دبستا نوں کا دبستان‘ (کراچی)۔مثالِ بے مثال'

تذکرہ نگاری اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے کہ جس کی اہمیت اور افادیت روز اول سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اور افادیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ادب میں شعراء، ادباء ، ادیبوں اور دانشوروں کے تذکروں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تاریخ بھی ہوتے ہیں اور تنقید بھی۔ اگر تذکرہ نگاری نہ ہوتی تو آھ ماضی کے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں حال کے بے خبر ہوتا، اسی طرح اگر حال کے شاعروں اور ادیبوں کے تذکرے مرتب نہیں ہوں گے تو مستقل کے شاعر اورادیبوں کے آج کے شاعروں و ادیب غم نام رہیں گے ۔ایسے شاعروں اور ادیبوں کی تعداد بے شمار ہے کہ جن کا کلام طباعت پذیر نہیں ہوا ، نہ ہی ان کی کوئی نثری تصنیف شائع ہوئی، یہ تذکرہ ہی ہیں کہ جنہوں نے ایسے غم نام شاعروں اور ادیبوں کو پہچان دی اور انہیں گمنامی سے محفوظ رکھا۔ اردو میں تذکرہ نگاری سے قبل فارسی میں کچھ تذکرے تاریخ میں ملتے ہیں۔تذکرہ سے مراد در کسی بھی کتاب یا مضمون میں شعراء و ادبا ء کا ذکریا علیحدہ سے ایسی کتاب جس میں شاعروں، ادیبوں اور محققین و مصنفین کے بارے میں معلومات درج ہوں۔1490ء میں دولت شاہ کی تصنیف میں شعرا کے بارے میں معلومات درج ملتی ہیں۔ اردو تذکرہ نگاری میں میر تقی میرؔ کانام سرِ فہرست ہے۔ میرؔ نے اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ’’نکات اشعرا‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا جو 1751 ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ا س تذکرے میں ستر یا بہتر(70-72) شاعروں کا تذکرہ تھا۔ تذکرہ نگاری میں میرتقی میرؔ کے علاوہ جو بڑے نام تاریخ میں ملتے ہیں ان میں شفیق اورنگ آبادی، مصحفیؔ، قایم چاندپوری، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ شامل ہیں۔ افضل بیگ قاشقال کا تذکرہ ’’تحفہ الشعرا‘1752ء، حمید اونگ آبادی کا تذکرہ ’’گلشن گفتار‘1752 ء، فتح علی گردیزی کا تذکرہ ’ ریختہ گویان‘1753 ء، میر حسن دہلوی کا تذکرہ ’تذکرہ شعرائے اردو‘، غلام ہمدانی مصحفی کا تذکرہ ’تذکرہ ہندی‘1795ء ،مصطفی خان شیفتہ کا مرتب کردہ تذکرہ’گلشن بے خار‘ 1835 ء، قابل ذکر تذکرے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی کتاب ’’آب حیات‘‘ بھی تذکرہ نگاری کی ایک کڑی ہے۔ لالہ سری رام کی مرتب کردہ پانچ جلدیں ’’خم خانۂ جاوید‘‘ کو مشفق خواجہ نے اپنے وقت کے بہترین تذکرہ کہا ہے۔ امروہہ کے شاعر غلام ہمدانی مصحفیؔ کے مرتب کردہ تین تذکرے ’’عقدِثریا‘‘، ’’تذکرہ ہندی گویا‘‘ اور ’’ریاض الفصحا‘‘ تذکروں کی فہرست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی جامعہ موہن لال کھاڑیا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد نے اپنی تحقیقی کتاب ’’اردو تذکرہ نگاری ـ1835 ء کے بعد‘‘ جو 2011 ء میں شائع ہوئی ، ریختہ کی ویب سائٹ پر مکمل متن کے ساتھ موجود ہے میں بہت ہی تفصیل سے اس اچھوتے موضوع کو خوبصورت طریقے سے سمیٹا ہے۔ پاکستان میں بھی اس موضوع پر بہت کام ہواہے، بے شمار تذکرے شعراء اور ادیبوں نے مر تب کیے ۔ میرے دوست پروفیسر سراج الدین قاضی نے حیدرآباد سندھ کے ادیبوں ، شاعروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا تذکرہ مرتب کیا، محمد خاور نوازش جن کا تعلق ملتان سے ہے نے ’’مشاہرِ ادب:خارزارِ سیاست میں‘‘ کے عنوان سے ایک تذکرہ مرتب کیا جسے مقتدرہ قومی زبان نے 2012ء میں شائع کیا۔ اسی طرح بے شمار تذکرے وقت کے ساتھ ساتھ مرتب ہوتے رہے اور منظر عام پر آتے رہے۔

دبستانوں کا دبستان،کراچی ادیبوں ، محققین، نقادوں، شاعروں، مصوروں، مورخین، سیاحوں، سماجی اور علمائے دین کا ایک مسلسل تذکرہ ہے جس کی چار جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے احمد حسین صدیقی پیشہ کے اعتبار سے آرکیٹیکچر ہیں اس تذکرہ کی تدوین گزشتہ 13سالوں سے کررہے ہیں۔ اس کی اولین جلد 2003ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ احمد حسین صدیقی صاحب کی خوش نصیبی کے انہیں استاد الاساتذہ پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے رہنمائی کرنے والوں کی خصوصی توجہ حاصل ہوئی ۔احمد حسین صدیقی نے تذکرہ کی اولین جلد میں لکھا ’’میرے ذوقِ ادب کو مہمیز دینے والے ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی ہیں، ڈاکٹر صاحب کی تحریک پر ہی یہ کام شروع کیا‘‘۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس ادبی کام کی سرپرستی فرمان فتح پوری صاحب نے کی ہو اس کے معیار اور افادیت کی کیا بات ہوگی۔ احمد حسین صدیقی صاحب ادبی ذوق کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ ان میں ادبی ذوق و شوق ہی ہے کہ جس نے اس تذکرہ کو اب تک جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔ وہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کے ساتھ ان کے رسالے ’’نگارِ پاکستان ‘‘ میں بھی مدیر کی حیثیت سے شامل رہے۔ یہ ادبی جریدہ جو نیاز فتح پوری کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی پہچان تھاڈاکٹر صاحب کی رحلت کے ساتھ ہی خاموش ہوگیا۔ یعنی اس کی اشاعت جاری نہ رہ سکی۔ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم کے صاحبزادے بھی تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں ان کی دو بیٹیاں بھی جامعہ کراچی میں درس و تدریس سے وبستہ ہیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ فرمان تو شعبہ اردو میں ہی استاد ہیں، صدر شعبہ بھی رہیں۔ احمد حسین صدیقی، سید محمد اصغر کاظمی جو رسالے کے مدیران میں شامل تھے سب کے سب ڈاکٹر فرفان فتح پوری کے جاری کردہ جریدے کو زندہ نہ رکھ سکے۔ اس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ یہ بھی سنا گیا تھا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے انتقال پر شیخ الجامعہ نے اس ادبی جریدے کی اشاعت کے حوالے سے کہا تھا کہ جامعہ کراچی اس رسالے کو ’گود‘ لے لی گی یا لے لیا ہے‘۔ اس کے باوجود یہ پرچہ ڈاکٹرفرمان مرحوم کی طرح خاموش ہوگیاہے۔

احمدحسین صدیقی کا تعلق ہندوستان کے شہر امروہہ سے ہے جہاں پر وہ 1937میں پیدا ہوئے۔ بلدیہ اعظمیٰ کراچی سے ملازمت کا آغاز کیا ۔ کراچی بلڈنگ اٹھارٹی کے چیف کنٹرولر ہوئے، 1994سے1997ء تک کراچی ڈیولپمنٹ اٹھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ادبی و علمی ذوق ہونے کے باعث ادب کے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے۔ اپنی خودنوشت ’’سیاحتِ ماضی‘‘ کے عنوان سے لکھی، امروہہ کی تاریخ ’کشورِ اولیاء‘ کے عنوان سے لکھی۔ کراچی کی تاریخ ’گوہر بحیرۂ عرب‘ کے نام سے مرتب کی۔ احمد حسین صدیقی کا تصنیفی سفر تذکرہ کے حوالہ سے 2003سے شروع ہوا۔ ’’دبستانوں کا دبستان‘‘ (کراچی) کی اولین جلد اسی سال منظر عام پر آئی۔ اس جلد میں 194 ا دیبوں، شاعروں، ممتاز ادبی شخصیات کے مختصر حالات ِزندگی اور ان کی ادبی خدمات کا تذکرہ ہے۔ پہلی جلد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس جلد کی کمپوزنگ انہوں نے کمپیوٹر پر از خود کی۔ یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن شوق کے آگے کوئی بھی کام مشکل نہیں ۔ مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے اور احساس ہے کیوں کہ میں بھی گزشتہ کئی برس سے اپنے مضامین اور کتابیں از خود کمپیوٹر پر کمپوز کرتا ہوں۔ اس میں سہولت ہی سہولت نظر آتی ہے۔ کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا اور کام جلد ہوجاتا ہے۔

’دبستانوں کا دبستان‘کراچی کی پہلی جلد کی اشاعت کے دو سال بعد ہی دوسری جلد 2005ء میں منظر عام پر آگئی ۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ احمد حسین صدیقی کے تذکرہ کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس جلد میں پہلی جلد کے مقابلے میں زیادہ ادبی شخصیات کے بارے میں معلومات درج ہیں۔ یہ جلد439ادیبوں ، شاعروں، محققین کے بارے میں مختصر اطلاعات فراہم کرتی ہے۔ اردو کے معروف شاعر راغبؔمرادآبادی نے اس جلد کی اشاعت پر اپنے مخصوص شاعرانہ انداز سے کتاب اور صاحب کتاب کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ؂
تذکرہ اہل علم و ادب کا اب تک ایسا کوئی نہیں
جس میں ہو شامل شاعر‘ناشر‘صحب تصنیف اور فنکار
شاعر ناثر عالم فاضل بزم کی زینت ہیں راغبؔ
یہ ہے دبستانوں کا دبستا ن بزم آرئی کا شہکار

معروف ادیب مشفق خواجہ مرحوم نے دبستانوں کا دبستان،کراچی کی دوسری جلد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’اردو کا سب سے بڑا تذکرہ ’’خم خانۂ جاوید‘‘ جس کی پانچ جلدیں گزشتہ صدی کی پہلی چار دیائیوں کے درمیان شائع ہوئی بلا شبہ نامکمل رہ جانے کے باوجود زبردست اہمت کی حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تذکرے کے مرتب لالہ سری رام کو متعدد اہل علم کی معانت حاصل تھی۔ لیکن احمد حسین صدیقی کا کام بھی جاری ہے جو انہوں نے تن تنہا انجام دیا اور یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ کسی اہم شہر کے حوالے اتنے بڑے پیمانے پر کوئی دوسرا کام اب تک نہیں ہوا‘۔ مشفق خواجہ مرحوم کا کہنا تھا کہ دبستانوں کا دبستان،کراچی ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنے مؤلف کو زندہ رکھے گی ۔

2010ء میں ’دبستانوں کا دبستان‘،کراچی کی تیسری جلد منظر عام پر آئی۔ یہ جلد سابقہ دونوں جلدوں کا تسلسل تھا۔ اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ گو اس کی اشاعت میں پانچ سال لگ گئے۔ مؤلف اپنے تذکرہ کو بہتر سے بہتر کی جانب لے جانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس جلد میں 181ادیب، محقق، نقاد، مصور اور مورخ شامل ہوسکے۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اس جلد پر اپنی رائے جسے پیش لفظ ہی کہا جاسکتا ہے لکھا انہوں نے اپنی بات کی ابتدا غالبؔ کے اس شعر سے کی ؂
میں چمن میں کیا کیا گویا دبستاں کھُل گیا
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزلخواں ہوگئیں

ڈاکٹر فرمان نے لکھا’’ احمد حسین صدیقی کی’’ دبستانوں کا دبستان‘‘کراچی کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ اردو شاعرو ادب کی تقریباً ستر اسی سالہ تاریخ کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ اس کا کینوس صرف تنقیدی شذرات یا مختصر مبصرانہ جائزوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں مذکورجملہ شاعروں اور ادیبوں کے اصل نام، نسبت ، تاریخ ولادت و جائے پیدائش، ہجرت و مسافرت اور خانوادوں درسگاہ کی تفصیل رومانی، تعلیمی نسبتوں کی توضیحات کو ضروری سوانحی کوائف وعصری میلانات کی نشاندھی کے ساتھ اس طرح سمیٹ لیا گیا ہے کہ تذکرہ نگاری و تاریخ نویسی دونوں کا حق ادا ہوگیاہے۔ دبستانوں کا دبستانکا حیرت انگیز وصف یہ ہے کہ یہ آغاز سے لے کر انجام تک مصور ہے یعنی اس میں جن ادیبوں اور شاعروں تذکرہ آیا ہے ان کی تصویریں بھی دی ہوئی ہیں۔اس طرح کا کوئی دوسرا تذکرہ اردو اور فارسی ادب کی تاریخ میں نظر نہیں آتا اور اس لیے میں نے اسے ’’مثالِ بے مثال‘‘ کا نام دیا ہے‘‘۔انجمن ترقی اردو دہلی کے ڈاکٹر خلیق انجم نے اس تذکرہ پر اپنے خیالات کا اظہار ’حرفِ آغاز‘ کے عنوان سے کرتے ہوئے لکھا کہ’ ’احمد حسین صدیقی صاحب نے بڑی محبت ، لگن اور جستجو سے یہ تذکرہ لکھا یہ ہر شاعر کا ذکر قدیم تذکروں کی طرح دو تین سطروں میں نہیں بلکہ تذکرے میں شامل شاعروں اور ادیبوں کے اتنے حالات درج کردیے ہیں کہ مستقبل کا مورخ اس تاریخ سے بھر پور مواد حاصل کرسکتا ہے۔ یہ تذکرہ تحقیق اور تنقید کا بہت اچھا نمونہ ہے‘‘۔

چار سال کے وقفے کے بعد ’دبستانوں کا دبستان‘(کراچی ) کی پانچویں جلد 2014ء میں منظر عام پر آئی۔ دبستان کی یہ جلد 355شاعروں ، ادیبوں، دانشوروں ، مصوروں، محققین کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ راقم الحروف کا بھی یہ سعادت حاصل ہوسکی کہ دبستان کی اس جلد کے صفحہ نمبر132-133پر میرا تذکرہ بھی شامل ہوسکا۔ جس کے لیے میں مؤلف کے علاوہ مؤلف کے معاون سید محمد اصغر کاظمی کا بھی ممنون ہوں کے انہوں نے ہی میرے بارے میں دوصفحات تحریر کیے۔ اس سے قبل وہ مجھ پر ایک مضمون بعنوان ’’اردو کے خوش فکر ادیب و محقق‘‘ بھی لکھ چکے ہیں جو اردو کی معروف ویب سائٹ ’ہماری ویب‘ پر آن لائن موجود ہے۔فراست رضوی نے ۔’دبستانوں کا دبستان‘ اور اس کے مؤلف کو منظوم خراج عقیدت اس طرح پیش کیا ؂
اس شہر کی یادوں کو کیا رخشندہ
ہر لفظ ہے موتی کی طرح تابندہ
اے احمد حسین ادب کے محسن
تجھ سے ہے دبستانِ کراچی زندہ

دہلی سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد علی برقیؔ اعظمی نے’ دبستانوں کے دبستان‘ کو منظوم خراج تحسین ان اشعار میں پیش کیا ؂
ہے ’دبستانوں کا دبستان‘ اک کار ِ عظیم
ہو دنیائے ادب میں برقیؔ سب کا یہ منظورِ نظر
یہ علمی شہکار نہ ہو بس کراچی تک محدود
جاری رکھیں اس تاریخی کام کو سب اربابِ نظر

’دبستانوں کا دبستان‘ (کراچی) اردو زبان کے تذکروں میں ایک قیمتی اور منفرد اضافہ ہے۔ جس انداز سے اس کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اگر یہ اسی طرح جاری و ساری رہا تو اب تک مرتب ہونے والے تمام تذکروں کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہ بلاشبہ ایک محبت طلب کام ہے ساتھ ہی تحقیق و جستجو کا طالب بھی۔ احمد حسین صدیقی کو اﷲ ہمت اور صحت دے کہ وہ اس اہم ادبی کام کو جاری و ساری رکھ سکیں۔
(26اگست2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278556 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More