رجال ساز

استاذ جی عربی سیکھنا چاہتا ہوں اسکے لیے کسی جگہ کی راہنمائی فرمائیں، میں نے الوداعی ملاقات کے موقع پر استاد محترم سے سوال کیا تو فرمانے لگے کہ برنس روڈ پہ ایک مولوی صاحب کے ہاں کورس ہوتا ھے وہاں داخلہ لے لو، اور ہو سکتا ھے کہ یہیں کچھ شروع کر لیا جائے.

یہ اس وقت کی بات ھے جب دورہ حدیث سے فراغت کے بعد میں اساتذہ کرام سے الوداعی ملاقاتیں کر رہا تھا اور ان سے مستقبل کے حوالہ سے مشورہ کر رہا تھا.

ویسے تو سبھی اساتذہ آنکھوں کے تارے ہیں، لیکن استاذ جی کیساتھ ایک خاص لگاؤ، بے تکلفی اور دوستانہ مزاج تھا.

استاذ جی کے منتخب کردہ کورس میں شمولیت کے لیے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ اب وہاں عربی کا کورس نہیں ہوتا، اور چونکہ کسی بھی جگہ کوئی کورس نہیں ہو رہا تھا اس لیے با دل نخواستہ شوقِ عربیت کو پس پشت رکھنا پڑا، اور کسی دوسری مصروفیت کی تلاش میں چل پڑا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا.

میں تھکا ہارا گھر پہنچا، پنکھے کی گرم ہوائیں میرے پسینہ کو سوکھنے نہ دے رہی تھیں اور میں مستقبل کی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک موبائل کی تیز چنگھاڑتی آواز نے مجھے جھنجلا دیا، دیکھا تو رفیقم عبدالجبار کا فون تھا، علیک سلیک کے بعد پہلا سوال ہی اس نے یہ داغا کہ سنا ھیکہ جامعہ فاروقیہ میں استاذ جی کے اشراف میں تخصص فی الأدب شروع ہو گیا ھے؟ میں اس کے سوال پہ چونکا، لیکن خبر سے بے خبر تھا اس لیے کوئی جواب نہ دے سکا.

اگلے دن علی الصبح اس خبر کی تصدیق کے لیے أستاذ محترم کے پاس پہنچا تو انہوں نے تصدیق فرمائی، میرے لیے یہ بہت ہی خوشی کا لمحہ تھا کہ امید بر آئی تھی اور عربی سیکھنے کے لیے ایک اچھا موقع فراہم ہو گیا تھا، اور جامعہ فاروقیہ میں تخصص فی الأدب العربي دو سالہ کے آغاز کا اعلان لگ چکا تھا.

إن دو سالہ تخصص کے واقعات قلم بند کرنا مجھ جیسے ناکارہ کے بس میں تو نہیں، البتہ چند جھلکیاں پیش کرنا چاہوں گا.

اگرچہ تخصص فی الأدب میں ھم نے أدب عربی کی امہات الكتب پڑھیں، پڑھانے والے سبھی اساتذہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ اپنا فن نفوس طلبہ میں جاگزیں کرتے رہے، تکلم اور خطابت کے شہنشاہ مولانا عبداللطيف طالقانی صاحب اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کے اندر تکلم و خطابت کے جوہر پیدا کرتے رہے، فکر و أدب کے حسین موتیوں سے مزین مولانا عزیر الرحمن العظیمی صاحب سے فن شعر و شاعری و اوزان سیکھنے کا موقع ملا، مولانا ساجد الصدوی صاحب، مولانا حبيب زکریا صاحب جیسے ماہرین فنون سے بھی مستفید ہوئے.

لیکن تخصص میں ان سب امتیازات و خصوصیات کے علاوہ ایک ایسی خصوصیت تھی جو باقی سب خصوصیات کے لیے انجن کا کام کرتی تھی.

در حقیقت طالب علم کے اندر چھپے کسی ادیب، خطیب، مدرس، مفکر کو باہر لانا یہ ایک مشکل کام ہوتا ھے، جس کو بخوبی انداز میں أستاذ محترم نے انجام دیا.

تخصص فی الأدب میں میری پڑھائی کا پہلا دن وہ تھا جب داخلہ کے لیے عربی میں درخواست لکھ کر أستاذ جی کو دی جو کہ تخصص کے مشرف بھی تھے، درخواست پڑھتے ہی انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ تم نے لکھی ھے؟ میں نے کہا جی... مجھی سے لکھی گئ ھے، فرمانے لگے واہ تم نے تو کمال کر دیا، بس تم پاس ہو اور اب تمھارے تقریری امتحان کی ضرورت نہیں، اوپر جاؤ مولانا عبداللطيف صاحب سے کہو کہ درخواست پہ سائن کر دیں.

اب آپ خود ہی سوچیں کہ جس شخص نے ڈرتے ڈرتے درخواست لکھی ہو کہ پتہ نہیں کیا ہو گا، کبھی لکھی تو ھے نہیں، کہیں فیل ہی نہ کر دیا جاؤں،،، ایسے ناکارہ شخص کو جب ایسا اچھا رسپاؤنس ملے تو اسکی خوشی کا کیا عالم ہو گا؟

پھر یہی وہ رسپاؤنس، شاباشی، حوصلہ افزائی ہی اصل تربیت کرتی رہی، جب کبھی کوئی چھوٹا سا مضمون لکھ دیا وہیں عبقری و مجدد، حجازی و طنطاوی کے لقب ملنا شروع ہو گئے، اور حقیقت یہ ہوتی تھی کہ شاید معهد میں ثانیہ و ثالثہ کا طالب علم بھی اس سے اچھی عربی لکھ لے، درحقیقت أستاذ جی کی حوصلہ افزائی ایسی شامل حال رہتی کہ ھم خود کو عربی کے ادیبِ زماں و خطیب بے زمام سمجھ رہے ہوتے تھے.
ھمارے مقالات عربی و اردو کے أستاذ جی خود اصلاح کے بعد الفاروق و دیگر رسائل و أخبار میں شائع کروا دیتے تھے، اور مضمون شائع ہونے پہ بہت زیادہ مبارک باد دیتے، کہ جس سے ھمارے اندر کا مردہ لکھاری یا جاگ جاتا یا وجود پا جاتا، حالانکہ کچھ ہی عرصہ بعد ھم جب اپنے سابقہ مقالات کو پڑھتے تو اپنے اوپر ھنسی آتی اور استاد جی کی حوصلہ افزائی اس وقت صحیح یاد آتی.

کلاس میں آنے والے مہمانوں سے طلباء کا اتنا بلند مقام تعارف کرواتے کہ ھم استاد جی کی مدح سرائی اور اپنی صفرانہ استعداد کے سبب شرم سے پانی پانی ہو جاتے، اور مہمان ایسے معتقد کہ تمنا کرتے کہ یہ فراغت حاصل کرنے کے بعد ھمارے ھاں خدمات انجام دیں.

کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں، تنبیہ کی بھی تو ھنستے مسکراتے، البتہ راقم کو ایک مرتبہ اپنی سستی لا زوال کے سبب استاد محترم کا جلال دیکھنا نصیب ہوا تھا، جسکا دورانیہ آٹھ سے دس سیکنڈ ہو گا، لیکن یقین جانیے کہ ایسا محسوس ہوا کہ پاؤں تلے زمیں اور درون جسم روح نکل گئ ھو.

وہ بات بھی بھولتی نہیں جب ایک ساتھی نے تخصص کے منھج کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ساتھیوں میں قلت استعداد کا شکوہ کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب راسم نے تازہ تازہ فیز ٹو میں تقریر کی تھی، استاد محترم نے راسم کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ: انظر إلى جدك هذا، كيف خطب في الحفلة، ووالله لو ما خطب هذا لفشلت الحفلة كلها.

سبق کی تشریح اپنی عربی تعبیرات و ادبی انداز میں کرتے، اور ایجادات حدیثہ سے متعلق عربی جملے بتاتے، استاد محترم کی گفتگو میں ایسی مٹھاس اور أدب کی چاشنی ہوا کرتی کہ دل یہ کرتا کہ متن بھی استاد ہوں اور شرح بھی.

گھنٹوں ھمارے ساتھ بیٹھے یوں گپ شپ لگاتے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ أستاذ سے باتیں کر رہے ہیں یا کسی لنگوٹیے دوست سے، لیکن یہ سب گپ شپ عربی میں ہوتی تھی، جس کے لیے کوئی خاص وقت نہ تھا، استاد جی دن ہو یا شام، رات ہو یا سحر جب موقع ملتا ھمارے ساتھ مجلس بنا لیتے اور عربی میں گپ شپ کا سلسلہ شروع ہو جاتا، کوئی اپنے سفر کا قصہ سنا رہا ھے، کوئی کسی عربی شاعر کی نقالی کر کے أستاذ کو اسکے اشعار سنا رہا ھے، کوئی خطیب بنا ہوا ھے، کوئی نشید سنا رہا ھے تو کوئی کیا تو کوئی کیا، لیکن اس سب بے تکلفی کے با وجود أستاذ جی کا ایسا رعب رہتا تھا کہ طلباء انکی موجودگی میں کبھی کوئی ناشائستہ حرکت نہ کر پاتے.

یہ ادبی مجالس کبھی بھلائی نہ جا سکیں گے، جو ھماری فکری و تعلیمی تربیت کی اصل کتاب تھیں.

ھمارے تخصص فی الأدب اور معھد کا ہر ساتھی جو أستاذ محترم کا فیض یافتہ رہا، فراغت کے بعد اعلی دینی خدمات کے لیے قبول ہوا، اور ملک پاکستان میں پھیل کر عربی کا ایک ایسا کام شروع کر دیا کہ ہر طرف سے عربیت کی صدا بلند ہوتی دکھائی دی اور یہ سلسلہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ھے، وللہ الحمد.

أستاذ جی کی انہیں خصوصیات کیوجہ سے ھم مکتب ساتھی اس بات پہ متفق تھے کہ اگر صانع الرجال/رجال ساز کسی کا لقب ہونا چاہیے تو وہ استاد جی ہیں.

آپ حضرات یقینا یہ سوچ رہے ہونگے کہ مضمون تو ختم ہو گیا لیکن استاد جی کا نام ذکر نہیں ہوا، تو عرض کروں کہ اول تو یہ اوصاف پڑھنے کے بعد آپ خود ہی جان گئے ہونگے کہ استاد جی سے میری مراد کون ہیں، اور اگر نہیں جانے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ آپ کو کبھی بھی استاد محترم سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا، ورنہ ایک ملاقات ہی ان اوصاف کے موصوف کو جاننے کے لیے کافی ہوتی، تو آئیے پھر ان سے ملیے، یہ ہیں ھمارے دلگیر ہر دلعزیز شیخ الأدب مولانا ولی خان المظفر صاحب دامت بركاتهم العالیہ.

نوٹ: یہ چند لکیریں محض اپنے ماضی کی یادوں میں کھو کر کھینچ دی ہیں، انہیں استاد محترم کی سیرت کا عنوان نہ دیا جائے، کیونکہ استاد محترم کی سیرت اس سے کہیں بلند و بالا ھے.

مبشر البسام
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 812103 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More