیق کار میں دوچیزیں ہوتی ہیں،وہ اپنی تخلیق کی تعریف سن کر خوش ہوتاہے اور اسے اپنی تخلیق کی بے عزتی پرشدیدغصہ آتاہے‘‘۔

میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا''جناب میرا سوال یہ تھاکہ اللہ کوکیسے راضی رکھاجا سکتا ہے لیکن آپ نے موضوع ہی بدل ڈالا۔ ''وہ مسکرائے اورمیری طرف اس طرح دیکھاجیسے فلسفی جاہلوں اوربے وقوفوں کی طرف دیکھتے ہیں پھربولے ''تم مجھے پہلے یہ بتاؤ جب اللہ کسی شخص پرراضی ہوتاہے تووہ اسے کیا دیتاہے؟میں نے عرض کیا ''جناب میرا علم بہت محدود ہے،میں آپ ہی سے وضاحت کی درخواست کرتا ہوں۔''وہ مسکراکر بولے''اللہ کی ذات جب کسی شخص پرراضی ہوتی ہے تووہ اس پررزق کشادہ کر دیتی ہے، وہ اسے امن ،خوشی ،سکون دیتی ہے اور وہ اس کے اقتدارکو وسیع کردیتی ہے اورجب وہ ناراض ہوتاہے تویہ ساری چیزیں ریورس ہوجاتی ہیں، اقتدار مختصر ہوجاتاہے، زندگی سے سکون خارج اورخوشی ختم ہوجاتی ہے،امن غارت اور رزق دور ہوجاتاہے اور وہ گھر،کمپنی، فیکٹری،دکان یاپھر ملک ،تمام برباد ہوجاتے ہیں۔''میں خاموشی سے سنتارہا، وہ بولے''اللہ خالق کائنات ہے وہ اس کائنات کاسب سے بڑاتخلیق کارہے اور انسان اس کی محبوب ترین تخلیق ،چنانچہ جب تک کوئی شخص اس کی محبوب ترین تخلیق سے محبت نہیں کرتا اللہ اس وقت تک اس سے راضی نہیں ہوتا اورجس سے اللہ راضی نہ ہواس دنیامیں اس شخص کارزق،خوشی،سکون،امن اوراقتداروسیع نہیں ہوتا۔ ''وہ رکے اوردوبارہ بولے'' اللہ نے انسان،جانور،پودے،جھیلیں اور پہاڑاور کائنات کی ہرشے تخلیق کی لیکن انسان اللہ کی تخلیقی فہرست میں پہلے نمبرپرآتا ہے اور دنیاکاجوملک ،معاشرہ،نظام اورشخص اللہ کی وضع کردہ ترجیحات کے مطابق اس کی تخلیقات سے محبت اور عزت کرتاہے،انہیں ان کا جائزمقام دیتا ہے اللہ بھی اس سے اتناہی راضی ہوجاتاہے اوردنیا میں اسے اتناہی امن،سکون،خوشی،رزق اوراقتدار مل جاتاہے۔میں خاموشی سے سنتارہا۔وہ چندلمحے رک کر بولے''تم اب اس حقیقت کوسامنے رکھ کر دنیاکے مختلف ممالک کاجائزہ لوتوتمہیں معلوم ہوگا دنیاکے جتنے ملکوں میں لوگوں کااحترام،ان کے حقوق کاخیال،شہریوں کی عزت نفس محفوظ، بیماروں کودوا،بے روزگاروں کوروزگار،جاہلوں کوعلم اور مظلوموں کو انصاف ملتا ہے ،وہ ملک خوشحال بھی ہیں، ان میں امن ،رزق ،خوشی اور اس ملک کے اقتدار کی سرحدیں بھی وسیع ہیں لیکن جن ممالک میں انسانوں کی قدرنہیں،جن میں غریب غریب تراورامیرامیرتر ہوتاجا رہاہے اورجوملک طبقاتی نظاموں میں جکڑے ہوئے ہیں ،وہ ملک تیسری دنیا کہلارہے ہیں،وہ ملک بھکاری بن کر خوشحال ملکوں کے دروازوں پربیٹھے ہیں اور ان ملکوں کے حکمران اپنے اقتدارکے دوام کیلئے ان کی خوشامدمیں مصروف رہتے ہیں۔۔تم اللہ کی تخلیق سے محبت کے اس سلسلے کوذرا سامزید وسیع کرکے دیکھو اور سوچو دنیا میں اس وقت کون کون سے ملک ترقی کررہے ہیں،وہ کون سے ملک ہیں جوسپرپاور بنتے جارہے ہیں؟؟تم یہ دیکھ کرحیران رہ جاؤ گے ، دنیامیں وہ ملک بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں وہاں انسانوں کے بعدجانوروں،درختوں، ندیوں،نالوں،جھیلوں،دریاؤں اورپہاڑوں تک کاخیال رکھاجاتاہے ، وہاں بے بس انسان پرظلم اوردرخت کاٹنا دونوں جرم ہیں چنانچہ اللہ ان ممالک سے پوری طرح راضی ہے اوریوں یہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں''وہ رکے اور دوبارہ بولے''انسان کی سلطنت اوراللہ کی کائنات کاآئین بہت مختلف ہے،دنیامیں انسان ان لوگوں کوزیادہ اہمیت دیتاہے جوصحت،رزق اوراختیارمیں برتر ہوتے ہیں اوران لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے جومرتبے میں چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اللہ کانظام اس سے بالکل الٹ ہے،وہ محروم لوگوں کے قریب اور خوشحال لوگوں سے دور ہوتاہے،وہ بے زبانوں کی زبان اوربے کسوں کی بے بسی میں رہتاہے چنانچہ جولوگ اس کے محروم لوگوں کاخیال رکھتے ہیں،جو محروم لوگوں کوراضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ان سے راضی ہوتا جاتاہے۔ وہ خاموش ہوگئے۔

میں نے عرض کیا''جناب یہ فلسفہ توشایدملکوں اورمعاشروں کے لئے ہے،یہ نسخہ شاید حکمرانوں کے لئےوضع کیاگیاہے،اگرعام شخص اللہ کوراضی کرنا چاہے تواسے کیا کرنا چاہئے؟ ''وہ مسکرائے اور زور دے کر بولے''اللہ کے قوانین اٹل ہوتے ہیں،وہ عام شخص سے لے کر حکمران تک سب سے ایک جیسی توقعات رکھتاہے۔تم اگراللہ کوراضی کرنا چاہتے ہوتو اس کے غریب، بے بس،بے کس اورمحروم لوگوں کے قریب ہوجاؤ،اللہ تمہارے قریب ہو جائے گا ،تم محروم لوگوں کواپنی خوشی ،سکون، امن ،رزق اور اقتدار میں شریک کرلواللہ تمہیں رزق،امن،سکون اور خوشی میں شریک کرلے گا اورتم اللہ کی خوشی اوراقتدار کی وسعت کااندازہ بخوبی لگا سکتے ہو۔حکمرانوں کے لئے بھی یہی فارمولاہے،جس ملک کاحکمران اللہ کے بے بس لوگوں کے لئے کام کرتاہے،اللہ اس حکمران کے لئے کام شروع کردیتاہے اور جس ملک کی حکومت بیمار کودوا،رزق،روزگار،تعلیم ،امن اورخوشی دیتی ہے اللہ اس حکومت کے اقتدار کو وسعت دے دیتاہے اور یہ ایک بہت چھوٹا اورآسان فارمولا ہے ۔تم آج گھرسے باہرنکلو اورکسی بھوکے کوکھلاناکھلا دو،تم یہ دیکھ کرحیران رہ جاؤگے،شام تک تمہارے گھر رزق وسیع ہوچکاہوگااورتم اورتمہارے اہل خانہ بے شماردردوں سے رہائی پاچکے ہوں گے۔ تم یہ کرکے دیکھ لو۔ تم ایک باراللہ کوراضی کرکے دیکھ لو،تمہیں اوباماکوراضی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔تم اصلی مخدوم بن جاؤگے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.