نوکری کے لیے ماں کے آنسووں کی سفارش !

کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے صاحب اقتدار اور اختیار لیڈر جو علم رکھتے ہیں اس میں انسانی ہمدردی کے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،وہ یہ سوچتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں عوام کا ان سے کوئی تعلق اورواسطہ نہیں ہے وہ صرف اپنے اہل و عیال اور قریبی چاہنے والوں کی خوشیوں کے لیے جواب دہ ہیں،اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں غریب غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پاکستان کے وسائل اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کی ساری نیکیاں چند مراعات طبقے تک کیوں محدود ہیں ؟کیوں غریبوں پر بھاری ٹیکسوں کو لاد کر امیروں کے آنگن وسیع کئے جارہے ہیں ؟۔ دوستوں مجھے یقین ہے میرے یہ الفاظ نہ میرے اور نہ ہی کسی اور کے کام کے ہیں ،بہت سے محب وطن سیاستدان ایسے بھی گزرے ہیں جنھیں ایساسچ بولنے کی پاداش پرزندان خانوں میں ڈال دیا گیا،اس وطن میں رہنے والے اور اسکے جانثاروں نے اس بربریت اور ظلم کے خلاف آوازیں اٹھائی مگر کوئی فرق نہیں پڑا ! مگر میں یہ سوچ کر اس تحریر کو لکھتا چلاجارہا ہوں کہ اس عمل سے میرے دل کا بوجھ تو ہلکا ہورہا ہے ،شاید کہ اس تحریر کے چند الفاظ کسی صاحب اختیار کی زندگی بدلنے میں کام آجائیں ،جو سیاستدان اقتدار میں ہیں انہیں سب اچھا کی رپورٹیں دینے والوں کا جم غفیر انہیں عوام کے گھروں میں بجھتے چولہے دیکھنے ہی نہیں دیتا۔اورافسوس کے اس ملک میں جو لوگ خود کو اپوزیشن کے نام سے اس ملک کی مسائل اٹھانے پر مانے جاتے ہیں ان کی حقیقت بھی چنداخباروں میں چھپنے والے بیانات سے آگے نہیں ہے ،اس ملک پر حکمرانی ایک ایسے اندھے اور مفادپرست چشمے کا نام ہے جسے پہن کر آدمی اپنے اپوزیشن کے دور اور عوامی وعدوں کو یکسر بھول جاتا ہے اسے خون میں ڈوبی عوام نہیں دکھائی دیتی اسے غریبوں کی بھوک یاد نہیں رہتی ۔یہ بات درست ہے کہ ہر کام حکومت نے نہیں کرنا کچھ کام ہمارے کرنے کے بھی ہیں ہم اس معاشرے میں برائیوں کوروکنے کی کوشش کرنی چاہیے ،ہمیں یہ سوچ کر آگے بڑھنا ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی تکلیف میں نہ آجائے ،یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہیں ،جب ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گے تو حالات خودبہ خود بہتر ی کے طرف آنا شروع ہوجائینگے ،مگر یہ تمام باتیں ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جنھوں نے ہمارے معاشرے کو نفرتوں کی آگ میں جھونک رکھا ہے یہ باتیں ان لوگوں کے لیے بھی عمل کرنے کی ہیں جن لوگوں نے لوٹ مار کرنے کے لیے سیاست میں آکر اپنا کاروبار چمکارکھا ہے۔حال ہی میں ایک واقع کی تحریرمیری نظرو ں سے گزری ہے جسے میں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ضرور شیئر کرونگا۔ایک یوتھ کانفرنس میں ایک مہمان نے ایک دل ہلادینے والا واقع سنایاانہوں نے بتایا کہ وہ ایک نوکری کے لیئے انٹریو لے رہے تھے ،ایک لڑکا انٹریو دینے کے لیے آیا،ہم جو پوچھتے وہ صحیح جواب دیتاچلاگیا،ہم نے اس سے لڑکے سے چالیس سے زائد سوال کئے اس لڑکے نے ایک بھی غلط جواب نہ دیا،اس کی ذہانت دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے ۔وہ لڑکا جاتے ہوئے ہمیں کہہ گیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ منسٹر کی دی ہوئی لسٹ والوں کو نوکریاں دیں گے مجھے یہ نوکری نہیں ملے گی ،ہم وزیر صاحب کے پاس گئے اور انہیں اپنی بنائی ہوئی لسٹ دی جس میں اس لڑکے کا نام بھی شامل کیا۔یہ دیکھ کر منسٹر نے وہ چٹھی پھاڑ دی ۔اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ دو برس بعد ایک اخبار میں پولیس مقابلے میں مرنے والے ڈاکووں کی لاشوں کی تصویر آئی جس میں اس ذہین لڑکے کی تصویر بھی تھی ۔اس واقعے کو سننے کے بعد اس ھال میں بیٹھے لوگوں کی شاید نہ ہو مگر میری آنکھیں ضرور اشک بار ہوئی ۔دوستوں یہ ایک حقیقت ہے پاکستان میں 65فیصد یوتھ ہے آپ جس بھی صاحب اقتدار سیاستدان سے مل لے وہ اپنے الیکشن کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں روٹی کپڑا مکان اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بات کریگا وہاں نوجوانوں کے لیے پرکشش نوکریوں کا جھانسا بھی ضرور دیگا،ملک میں آج رنگ ونسل اور فرقوں میں بٹی قوم اس بات کو ثبوت ہے کہ مفاد پرست سیاستدان ہر جگہ موجود ہیں مفاد پرست صاحب اختیار ہر جگہ موجود ہیں ،جب ایسے لوگوں کو اختیار ملتا ہے تو وہ نوکریوں کو من پسند لوگوں میں تقسیم کرنے یا انہیں بیچنے کے معاملے میں یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس ملک کے معمار جن کی مائیں اپنے کنگن بیچ کر ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہیں ان ماؤں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جب ان کا ان بیٹا ان کی امیدوں کامرکز نہ بن سکے ان بیٹوں پر کیا گزرتی ہوگی جو بچپن میں اپنی ماں کے آنسو پونچھ کر کہتے تھے ماں تو کیوں روتی ہے مجھے بڑا ہوجانے دے تیرے سارے دکھ دور کردوں گا !مگر جب انہیں سخت محنت اور لگن سے حاصل کی ہوئی تعلیم کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی جب انہیں سننے کو ملے کے 5لاکھ روپے لگیں گے اس نوکری کے لیے !۔جب انہیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ کوئی سفارش ؟ تو اس پڑھے لکھے نوجوان کے پاس سوائے ماں کے ان آنسووں کے سوا کوئی سفارش نہیں ہوتی جو اس نے بچپن میں ماں کے آنسووں کو پونچھتے ہوئے سنبھال رکھے تھے کہ ماں تو گھبرا نہ تیرا بیٹا بڑاہوکر تیرے سارے دکھ دور کردیگا۔
 
Sajid Habib
About the Author: Sajid Habib Read More Articles by Sajid Habib: 3 Articles with 1903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.