اُنگلیوں کے نشانات

سورہ القیامہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’ ایحسب الانسان الّن نجمع عظامہ ۔ بلیٰ قادرین علیٰ عن نُسوّیَ بنانہ : کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کرسکیں گے ۔ ضرور کریں گے ہم تو اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پور تک درست کردیں۔ (75- 3,4) ۔ ان آیات کے متعلق مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں انگلیوں کے نشانات کا ذکر روز حشر تمام جانداروں کو پھر سے پیدا کئے جانے سے متعلق تذکرے میں موجود ہے۔

ہر انسان کے فنگر پرنٹ یا انگلیوں کے نشنات یعنی انگلیوں کی لکیروں کی ترتیب مختلف ہوتی ہے ان میں قطعی مشابہت نہیں پائی جاتی ۔ حتیٰ کہ جڑواں بچوں کی انگلیوں کے نشانات بھی مختلف ہوتے ہیں۔حالانکہ کہ ان کا DNAایک جیسا ہوتا ہے اسی لئے فنگر پرنٹ کو DNA پرنٹ پر بھی فوقیت دی جاتی ہے انگلیوں کے نشانات کے پڑھنے کے لئے رائج اصطلاح کو Dactyloscopy کہا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ 64 billion افراد کے فنگر پرنٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا کہیں کوئی امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ ان میں دو افراد ایک جیسی لکیروں کے نقوش رکھیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ نشانات انسان میں اس وقت بن جاتے ہیں جب کہ وہ اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے اور اس کی عمر بڑی مشکل سے صرف تین ماہ ہوتی ہے۔فنگر پرنٹ دراصل اوپری جلد کی ابھری ہوئی لکیریں ہیں جو اکثر کسی شئے سے ربط میں آکر حسی اشارات کو دماغ تک منتقل کرتی ہیں۔یہ لکیریں کسی شئے کومضبوطی سے تھامنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں بلکہ بعض سائنسدانوں کے مطابق ان لکیروں سے شئے پر گرفت کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ نشانات انسان میں زندگی بھر ایک جیسے ہی رہتے ہیں سوائے اس کے کہ انگلیوں کی اوپری سطح کسی وجہہ سے جل نہ جائیں یا ان پر زخم نہ آجائے یا عمر کے ساتھ ساتھ یہ دھندلا نہ جائیں۔انگلیوں پر پائی جانے والی ان لکیروں جیسی لکیریں ہتھیلی پاؤں کے انگوٹھوں، تلوؤں وغیرہ پر بھی پائی جاتی ہیں۔ فنگرپرنٹ کی تاریخ کافی قدیم ہے ۔ بابل میں ان کے استعمال کے کئی شواہدات موجود ہیں جہاں مٹی میں انگلیوں کے نشانات کو محفوظ کیا جاکر انہیں تجارتی لین دین میں استعمال کیا جاتا تھا۔مجرموں کی شناخت کے لئے انگلیوں کے نشانات کو پہچاننے کے طریقے کا استعمال 1858 سے شروع ہوا۔اس کا سہرا ایک انگریز Sir William Herschel کے سر جاتا ہے جو ہندوستان کی کسی عدالت میں مجسٹریٹ تھا۔1877ء میں Dr Henry Faulds نے پہلی بار روشنائی کی مدد سے انگلیوں کے نقش حاصل کئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1900ء سے افراد کی شناخت اور پہچان کے لئے ان نشانات کا استعمال کیاجارہا ہے، اس طرح عرصہ دراز سے Forensic scienceیعنی فقہ طب یا طب الشرعی میں انگلیوں کے نشانات کے امتحان اور تجزیے کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انگلیوں کے یہ نشانات دراصل Friction ridges ہیں جنہیں’’ احتکاکی لکیریں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ہر لکیر میں چھوٹی چھوٹی سوراخیں ہوتی ہیں جو اندرونی طور پر پسینے کے غدود Sebaceous سے تعلق رکھتے ہیں اسی لئے جب ہماری انگلیاں کسی شئے سے مس ہوجائیں تو جلد میں پائے جانے والےSebaceous غدود سے سیال خارج ہوتا ہے جس کی وجہہ اس مقام یا شئے پر انگلیوں کا نقش بن جاتا ہے جیسے شیشہ، چشمہ، گلاس ٹیبل وغیرہ لیکن یہ نشانات کپڑے پر نہیں بن پاتے کیونکہ یہ سیال ان کپڑوں میں جذب ہوجاتا ہے جس کی وجہہ سے نشانات باقی رہنے نہیں پاتے۔Sir Francis Galton غالباًپہلا شخص ہے جس نے بتایا کہ ہر آدمی کے انگلیوں کے نشانات علاحدہ ہوتے ہیں اس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جس کا نام "Fingerprints"تھا۔اس کتاب میں اس نے انگلیوں کی لکیروں کی بناوٹ کو بنیاد بنا کر انہیں تین درجوں میں تقسیم کیا۔ اس کی تقسیم کے مطابق یہ لکیریں کمانی دار (Arches) تقریباً گول دائروی(Whorl) اور Loopsیعنی یہ لکیریں انگلی کے ایک جانب سے شروع ہوکر گول مُڑ جاتی ہیں اور اوپری جانب چلی جاتی ہیں یعنی پھندے جیسی۔ ماہرین جب ان نشانات کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ ان لکیروں کے سائز، ترتیب ،شکل اور ان کی تعداد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ صحیح نتائج اخذ کر سکیں اور مختلف انگلیوں کے نشانات کے مابین امتیاز کرسکیں۔ انگلیوں کی لکیریں انسان کی شناخت کا ایک بڑا ذریعہ ہیں بعض ادارے ان کو دستخط سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اسی لئے حفاظت کی خاطربلڈنگ میں داخلے کی پہچان کے لئے یہی طریقہ استعمال کیا جارہا ہے، شناختی کارڈس وغیرہ اور دوسرے مقاصد کے لئے بھی انگلیوں کے نشانات اہمیت رکھتے ہیں۔ ہر ملک یا تنظیم انہیں اپنے ڈاٹا بیس میں رکھتی ہے ،قارئین کی دلچسپی کے لئے بتایا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا فنگر پرنٹ کا Data Base (ڈاٹا بیس) FBI یعنی Federal Bureau of Investigation امریکہ میں موجود ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی محض قارئین کی دلچسپی کو پیش نظر رکھ کر لکھا جارہا ہے کہ خدا نے صرف انسان کو ہی نہیں بلکہ ایک Marsupial (ایک قسم کا پستانیہ جو کنگارو کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے) Koalasکو بھی اس خصوصیت سے نوازا ہے اور سائنس دان کہتے ہیں کہ اس جانور میں بھی قدرت نے مجرمانہ ذہن رکھا ہے ۔ یہ جاندار آسٹریلیا میں پایا جا تا ہے،اس جاندار کے انگلیوں کے نشانات انسان سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں ۔ جس طرح انسان کی انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اسی طرح تمام گوریلا کے ناک کا پرنٹ Noseprint بھی علیحدہ ہوتا ہے جو گوریلا کی مخصوص پہچان ہے نئی ٹیکنالوجی کے فروغ سے پہلے نشانات کو ’’روشنائی‘‘ اور ’’کارڈ ‘‘ کے ذریعہ پہچانا جاتا تھا۔ان دنوں کمپیوٹر کے زریعہ سکانScanکیا جاکر تحقیق کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔اس کے لئے آپٹیکل یا سیلیکان کے شیشے پر رکھ کر نشانات حاصل کئے جاتے ہیں۔ یہ نہایت آسان ، تیزاور صحت کے ساتھ انجام دیا جانے والا طریقہ ہے۔فنگر پرنٹ حاصل کرنے کے بعد کمپیوٹر کی مدد سے اس پر نقاط لگائے جاتے ہیں اور ان نشانات کو اصل’’ ڈاٹا بیس‘‘ میں موجود نشانات اور اطلاعات سے ملایا جاتا ہے ۔یہ طریقہ کار ایڈورڈ ہنری کے پیش کردہ اصول کے تحت انجام پاتا ہے جس کی مدد سے ڈاٹا بیس میں موجود بہتر میچ(Match)تلاش کیا جاتا ہے ۔ 1980 ء میں Automated Fingerprint Identification Systems (AFIS) کو اپنایا گیاجو کم وقت میں نہایت تیزی سے کروڑوں فنگر پرنٹس سے صحیح نقل ڈھونڈ نکالتا ہے۔اس کے بعد 1999ء میں Integrated AFIS (IAFIS رائج ہوا۔ یہ نہ صرف فنگر پرنٹ کو کھوج نکالتا ہے بلکہ اس کے ماضی کی صحیح تاریخ بھی حاضر کردیتا ہے ۔ یہ طریقہ کار عام طور پر ایرپورٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ویسے شخصیت کی پہچان کے لئے فنگر پرنٹس کا تجزیہ واحد طریقہ نہیں بلکہ ان دنوں (حیات پیمائی) Biometrics کے کئی طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔جیسے Eye scans ،Ear scans اور Voice fingerprints وغیرہ جس کے ذریعہ فرد کو شناخت کیا جارہا ہے لیکن یہ طریقے عام دسترست سے باہر ہیں ۔ Eye scans میں آنکھ کے Retinaاور Iris کی ساخت کی تصویر لی جاتی ہے یہ تیز ترین اور صحت سے زیادہ قریب طریقہ ہے جس کے ذریعہ فرد کی شناخت کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح Ear scans بھی ایک اہم ذریعہ ہے جو کیمرے کے حاصل کردہ تصویر سے فرد کی شناخت کو ممکن بناتا ہے ۔ Voice fingerprints میں آواز کے مکمل تجزیے سے فرد کو پہچانا جاتا ہے۔ ہر طریقہ کار اپنی جگہ مستحکم اور مبنی بر صحت ہے لیکن موقعہ اور محل کے اعتبار سے ان طریقوں میں سے کسی ایک کو اپنایا جاتا ہے۔

ان دنوں ہاتھ کی لکیروں سے ہٹ کر DNA فنگر پرنٹ کو اہمیت دی جارہی ہے جو آج کے دور کا شناخت کا صحیح ترین ذریعہ ہے،DNAیعنی Deoxyribonucleic acid) ( ایک دوہری دھاگہ نماکیمیائی ساخت ہے جو کروموزوم کو بناتی ہے، اس دھاگے کا ایک حصہ ایک مخصوص خصوصیت کو کنٹرول کرتا ہے جس کو جین (Gene) کہتے ہیں۔ ہر انسان کے DNAکی کیمیائی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ان کے اساسی جوڑوں (Base Pair) میں اختلاف پایا جاتا ہے ایک DNA میں کئی بلین ایسے جوڑے موجود ہوتے ہیں جو مختلف ترتیب میں پائے جاتے ہیں ان جوڑوں کی اسی ترتیب کے مطالعے کو DNAفنگر پرنٹ کہا جاتا ہے،DNA کے چھوٹے تکڑوں کے جینی مطالعے کے لئے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے وہ Southern Blot کہلاتا ہے جس کو Probe (یعنی ترتیب کو معلوم )کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کو Hybridize( یعنی دو جینی تراتیب [Sequence] کا ہائیڈروجن کی مدد سے ملانا) کیا جاتا ہے،اور DNA پرنٹ کوپڑھا جاتا ہے۔ جوڑوں کی یہ ترتیب ہر انسان میں علیحدہ ہوتی ہے جس کوVNTR یعنی Variable number tandem repeatکہاجاتا ہے، یہ جینوم میں پایا جاتا ہے اسی لئے یہی VNTR وراثتی خصوصیت کیساتھ آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں جو آج کے دور میں شناخت کا بڑا اور معتبر ذریعہ مانا جارہا ہے۔علاوہ ازیں ایک نسل کے افراد میں ان جوڑوں کی ترتیب اور ایک حد تک مشابہت سے قریبی رشتہ کا پتہ بھی لگایا جاتا ہے۔جیسے باپ اور بیٹے کے VNTRسے ان کے رشتے کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ سورہ القیامہ میں اﷲ رب العزت فرماتا ہے۔ ’’ ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ ۔ بلی قادرین علی عن نسوی بنانہ : کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کرسکیں گے ۔ ضرور کریں گے ہم تو اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پور تک درست کردیں۔ (75- 3,4) ۔ ان آیات کے متعلق مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں انگلیوں کے نشانات کا ذکر روز حشر تمام جانداروں کو پھر سے پیدا کئے جانے سے متعلق تذکرے میں موجود ہے، علما نے اس کی تشریح کی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بتانا مشکل ہے کہ بطور خاص اﷲ تعالیٰ نے انگلیوں کے نشانات کا ذکر کیوں کیا ، اس تعلق سے سائنس تحقیق کر رہی ہے اور یہ توقع کر رہی ہے کہ جس طرح مختلف خصوصیات کو خالق نے انسانوں یا جانداروں کے اندر مختلف اشاروں یعنی’’ کوڈس‘‘ کی شکل میں رکھا ہے شاید انگلیوں کی یہ ترتیب بھی کسی خاص پیغام کی حامل ہو جو اہم خصوصیات کو بذریعہ توارث منتقل کرتی ہے ۔ کیونکہ خالق نے جس انداز سے قرآن میں اس کا تذکرہ کیا ہے وہ قابل غور ہے مختلف مذہبی اسکالرس نے ان نشانات کو اس مطلب سے جوڑا ہے جو قیامت کے بعد انسانوں کے پھر سے زندہ کئے جانے سے متعلق ہیں۔اس لئے مفسرین کے لئے یہ کہنا مشکل ہورہا ہے کہ قرآن میں انگلیوں کے نشانات کے تذکرے کا اشارہ کس جانب ہے ممکن ہے قرآن میں انگلیوں کے نشانات کا تذکرہ VNTR کے Pattern یعنی جینی جوڑوں کی ترتیب یا نقشوں کے معنوں میں کیا گیا ہو۔فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ (واﷲ اعلم) . ٭٭٭
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 79895 views i am a humble person... View More