موت بھی اک زندگی کا راز ہے

آنی،جا نی ہے یہ،بس ذ ر ا سا دم لیا ا و ر چل پڑ ے،سرائے ہے، ذ راسی دیرٹھہرنے کی،جگہ د ل لگا نے کی دنیانہیں ہے،یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے۔بچپن سے سنتااوردیکھتاآرہاہوں لیکن انسان ہوں ناں اس لئے فراموشی کی عادت بھی بشری تقاضہ ہے میری سمجھ میں یہ نہیں آیااورمیں اسے تما شہ سمجھ بیٹھا۔اس سے د ل لگابیٹھا۔ پھرجوہواسوہوناہی تھا۔بے قدروں کے سا تھ دوستی کانچ کی چوڑی کی طرح ٹوٹ جاتی ہے۔ٹو ٹ جاتی ہے،ٹو ٹ گئی۔''مالک ا پنے بندوں سے زیادہ محبت کرتا ہے یامیں'' کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھاتومیں نے ٹیلیفو ن کی طر ف ہاتھ بڑھایالیکن فوراًیہ سوچ کررک گیا کہ اب تووہ سدھار چکے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے وہی مسکراتااور شاداب چہرہ۔نعمت خداوندی تھے وہ،ایک ایک لمحہ قطاردرقطارآنکھو ں کے سا منے......کس کس سے نظر یں ہٹا ؤ ں،سب سمٹ کرد ل میں ا س طر ح ا تر گئے ہیں کہ سا نس لینامشکل ہوگیاہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہاکہ اچانک خیا ل سوجھا کہ ان کی مغفرت کیلئے ان سے کہو ں۔آ وازکی لرزش سے پہچا ن گئے ۔ ان کی ضدپردل کی پریشانی کاسبب چھپانہ سکاتوفرما نے لگے''ا تنی چھوٹی سی با ت آ پ کی سمجھ میں نہیں آتی....جوپیداکرے،جورزق دے،جوانی دے، جوہر تصویر کا مصور ہے، جو خالق ہے ساری مخلوق کا، وہی محبت کرے گا.... آ پ ویسی محبت کیسے کرسکتے ہیں!
ہا ں جوچیزآپ بناسکیں اس سے آپ بے شک.....جی سمجھ میں آگیا۔ میں نے جواب دیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ یا....سب دعوے دارہیں مالک ہونے کے،رب ہے ما لک اورکوئی بھی نہیں....بندہ بشرمالک کیسے ہوسکتاہے...ہوہی نہیں سکتا... نہیں ہوسکتا...چنددن کیلئے آپ کودیابس شکرکریں...ایساشکرکہ وہ آپ کوصابر کہے....لے اس کابدل،بہت دیرروتے اوررلاتے رہے، ہچکی بندھ گئی ان کی... مجھے ان کی آوازآرہی تھی مگرمیں توکہیں اورگم ہوگیاتھا..میں ما لک تھا ہی نہیں،بن بیٹھاتھا۔مالک تووہ ہے بس وہی اورکوئی نہیں...بس تسلیم کرو،اس کے فیصلے کو،اس کے سواچارہ ہی نہیں...ہے ہی نہیں.....راضی بہ رضارہو... یہی ہے بند گی… معراج بند گی۔ا یک طویل نصیحت کے بعدکچھ سکو ت ہوا تومیں پھرپوچھ بیٹھا۔
بہت تکلیف ہوتی ہے...بیا ن کی جاسکتی ہے نہ لکھی....بہت مشکل ہے،بہت کرب اوردکھ ہے...د ل پھٹتاہے،آ نکھیں برستی ہیں.....کسی پل چین نہیں پڑتا .....ہرجگہ،ہروقت مجسّم ہوجاتاہے جانے والے کا،بھلائے نہیں بھولتا.....زخم نہیں بھرتاتواس میں ہماراکیادوش،پھرکیاکریں؟اس سے نہ کہیں توپھرکس سے کہیں؟
ہا ں یہ سچ ہے...ا یک لمبی اورگہری سانس کے بعدگویاہوئے....کہیں صرف اسی سے کہیں ضرورکہیں اورہے ہی کون جوسنے،شکوہ کریں لیکن شکایت نہ کریں۔ میں چکراگیاتومیں نے پوچھا،کیامطلب شکوہ کریں لیکن شکایت نہ کریں،کیا یہ ایک ہی بات نہیں ہے؟
بہت ہی نادان اوربے وقوف ہیں جوایساسوچتے ہیں،د یکھیں شکوہ تعلق سے پیداہوتاہے اورشکایت لاتعلّقی،جس سے تعلق ہوگاتوشکوہ ہوگا اورلاتعلّقی ہوگی توشکایت۔پہلے اس سے تعلّق پیداکرو.....پھرشکوہ کرلینا....کہ میر ے ما لک! تونے اس قابل جانا،تیراشکرہے...ہا ں مجھے تکلیف توہے،د کھ بھی ہے،تو نے دیاتھا لے لیا۔بس توراضی ہے تومیں بھی راضی..میں اپنادکھ صرف اور صرف تجھ سے بیان کرتاہو ں.. میرے اشک صرف تیرے لیے ہیں ...توہی تو میراپروردگاراورمالک ہے...تو ہمیں راضی رکھ اپنی رضامیں راضی...اور میرادکھ راحت میں بدلنے والا بھی توہے،کوئی اورنہیں...توہے بس تو۔
ا ن کے یہ فرمودات مجھے اسکول کے زمانہ طا لب علمی میں لے گئے جب اسکول کے ایک گروپ کے ساتھ کیلاش جانے کااتفاق ہواتھا۔میں نے کیلاش کے باسیوں کوبہت قریب سے دیکھاہے۔آپ کہیں جنازہ دیکھ لیں توپریشان ہو جائیں گے۔لو گ جنازے کے ساتھ چل رہے ہیں مگر ڈھول اورشہنا ئی بجاتے ہو ئے.......میں نے جب یہ عجیب منظردیکھاتودل بڑاپریشان ہواکہ''یاالٰہی یہ کیاماجراہے یہ توبے حسی ہے کہ جنازے کے ساتھ اجلے اورنفیس علا قا ئی لباسوں اورزیورات میں ملبوس مسکراتے افراداورڈھول بتاشےاورشہنا ئی'' ۔ تب ایک کیلاشرخاتون مسکراتے ہوئےبولی''نہیں نہیں یہ بے حسی نہیں ہے یہ توبہت اچھی با ت ہے،اعلٰی ظرفی اورکشادہ دلی ہے....یہ ہمارے رب نے اپنا ایک بندہ ہمارے لئےزمین پراتاردیاہم نے خوشیاں منائیں،اسے دیکھ کرنہا ل ہوئے،سکون پایااس کی موجودگی ہمارے لئے چین تھا،خوشی اورطمانیت و سرشاری تھی،پھروہ کسی کابیٹاتھا، بھائی تھا،پوتاتھا،پھروہ کسی کاشوہراور کسی کاباپ بنا،خوشیاں لیتااوردیتارہا،وہ ہم میں سے تھااورہم اس میں سے، لیکن اصل بات توہم بھول جاتے ہیں،اسے یادہی نہیں رکھتے کہ وہ ہماراکب تھا ؟ رب کاتھا،رب نے بھیجاتھا...امانت تھا وہ،تورب نے وہ امانت واپس لے لی، رب نے ا پنے پا س بلا لیا،توخو شی خو شی ا س کی ا ما نت واپس کر دو،آنسو بہتے ہیں، سسکیا ں اور آہیں یہ سب کچھ ہو تا ہے...ہم ر نجید ہ اور دکھی بھی ہیں لیکن ا ے میر ے رب ہم تیر ی ر ضا میں میں را ضی ہیں بس تو ا س سے اور ہم سے راضی رہنا.......ا سے بہت خو ش ر کھنا.....تو یہ با ت ہے!
میر ی مر حو مہ والدہ محتر مہ فر ما یا کر تی تھیں،خو د واپس لے لیتا ہے اورکو ئی بہا نہ بنالیتا ہے.....(مقبو ضہ) کشمیر کے ا یک د یہا ت سے تھیں بہت سا د ہ اور بڑی سا دگی سے گفتگو کر تی تھیں، ہما ر ی طرح بنا سنو ار کر نہیں.......بس سید ھے سا د ے سے جملے...میں نے پو چھا اس کا کیا مطلب ہوا؟توفر ما نے لگی...ا نسا ن تکلیف سے،دکھ سے،چو ٹ سے نہیں مر تا .......بس و قت پو را ہو ا اور پھر روانگی... ہم سبھی کو جا نا ہے۔
میں نے یہ تو کبھی سو چا بھی نہ تھا کہ اس قدر جلد عملاً تجر بہ بھی ہو جا ئے گا۔ہمیشہ ایک بڑی ذومعنی دعا مانگتے تھے کہ''یا اللہ ہمیں آسان موت نصیب فرما....جا تی د فعہ آسان موت کا مطلب بھی سمجھا گئے۔٧٩سال کی عمرمیں بھی چاک وچوبند۔رحلت سے صرف ایک دن پہلے ٤٥منٹ طویل ٹیلیفون پرگفتگو،حسبِ معمول پاکستان کے موجودہ حالات، کشمیراورافغانستان کی بدلتی صورتحال اوربڑے پراعتماد انداز میں کہاکہ بھارتی استعمارکے جہازکے ڈوبنے کاوقت آن پہنچااوریہ کام مودی حکومت کی پالیسیوں سے ہی اپنے انجام کوپہنچے گا،بس صحیح سمت دھکالگانے کی ضرورت ہے۔کسے پتہ تھاکہ یہ ان سے آخری گفتگوہورہی ہے اوراگلے دن ہی یہ سفرِ آخرت،ا یسی لمبی جد ائی،یہ تو سو چا بھی نہ تھا...لیکن ہاں یہ ہے آسان موت....اللہ ہی اللہ،میرارب بڑا بے نیاز ہےحا لا نکہ کچھ ا یسے سوختہ بخت اور سیا ہ کار بھی ہیں جنہیں دم نزع کلمہ پڑھنے کی تو فیق بھی نصیب نہیں ہو تی اور لفظ ان کے حلق کی ٹیڑ ھی میڑھی نا لیو ں میں تحلیل ہو کر رہ جا تے ہیں۔ مجھ گناہ گار کا دامن بھی داغ داغ ہے بلا شبہ مجھے اس کا بھر پو راحساس بھی رہتا ہے لیکن میرے دل میں کبھی اس ایما ن ویقین کی روشنی ما ند نہیں پڑی کہ میر ے کر یم رب کی بے پا یا ں عنا یا ت اور رحمت ا لعا لمینﷺکی شفقتیں ہمیشہ میر ے شا مل حال ر ہی ہیں۔میں ا یسے مشکبو تجر بو ں سے ا کثر و بیشتر گز رتا ر ہتا ہوں جس کا کسی دوسرے دوست سے ذکر نہیں کر تا لیکن وہ تجر بے،میر ے قلب و روح میں سر شاری کی خوابناک کیفیت کی طرح رچے بسے رہتے ہیں۔
کا لم لکھتے ہوئے میں جوپا کستا نی تاریخ کے سب سے خونی ڈ کٹیٹرکی رعو نت پرخا ک ڈالتے ہوئے کبھی رتی بھرخو ف کاشکارنہیں ہوا، اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ میر ے والد ین( اللہ ان کی قبروں کونورسے بھردے)اورلاکھوں ا ہل وطن کی دعا ئیں میرے ارد گردحصار باند ھے رکھتی ہیں اوردہکتی دھوپ میں بھی ایک سایہ دارچا درمیرے سرپر تنی رہتی ہے لیکن اب کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس سا یہ دارچا درکاایک کونہ جومرحوم حمید گل صا حب نے تھام رکھا تھاوہ نہیں رہا
افغان جہادشروع ہونے سے قبل ہی اپنے ایک پیپرتحریرکیاکہ اس خطے میں دوبڑی استعماری قوتوں(روس اور بھارت) کے ٹکرے ہوجائیں گے ،اب پتہ نہیں پہلے کس کی باری ہے اوریہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جب عملی طورپرجہادافغانستان میں شمولیت کافیصلہ کیاتو تائیدمیں سبقت لے گئے اورپھرپوری ایمانداری کے ساتھ اس عظیم مشن کی تکمیل میں اپنے شب وروزکھپادیئے۔باخبرذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگریہ ٹیکسلا اسلحہ آرڈیننس پراختلاف نہ کرتے تواگلے مرحلے میں فوج کی سربراہی کرتے لیکن اپنے اصولوں کی بناء پرالگ ہوگئے لیکن فوری طورپرکعبتہ اللہ میں حاضرہوکررب سے یہ وعدہ کیاکہ میں نے ابھی صرف وردی اتاری ہے ،بوٹ نہیں اورپھر ساری عمراس وعدے پرقائم رہے۔
میرا کبھی کبھی دل چا ہتا ہے کہ ہم سب ان کے چا ہنے والے مل کربیٹھیں ایک دوسرے کوپرسہ دیں ایسی محفل سجا ئیں،سب حمیدگل صاحب کی با تیں کر یں...ہا ں چھو ٹی چھو ٹی سی باتیں...جہا ں ہم سب مسکر ا کر ان کی یا دوں کو تا زہ کریں،سچ کہتا ہوں ان بر ستی آنکھو ں سے، ا پنے پھٹے دل سے اور سسکیوں سے مسکر ا ئیں۔ا پنے رب کی حمد بیا ن کریں...ٹھیک ہے تیرا ہی بندہ تھا ،تو خوش ہم خوش، تیرا احسان ہے ہم پرکہ تونے ہمیں اس قا بل جانا....ہم کب تھے اس قا بل،نہیں ہم تو بہت عا جز ہیں...بہت نا کارہ ہیں ہم، تو ہی ہمیں اس گھڑی میں سہا را دے....تو ہی تو ہے ہما را سہا را........اور ہے کون..پھر ہم ا پنے سا رے آنسو مسکر ا تے ہوئے ا پنے رب کے سا منے ر کھ د یں گے ا ور پکا ریں گے کہ ہم راضی ہیں، ہما رے ما لک، راضی بر حق۔اللہ اکبر!
خدا کی قسم ! بہت یاد آیا کروں گا
کہو گے کہ وہ جان محفل کہاں ہے
میں خا ک کسی کوپر سہ دوں میں تو خود بہت ہی عا جز اور بے بس ہوں مگر میرے دل کا حال میرا رب جا نتا ہے اب یہ بات کچھ کچھ سمجھ میں بھی آ رہی ہے کہ محبت میں صرف شکوہ ضروری ہے..از بس ضروری۔آپ خوش رہیں، میرا ر ب آپ کا نگہبان رہے، میرا ر ب یقینا آپ سے راضی ہے! اسی لیے میرے رب نے آپ کوبلا لیا کہ اب چھو ڑیں اس دنیا کو...دکھوں سے بھری دنیا کو...آہوں سے بھرے اس جہاں کو...یہاں آ ئیں سکون و قرار کی جگہ.... آپ ا پنے رب کو دیکھیں اور میر ا کر یم رب آپ کو...یہ کیا مجھے اس وقت یاد آ گیا شاید آپ ہی کیلئےکہا تھا!
وہ پہلے قرب کی خو شیاں عطا کرے گا
مجھے پھر اس کے بعد سپرد ملال کر دے گا
جنرل صاحب! ہم آپ کیلئے اپنے آنسوؤں کا تحفہ لا ئے ہیں ...آپ ہما رے اورا پنے رب سے کہیں کہ ہمیں آسو دہ کردے،ہما ر ے زخم کا مرہم ا پنی ر حمت سے عطا فر مائے....... ہمیں ا پنی ر ضا میں راضی ر کھے۔ مجھے ا جا زت د یں
جا نتے ہیں ا ہل دل اس راز کو
موت بھی اک ز ند گی کا راز ہے
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.