کنکروچو بٹ

گوپس سے چند میل آگے پہنچے تو کنکروچو بٹ کا قصہ چھڑ گیا وہ اس لئے کہ اب آگے وہ جگہ آنے والی تھی جہاں کنکروچو کی بلی چڑھائی جاتی ہے ۔آپ لوگ بھی حیران ہونگے کہ یہ کنکروچو بٹ ہے کیا ۔ شینا زبان میں کنکروچو مرغے کو اور بٹ پتھر کے لئے استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہوا کہ مرغے والا پتھر اور جوں ہی اس پتھر کے قریب پہنچے تو لازمی بات تھی کہ اس کی تصویر تو کیمرے میں محفوظ کرنی ہی تھی چناچہ اس پتھر کی تصویر کشی کرنے کے بعد ہمارا سفر جاری رہا ۔دوران سفر میرے بھانجے نے مجھ سے کئی سوالات کئے جن کا میں نے اسے تفصیل سے بتایا اس کنکروچو بٹ کے بارے یہ بتادوں کی اب بھی یہاں کے مقامی لوگ شادی بیاہ کے سلسلے میں دلہن کو لیکر اس پوئنٹ کو کراس کرتے ہیں تو ایک عدد مرغا ساتھ رکھتے ہیں تاکہ مطلوبہ جگہ پہنچ کر اسے قربان کر دیا جائے ۔اور جو مرغا ذبح کیا جاتا ہے اسے اس پتھر کے اوپر چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس انسان کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ اسے اٹھا لے جاتا ہے یا وہ جنگلی پرندوں یا جانوروں کی خوراک بن جاتا ہے ۔لوگوں کا اس بارے کہنا ہے کہ اگر اس پتھر میں مرغا ذبح نہ کیا جائے تو دلہا یا دلہن کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے اور ان میں سے کسی نہ کسی کو حادثہ درپیش آتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ سلسلہ بغیر کسی مذہبی تفاوت کے جاری تھا لیکن اب یہ سلسلہ صرف اسماعلیہ عقیدہ رکھنے والے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔ اس کنکروچو بٹ کی کہانی سے مجھے فرفو بگروٹ کی موس سمرین بٹ کی رسم میں تھوڑی بہت مماثت سی لگی لیکن میرا موضوع موس سمرین بٹ نہیں ۔کنکروچو بٹ کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے اس بارے راقم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ اس راستے میں کئی ڈرایئور حضرات کو رات کے وقت ایک شخص گاڑی روکنے کا اشارہ کرتا تھا جو ڈرایئور گاڑی روک لیتا تو وہ شخص اس پہ سوار ہوتا اور تھوڑی ہی دور ایک خطرناک موڑ پر گاڑی رکواتا اور ادھر وہ غائب ہوجاتا تھا لیکن جب ڈریئور گاڑی نہیں روکتا تو عین ا سی موڑ پر گاڑی کو حادثہ پیش آجاتا تھا۔۔اس کہانی کو میں نے اور کھنگالا تو ایک صاحب نے خود بڑی سی قسم کھا کے بتایا کہ صاحب میں چشم دید گواہ ہوں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کچھ یوں کیا ایک دفعہ میں اپنی گاڑی لیکر اس کنکروچو بٹ سے گزر رہا تھا یہ کوئی رات کے نو یا دس بجے کا وقت تھا اسی مقام پہ ایک شخص جس کا قد تین فٹ یا چار فٹ کے قریب تھا اس نے مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ دیا میں نے گاڑی روکی اور وہ گاڑی میں سوار ہوا اس کے ہاتھ میں ایک بیگ نما تھیلا بھی تھا جس کو اس نے میری طرف رکھا ۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اس نے کہا کہ مجھے حاجت کی ضرورت ہے ذرا گاڑی روکیں تو میں نے گاڑی روکی وہ گاڑی سے نیچے اترا اور ایک جانب چل پڑا رات کا اندھیرا تھا جب وہ تھوڑی دور چلا تو میں نے اس کا تھیلا کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس تھیلے کے اندر چھوٹے بچوں کی کٹی ہوئی انگلیاں بہت ساری تعداد میں تھیں ۔مجھے گبھراہٹ سی ہوگئی میں نے جلدی سے تھیلا بند کیا اتنے میں وہ شخص واپس آیا اور آتے ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ نے میرا تھیلا کیوں کھولا۔۔اب میں کیا کہتا کوئی جواب بن نہیں پڑ رہا تھا اور دھیرے سے کہا کہ غلطی ہوئی یہ جواب سن کر وہ خاموش رہا اور گاڑی میں سوار ہوا اور ہم آگے کی طرف چل دئے اسی دوران اس نے بتایا کہ چونکہ میرے کہنے پر آپ نے گاڑی روکی دوسری بات یہ کہ آپ نے میرا انتظار کیا اس لئے میں تمھیں معاف کرتا ہوں باتوں باتوں میں وہ خطرناک موڑ بھی آپہنچا اس نے مجھے گاڑی روکنے کو کہا میں نے گاڑی روکی اور وہ گاڑی سے اترا اور یہ کہکر کہ اگر تو میری بات نہ مانتا تو دوسرے لوگوں کی طرح اسی موڑ پہ تمہیں حادثے سے دوچار کرتا وہ اسی موڑ پر غائب ہوا۔۔ادھر میری حالت بڑی دیدنی تھی کاٹو تو لہو نہیں گبھراہٹ اور خوف سے ٹانگیں کانپ رہی تھیں خدا خدا کر کے کچھ طبعیت بحال ہوئی تو گاڑی لیکر آگے کی طرف چل پڑا ۔۔اب اس کہانی میں کہاں تک صداقت ہے اللہ بہتر جانے پر لوگ اب تک حادثے سے دوچار ہونے کے خوف سے کنکروچو بٹ میں مرغے کی بلی چڑھاتے ہیں۔۔۔
Hidayatullah Akhtar
About the Author: Hidayatullah Akhtar Read More Articles by Hidayatullah Akhtar: 46 Articles with 51544 views
Introduction:
Hidayatullah Akhtar (Urduہدایت اللہ آختر‎) is a columnist, writer, poet, social worker and Ex Govt servant from Gilgit Pakistan. He
.. View More