تحریر کیسی ہو؟

ہر لکھاری کی خواہش ہوتی ہے کہ تحریر کے ذریعے اس کی سوچ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ تحریر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ اگر تحریر آسان فہم نہیں ہے، اس میں مشکل الفاظ کی بھرمار ہے تو وہ ایک اچھی اور خوبصورت تحریر تو ہوسکتی ہے، لیکن اس کا زیادہ مفید ہونا مشکل ہے، کیونکہ اب لوگوں کی اکثریت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ لغت سے مشکل الفاظ کے معانی ڈھونڈ ڈھونڈ کر کسی کی تحریر کو سمجھیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی، جن کی تحریریں ثقیل ہوں اور ان تحریروں کو عوام میں پسند بھی کیا جاتا ہو۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ مدارس کے طلبہ اور فضلاءکی اکثریت ایسی تحریروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جن میں الفاظ کا جادو جگایا گیا ہو، تشبیہات، تمثیلات، استعارات، تلمیحات اور تعبیرات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا گیا ہو۔ یہ تمام اوصاف مل کر جہاں ایک طرف تحریر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، وہیں تحریر کو بہت زیادہ ثقیل بھی بنادیتے ہیں اور مدارس کے طلبہ اور فضلا چونکہ یہ سب کچھ پڑھ چکے ہوتے ہیں، اس لیے شاید ان کو کوئی مشکل پیش نہ آتی ہو، لیکن ہر انسان تو تحریر کے ان اوصاف سے واقف نہیں ہوتا۔

تحریر لکھتے وقت مخاطب کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر مخاطب اہل علم ہے تو وہ مشکل تحریر کو بھی آسانی کے ساتھ سمجھ لے گا، لیکن اگر مخاطب عامی انسان ہے تو تحریر میں مشکل الفاظ کا استعمال کرنا اس کو اپنی تحریر کے ثمرات سے محروم کرنے والی بات ہے۔ ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر اصغر چشتی صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار میں تحریر لکھ کر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ (کسی تعارف کے محتاج نہیں) کے پاس لے گیا اور کہا اسے پڑھ کر بتایے کہ تحریر کیسی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ”اس تحریر کو لے کر کسی (نائی) بال کاٹنے والے یا (موچی) جوتے گانٹھنے والے کو پڑھ کر سناﺅ۔ اگر وہ اس تحریر کو سمجھ جائیں تو آپ بھی سمجھو کہ یہ تحریر شاندار ہے اور اگر ان کی سمجھ میں یہ تحریر نہیں آتی تو اس کو مزید آسان بنانے کی کوشش کرو۔“ ایک بار میں فیصل آباد میں معروف مصنف مولانا مجاہد الحسینی صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ دیگر باتوں کے ساتھ تحریر کی خوبی کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے: ”عمدہ تحریر وہ ہے جو مخاطب کی سمجھ میں آجائے۔ جو تحریر جتنی زیادہ آسان فہم ہو، وہ اتنی ہی زیادہ بہترین ہوتی ہے۔“ ایک بار اپنے دوست (معروف کالم نگار و مصنف) انور غازی سے پوچھا کہ کالم میں سب سے زیادہ کس چیز کا خیال رکھنا چاہیے تو وہ کہنے لگے کہ میں نے بھی ایک بار یہی سوال (معروف کالم نگار) جاوید چودھری سے کیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ اپنے قارئین کو آسان فہم انداز میں کوئی نئی چیز دیں، کالم میں یہی سب سے اہم اور لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.