رکشہ سواری اورڈرائیوروں کی شاعری

اکثر ہم اپنے ارد گرد بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ویسے تو لا یعنی دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنے اندر بہت سی حقیقتیں پنہاں کیئے ہوتی ہیں۔ان چیزوں کو ہم چند لمحوں کیلئے بظر بھر کر دیکھتے ہیں اور پھر نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔ایسے بھی بہت سے کردار ہیں جو ہمارے اطرا ف میں موجود ہیں اور ان کےاندر کی کیفیات کیا ہوتی ہیں یہ بھی ۱ یک دلچسپ موضوع ہے۔ ہر کردار کی ایک الگ شناخت ہوتی ہےکچھ لوگ سنجیدہ ہوتے ہیں تو کچھ لوگ غیر سنجیدہ اب غیر سنجیدگی سے مراد یہ نہیں کہ لاپرواہ ہوتے ہیں بلکہ حس مزاح لیئے ہوتے ہیں،اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو موقع محل کے مناسبت سے خود کو ڈھال لیتےہیں ایسے لوگ ہمہ گیر طبیعت کہلاتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے فن اور اپنی سوچ کو اشعار کا ملمع چڑھا کر پیش کرتے ہیں گو کہ نہ تو یہ لوگ فنکار ہوتے ہیں اور نہ ہی شاعر لیکن اپنی ذات کے اندر دونوں پہلو لیئے ہوتے ہیںاپنی سوچ کو لفظوں کی چاشنی میں ڈبو کر لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔

چونکہ ہر شخص کی اپنی سوچ اور اپنا انداز ہوتا ہے،کچھ لوگ بہت سخت جان ہوتے ہیں تو کچھ بہت حساس اور اپنی اسی فطرت کے باعث دوسروں کو پریشانی میں دیکھ کر ان کا دکھ محسوس کرتے ہیں بلا شبہ ہر شخص اپنی فطرت کے مطابق کام کرتا ہے اس کے علاوہ معاشرہ بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔چونکہ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ کی ذات بہت نوازتی ہے دولت شہرت اور عزت عطاء کرتی ہے ذاتی املاک آنے جانے اور سفر کرنے کیلئے ذاتی سواریاں بھی ان کے پاس ہوتی ہیں۔ایسے لوگوں کو صاحب ثروت یا صاحب حیثیت لوگ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد ایک اور طبقہ جو پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر ذرائع ستعمال کرتا ہےاس کی وجہ ظاہر ہے ذاتی سواری کا نا ہونا ہےاس لیئے لوگ یہ ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ملک کی بیشتر آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہےاس لیئے ٹرانسپورٹ کا استعمال زیادہ ہے۔اس ٹرانسپورٹ میں مختلف سواریاں جن میں ویگنیں،بسیں،تانگے،اور رکشہ۔

رکشے کا کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہم نظر آتا ہے۔چونکہ یہ ایک نجی سواری ہے جس کو لوگ اپنی مرضی کی جگہوں پر لے جانے کیلئے استعمال کرتےہیں۔رکشہ تقریباً ہر جگہ ہی دستیاب ہوتا ہے۔ایسے لوگ جن کہ کہیں جلدی پہنچنا ہوتا ہے اور ان کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔جہاں یہ ایک مفید سواری ہے وہیں اس کے چند مسائل بھی ہیںوہ یہ کہ اپنی بلند اور کرخت آواز کے سبب نا پسند کیا جاتا ہےاور ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے۔حیرت اور مزے کی بات تو یہ ہے جس جگہ اس کے جانے سے لوگوں کو تکلیف ہو سکتی ہے ہوہاں اس کی موجودگی سب سے زیادہ ہوتی ہےاور وہ جگہ ہے ہسپتال ۔ہسپتالوں کے باہر ان کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔الغرض رکشے کا کردار ہماری زندگیوں میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔عام طور پر رکشہ چلانے والے حضرات اپنے رکشوں کو توجہ طلب بنانے کیلئے مختلف نقش و نگار اور عبارات سے مزین رکھتے ہیں صرف یہ نہیں اکثر نامور شخصیات جن میں اداکار،گلوکار، اور دیگر ایسے لوگ جو شہرت کی بلندیوں کو چھوئے وہ بھی کسی زمانے میںرکشہ چلایا کرتے تھے،اور اپنے رکشوں کو خوبصورت بنائے رکھتے ۔کچھ جو کہ گلوکار تھے اور دوران سفر اپنی آواز کا جادو جگایا کرتے تھے۔نامور لوک گلوکار عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی جن کا شمار صف اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہےوہ بھی ابتدائی دنوں میں رکشہ چلاکر اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے،چونکہ ان کی آواز میں جادو تھا لہٰذا وہ شہرت کی بلندیوں کو پہنچےاس کے علاوہ بھی بہت سی شخصیات جن کی زندگیاں رکشہ ڈرائیونگ سے تعلق رکھتی ہے۔

رکشوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان رکشوں کو ڈرائیور حضرات نے جہاں مختلف ڈیزائنوں سے سجا رکھا ہوتا ہے وہیں بہت ہی دلچسپ شاعری جو کہ آپ کو رکشوں کے باہر یا اندر پڑھنے کو مل جائے گی۔کچھ رکشہ ڈرائیور تو اتنے دکھی دکھائی دیتے ہیںکہ ان کے رکشوں میں اتنی دکھی اور پریشان کن شاعری پڑھنے کو ملتی ہےکہ رکشے میں سفر کرنے والا خود بھی پریشان ہوجاتا ہے۔عام طور پر ایسی شعر و شاعریوہ ڈرائیور لکھواتے ہیں جو کبھی کسی کے ساتھ ع عشق میں مبتلا ہوتے ہیں اور بے وفائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کا غم غمگین شعروں اور غزلوں کی صورت میں غلط کرتے ہیں۔لیکن صرف غمزدہ اور عشق میں ناکام لوگوں کی شاعری ہی رکشوں میں نہیں لکھی ملتی بلکہ بیشمار رکشے ایسے بھی ہیں جن کے اندر بہت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی شاعری بھی پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ایسی شاعری اپنے اندر بہت ملے جلے جذبات لیئے ہوتی ہے،اور ایسے رکشوں کے ڈرائیور حضرات بھی بہت زندہ دل ہوتے ہیں۔اپنے رکشوں پر سفر کرنے والوں کو متاثر کرنے کیلئے بہت منتخب قسم کے اشعار اپنے رکشوں میں لکھواتے ہیں جن میں امید کا عنصر کافی جھلک رہا ہوتا ہے،مثلاً لکھا تھا
؎ پھول کھلے نہ کھلے بہار تو ہے
سواری ملے نہ ملےا نتظار تو ہے

؎ ڈرائیور سے دوستی نہ کر ان کاٹھکانہ دور ہوتا ہے
یہ بےوفا نہیں ہوتے ان کو جانا ضرور ہوتا ہے

؎ سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آنہی سکتی کاغذکے پھولوں سے

؎ میری محفل میں چند فنکار بیٹھے ہیں
کوئی نہیں معصوم سب مشتری ہشیار بیٹھے ہیں
کام کیئے جاتے ہیں اکھیوں ہی کنکھیوں میں
نہ تم بیکار بیٹھے ہو نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں

یہ ملی جلی شاعری جو کہ عموماًرکشوں میں لکھی مل جائے گی، اس کے علاوہ بہت سے ایسے دلچسپ فقرے بھی ہیں جو رکشوں کے دروازوںیا اس کے پیچھے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے جن کو پڑھ کر لوگ بہت محظوظ ہوتے ہیں،ان میں بہت سی عبارتیں مزاحیہ انداز میں لکھی ہوتی ہیںایسے ڈرائیور کافی زندہ دل ہوتے ہیں،جو اپنے رکشوں پر ایسی عبارات لکھواتے ہیں۔

جنے ماں نوں ستایا اونے رکشہ ای چلایا
رکھ پیر تے چل شہر
آجا کاکا دنیا وخاواں

لش پش
چا چا دس نمبری
او آیا ببر شیر یوریا

ایسے جملے اور فقرے جو کہ آپ رکشوں کے پیچھے یا دروازوں پر اکثر پڑھیں گے،ہر شخص کا اپنا ذوق ہوتا ہےاور وہ اپنے ذوق اور مرضی کے مطابق ایسے اشعاراور فقرات لکھوا کر اپنی تشفی کرتا ہے،وہ الگ بات ہے کسی کو اس طرح کے جملےاور اشعار پسند آئیںیا ناآ ئیںلیکن بات صرف یہ ہے کہ یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک کردار ہے جو کہ ہمارے ارد گرد موجود ہےجس سے ہمیں عموماً واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

سرخیاں:
1۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو موقع محل کے مناسبت سے خود کو ڈھال لیتےہیں۔
2۔اپنی سوچ کو لفظوں کی چاشنی میں ڈبو کر لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔
3۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے فن اور اپنی سوچ کو اشعار کا ملمع چڑھا کر پیش کرتے ہیںگوءکہ نہ تو یہ لوگ فنکار ہوتے ہیں اور نہ ہی شاعر لیکن اپنی ذات کے اندر دونوں پہلو لیئے ہوتے ہیں۔
4۔ایسے لوگ جن کہ کہیں جلدی پہنچنا ہوتا ہے اور ان کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
5۔ اپنی بلند اور کرخت آواز کے سبب نا پسند کیا جاتا ہےاور ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے۔
6۔ بیشمار رکشے ایسے بھی ہیں جن کے اندر بہت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی شاعری بھی پڑھنے کو مل جاتی ہے۔
7۔ نامور لوک گلوکار عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی جن کا شمار صف اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہےوہ بھی ابتدائی دنوں میں رکشہ چلاکر اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔
rizwan zaidi
About the Author: rizwan zaidi Read More Articles by rizwan zaidi: 7 Articles with 8032 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.