چولستان سے سلک روٹ تک

معظم ہی نے مجھے اکسایااس تلاش پرکہ دنیا کتنی بڑی ہے اور ہماری حیثیت خدا کی بنائی اس دنیا میں کس قدر چھوٹی ہے - اس نے مجھے اسلام آباد کے ایک ایڈونچر کلب کے بارے میں بتایا - آئیڈیا کافی اچھا تھانہ گاڑی کا جھنجٹ نہ ہوٹلوں کی چھان پھٹک کی سردردی نہ سکیورٹی کا رسک- الیاس صاحب نے اپنی بزرگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جوانی کی ونڈو سے چھلانگ لگائی ۔دنیا کے دھندوں اور زندگی کے جھمیلوں کی زنجیریں توڑ کر ہم اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہوگئے- ٹریول کلب کے دفتر پہنچے ان کو فیس پے کی اور خود کو ان کے ہینڈ اوور کردیا- ٹرانسپورٹ کا انتظام کافی معقول تھا- ہم سفر بھی کافی معقول تھے - مختلف طبقہ ہائے زندگی کے لوگ کوسٹر میں ہمارے اردگرد براجمان تھے - مزے کی بات یہ تھی کہ مسلم ہندو عیسائی سب ایک چھت تلے قہقہے لگاتے عازم سفر تھے- ایبٹ آباد سے ذرا آگے ایک پہاڑی ہوٹل پر ناشتہ کیا - لوگ آہستہ آہستہ اجنبیت کی دیوار کو توڑ کر ایک دوسرے کی ذات کے دائروں میں داخل ہو رہے تھے - براستہ بھشام مختلف چشموں پر رکتے انڈس کے ساتھ ساتھ سانپ کی طرح بل کھاتی قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے رات آٹھ بجے اپنے پہلے پڑاؤ چلاس جا پہنچے- رات کے کھانے کی ٹیبل تک پہنچنے سے پہلے سب لوگ ایک فیملی بن چکے تھے ۔ہوٹل سے ذرا ہٹ کر انڈس صدیوں کا تہذیبوں کا شور اپنے دامن میں سمیٹے یوں بہہ رہا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو- زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ خاموش دریا بھی انسان کے اندر یادوں کا شور برپا کر دیتے ہیں - آپ کی اپنی ذات دریا بن جاتی ہے جس میں مختلف پیاروں کی یاد یں چشموں کے پانی کی طرح شورمچانے لگ جاتی ہیں باہرکی خاموشی اور اندر کے شور سے مجھے پہلی بار یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کائنات کو ایکسپلوز کرنا اور ہر منظر کو دیکھ کر خدا کی بزرگی کی تعریف کرنا ہی نائب کا کام ہے۔ انہی سوچوں میں رات گذرگئی- اگلی صبح ہنزہ کی طرف روانہ ہوئے - یہیں سے سلک روٹ کا آغاز ہوتا ہے - یہ سڑک روا ں پانی کی طرح بہتی ہے- بلند وبالا پہاڑوں کی خوبصورتی کو سلک روڈمزید خوبصورتی عطا کرتی ہے- ٹھنڈی ہوا آپ کو نیند کی وادی میں دھکیلنے کی کوشش کرتی ہے مگر آنکھیں یہ ضد کرتی ہیں کہ ابھی نہیں ۔کیونکہ گردا گرد کے مناظر ایک سے بڑھ کر ایک لاجواب و جدا ہیں - اسی سفر کے دوران ایک پوائنٹ ایسا بھی آتا ہے کہ جہاں دریائے گلگت اور انڈس کا ملاپ ہوتا ہے - یہیں دنیا کے بلند پہاڑی سلسلے ہمالیہ قراقرم اور کوہ ہندوکش بھی ملتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں - یہ مقام دنیا اور کائنات کی ترتیب کا احساس دلاتا ہے کہ کوئی ذات ہے جو یہ سب ترتیب دے رہی ہے۔ وہ ذات خدائے بزرگ و برتر ہے - انہی علاقوں میں آکر گورے بھی یہ سوچنے پر مجبورہو جاتے ہیں کہ کوئی ہستی ہے جس نے یہ سب بنایا اس ترتیب اور خوبصورتی سے بنایا اور چلا بھی رہا ہے - چائنا کی بنائی ہوئی سڑک بھی ایک عجوبہ اور چائنیز قوم کی ان تھک محنت محبت اور عظمت کا ثبوت ہے - مختلف مقامات پر چائنیز انجینئر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے کور میں کام کرتے دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہم عجیب ظالم لوگ ہیں کہ اپنے گھر کو بنانے کے لئے آنے والے معماروں تک کے ہم جانی دشمن ہیں ۔آپ کو شائد ایسی قوم ڈھونڈنے سے نہ ملے جو اپنی ترقی کی راہ میں خود رکاوٹ ہو- جوں جوں سفر آگے بڑھتا ہے دیودار کے قدآور درخت پہاڑوں کے بطن سے سر اٹھا کر آنے والوں کا استقبال شروع کردیتے ہیں - راکا پوشی ویو پوائنٹ Killer mountainکا دیدار نصیب ہوتا ہے - گلیشیئر کے پگھلے پانی سے بہنے والا چشمہ سڑک کے نیچے سے گزرتا ہے - پانی اتنا ٹھنڈا کہ چند سیکنڈ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا بھی ناممکن ہے پھل دار درختوں کی قطاریں بھی یہیں سے شروع ہوجاتی ہیں - خوبانی آڑو سیب انگور ناشپاتی کے درخت جا بجا پھیلے ہوئے ہیں - ان پر کسی کی اجارہ داری بھی نہیں لوگ بہت ملنسار اورمحبت کرنے والے ہیں - بغیر کسی خوف کے آپ جہاں جائیں جو توڑیں کھائیں انجوائے کریں - اگر آپ خود نہیں توڑ نا چاہ رہے تو کسی لوکل کو درخواست کریں وہ آپ کو حسب ضرورت پھل توڑ دے گا - ٹورسٹ کی حیثیت سے آپ بھی اپنے فرائض کا خیال رکھیں کہ پودوں کی حفاظت کریں اور گندگی پھیلانے سے گریز کریں- موسم کی حدت خاصی کم تھی - قدرت کی رنگینیوں میں کھوئے کھوئے ہم وادی ہنزہ جا پہنچے- یہ وادی اپنے باسیوں کی نیک طبیعت اور کوآپریٹو نیچر کی وجہ سے جنت سے کم نہیں۔ اسی وادی کے قریب ایک پوائنٹ ایگل نیسٹ ہے جہاں سے راکا پوشی ،التر پیک سمیت آٹھ بلندچوٹیاں نظر آتی ہیں - پہاڑ اور چوٹیاں اس قدر بلند ہیں کہ انسان کے منہ سے بے ساختہ سبحان اﷲ کالفظ نکل جاتا ہے۔ اس پوائنٹ پر بھی ہوٹل بنے ہیں ۔یہی وہ فلک بوس چوٹیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر بے ساختہ گوروں کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے کہGod Exists Yes گورے اپنے سکائی اسکریپرز کو بھول کر خدا کے وجود کے قائل ہوجاتے ہیں- ان چوٹیوں کی پہلی نظر انسان کو خدا کی بنائی کائنات میں اپنی اوقات یاد دلا دیتی ہے- ان چوٹیوں کو دیکھ کر جی نہیں چاہتا کہ قدرت کے ان شاہکاروں پر سے اپنی نظر ہٹائی جائے جی چاہتا ہے کہ وقت رک جائے اور بس ہر طرف چھائی خاموشی میں پہروں ان کی خوبصورتی بندہ اپنی نظروں میں سموتا رہے - اسی وادی میں دو فورٹ بھی ہیں التِت فورٹ اور با لتت فورٹ ۔گائیڈان قلعوں کی تاریخ سے ناواقف تھا۔ اس علاقے میں ہنزہ اور نگر کی دو ریاستیں ہیں- جو دریائے ہنزہ کے دونوں طرف آ باد تھیں. ہنزہ کے حکمران التت قلعے میں رہائش پزیر تھے ۔لیکن پھر بادشاہ کے دو بیٹوں کے خاندانی جھگڑے نے انہیں تقسیم کردیا اور بالتت قلعہ وجود میں آیا ۔پھر یہ قلعہ پاور کا مرکز اور دارالخلافہ بن گیا- بھائیوں کی اس اقتدار اور طاقت کی جنگ میں بالتت قلعہ کا حاکم جیت گیا ۔التت قلعے کا سالار چھوٹا بھائی مارا گیا - اس کے بعد سے آج تک بالتت قلعہ طاقت اور عظمت کا نشان ہے - اس قلعے کا طرز تعمیر لداخی طرز پر ہے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی اس کے طرز تعمیر میں تبدیلیاں کی آجکل یہ بالتت ہیریٹیج ٹرسٹ کی ملکیت ہے۔ یہ قلعے بتاتے ہیں کہ زور کو سلام ہے التت فورٹ محض کھنڈر اور مٹی گارے کی دیواروں کے علاوہ کچھ نہیں۔ جبکہ بالتت فورٹ آج بھی کافی حد مزین ہے۔ یہی دنیائے طاقت کا دستور ہے ۔جو ہا ر جائے اس کا خاندان قلعے باقیات سب رل جاتے ہیں اور جو فاتح ہو طاقتور ہو اس کے آستانے مزین وآبادرہتے ہیں - رات کو ہنزہ وادی کے حسن کو اردگرد کے پہاڑوں پر جھلملاتی روشنیاں پری کی طرح سجادیتی ہیں- یہاں کے لوگ پڑھے لکھے مہمان نواز اور کول مائنڈ ہیں - یہ وادی طرح طرح کے حسن سے مالا مال ہے - خوبانیوں کا رنگ انسانوں پر بھی چڑھ گیا ہے- اس علاقے کی خوبانیاں شہد کی طرح میٹھی ہیں- یہ لوگ اس کو سوکھا کر آپ تک پہنچاتے ہیں - کیونکہ یہ خوبانی اس قدر نرم ہے کہ یہ لمبے سفر اور سٹوریج کی مار نہیں سہہ سکتی- ایجوکیشن ریٹ بہت ہائی ہے- آپ جس بھی آدمی سے ملتے ہیں وہ کم از کم گریجوایٹ ہے- لٹریسی ریٹ 95%سے زیادہ ہے لوگ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں- تعلیم کا خمار ان کے دماغوں کو نہیں چڑھا اس لئے یہ پڑھے لکھے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار اور دکانوں کی آمدنی پر بھی خوش ہیں ۔انہیں قدرت نے نیچر کی اتنی خوبصورتی سے نوازا ہے کہ کہ انہیں اور کسی دولت کی ضرورت نہیں- ہنزہ کا چھوٹا سا بازار بھی خاصا تاریخی ہے - یہاں آپ کو پرانے ہتھیار پتھر وں اور دھاتوں کے زیورات بکثرت ملتے ہیں ۔شہر میں قریبی چشمے کا ذرا سا مٹیالا پانی آتا ہے- سیاح اسے پینے سے گریز کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ اگر ذرا سی بے احتیاطی سے نظام انہظام اپ سیٹ ہوجائے تو تمام سیر کا مزہ غارت ہو جاتا ہے - مری جیسی لوٹ مار یہاں نہیں ۔ ہوٹلوں سے لیکر کھانے پینے کی اشیاء تک ہر چیز کے ریٹ جائز ہیں - ہر دوکاندار Smileکے ساتھ آپ کا استقبال کرتا ہے- مار خور کے سینگ بھی کہیں کہیں دکانوں پر نظر آجاتے ہیں - ہنزہ سے ذرا آگے خنجراب کی طرف نکلیں تو مارخور کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے - یہ ہمارا قومی جانور ہے - یہ انتخاب کس نے کیا اس کا نام مارخور کیوں ہے یہ بات میرے لئے بھی ایک راز تھی - راز جتنے بھی گہرے ہوں ایک نہ ایک دن ان سے پردہ اٹھ جاتاہے یہ کوشش اگلی دفعہ سہی-

Rizwan Khan
About the Author: Rizwan Khan Read More Articles by Rizwan Khan: 24 Articles with 18075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.