شان و فضیلتِ دوردِ پاک:

شان و فضیلتِ دوردِ پاک:
کسی شخص نے کسی دوست سے تین ہزار دینار قرض لیا اور واپسی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ مگر ہوتا وہی ھے جو منظورِ خدا ہوتا ھے, اس شخص کا کاروبار معطل ہو گیا اور وہ بالکل کنگال ہو کر رہ گیا۔

قرض خواہ نے تاریخ مقررہ پر پہنچ کر قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس مقروض نے معزرت چاھی کہ بھائی میں مجبور ہوں میرے پاس کوئی چیز نہیں ھے۔ قرض خواہ نے قاضی کے ہاں دعوٰی دائر کر دیا۔ قاضی صاحب نے اس مقروض کو طلب کیا اور اور سماعت کے بعد اس مقروض کو ایک ماہ کی مہلت دی اور فرمایا کہ اس قرضہ کی واپسی کا انتظام کرو۔ مقروض عدالت سے باہر آیا اور سوچنے اگا کہ کیا کروں۔ (ممکن ھے کہ اس نے کہیں سے یہ پڑھا ھو, یا علمائے کرام سے یہ سن رکھا ھو کہ رسول اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہِ وسلم کا ارشادِ گرامی ھے, جس بندے پر کوئی مصیبت, کوئی پریشانی آجائے تو وہ مجھ پر درودِ پاک کی کثرت کرے کونکہ درودِ پاک مصیبتوں پریشانیوں کو لے جاتا ھے اور رزق بڑھاتا ھے) الحاصل اس نے عاجزی اور زاری کے ساتھ مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر درود پاک پڑھنا شروع کر دیا جب ستائیس ٢٧ دن گزر گئے تو اس رات کو ایک خواب دکھائی دیا, کوئی کہنے والا کہتا ھے, اے بندے! تو پریشان نہ ھو, اللہ تعالیٰ کارساز ھے تیرا قرض ادا ھو جائے گا۔ تو علی بن عیسیٰ کے پاس جا اور جا کر اسے کہ دو کہ قرض ادا کرنے کے لیے مجھے تین ہزار دینار دیدے۔

فرمایا جب میں بیدا۔ ہوا تو بڑا خوشحال تھا۔ پریشانی ختم ہو چکی تھی لیکن یہ خیال آیا کہ اگر وزیر صاحب نے کوئی دلیل یا نشانی طلب کریں تو میرے پاس کوئی دلیل نہیں۔ دوسری رات ہوئی جب آنکھ سوگئی تو قسمت جاگ اٹھی۔ مجھے آقائے دو جہاں, رحمتِ دوعالم شفیعِ اعظم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم کا دیدار نصیب ہوا۔ حضور صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم نے بھی علی بن عیسیٰ وزیر کے پاس جانے کا ارشاد فرمایا, جب آنکھ کھلی تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ تیسری رات پھر امت کے والی صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم تشریف لاتے ہیں اور پھر حکم فرماتے ہیں کہ وزیر کے پاس جاؤ اور اسے یہ فرمان سنا دو۔ عرض کیا یارسول اللہ ( صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم)! (فداک ابی وامی) میں کوئی دلیل یا علامت چاہتا ھوں جو کہ اِس ارشاد کی صداقت کی دلیل ھو۔ یہ سن کر حضور صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم نے میری عرض کی تحسین فرمائی اور فرمایا کہ اگر وزیر تجھ سے کوئی علامت دریافت کرے تو کہ دینا اس کی سچائی کی علامت یہ ھے کہ آپ نماز فجر کے بعد کسی کے ساتھ کلام کرنے سے پہلے درود پاک کا تحفہ دربارِ رسالت میں پیش کرتے ھو جسے اللہ اور کراماً کاتبین کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

یہ فرما کر سیّد دو عالم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم تشریف لے گئے۔ میں بیدار ہوا, نماز فجر کے بعد مسجد سے باہر قدم رکھا اور آج مہینہ پورا ہو چکا تھا۔ میں وزیر کی رہائش گاہ پر پہنچا اور سارا قصہ سنایا۔ جب وزیر صاحب نے کوئی دلیل طلب کی اور میں نے حضور محبربِ کبریا صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہِ وسلم کا ارشاد سنایا تو وزیر صاحب خوشی اور مسرت سے چمک اٹھے اور فرمایا, "مرحبا! برسولٍ اللہ حقاً" اور پھر وزیر صاحب اندر گئے اور نو ہزار دینار لے کر آگئے۔ ان میں سے تین ہزار گن کر میری جھولی میں ڈال دیے اور فرمایا یہ تین ہزار قرضہ کی ادائیگی کے لیے اور پھر تین ہزار اور دیے کہ یہ تیرے بال بچوں کا خرچ اور پھر تین ہزار دیے اور فرمایا یہ تیرے کاروبار کے لیے, اور ساتھ ھی وداع کرتے وقت قسم دے کر کہا اے بھائی! تو میرا دینی اور ایمانی بھائی ھے, خدارا یہ تعلق و محبت نہ توڑنا اور جب بھی آپ کو کوئی کام, کوئی حاجت درپیش ہو, بلا روک ٹوک آجانا میں آپ کا کام دل و جان سے کیا کروں گا۔ فرمایا میں وہ رقم لے کر سیدھا قاضی صاحب کی عدالت میں پہنچ گیا اور جب فریقین کا کو بلاوا ھو تو میں قاضی صاحب کے ہاں پہنچا اور دیکھا کہ قرض خواہ مبہوت بیٹھا ھے۔

میں نے تین ہزار گن کر قاضی صاحب کے سامنے رکھ دیے, اب قاضی صاحب نے یہ سوال کر دیا کہ بتا تو یہ اتنی دولت کہاں سے لے آیا ھے؟ حالانکہ تو مفلس اور کنگال تھا۔ میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ قاضی صاحب یہ سن کر خاموشی سے اٹھ کر گر گئے اور گھر سے تین ہزار دینار لے کر آگئے اور فرمایا ساری برکتیں وزیر صاحب ھی کوں لوٹ لیں۔ میں بھی اسی سرکار کا غلام ہوں, تیرا یہ قرضہ میں ادا کرتا ہوں۔ جب صاحبِ دین (قرضے والے) نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ بولا کہ ساری برکتیں تم لوگ ھی کیوں سمیٹ لو میں بھی انکی رحمت کا حقدار ھوں, یہ کہ کر اس نے تحریر کر دیا کہ میں نے اس کا قرض اللہ جل جلالہُ اور رسول صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے لیے معاف کردیا۔ اور پھر مقروض نے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور کہا آپ کا شکریہ! لیجیے اپنی رقم سنبھال لیجیے! تو قاضی صاحب نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول ( صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ) کی میں جو دینار لایا ھوں وہ واپس لینے کو ہرگز تیار نہیں ھوں, یہ آپ کے لیے ہیں آپ ھی لے جائیے۔

تو میں بارہ ہزار دینار لے کر گھر آگیا اور قرضہ بھی معاف ھوگیا۔ یہ برکت ساری کی ساری درودِ پاک کی ھے۔
حوالہ: جزب القلوب ص٢٦٣
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1279240 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.