زندگی کا ایک موڑ

"زندگی بھی انسان کو ہر موڑ پر کچھ نہ گچھ سکھاتی ہی رہتی ہے۔ آسمان پہ ہوتا ہے تو نیچے پٹچخ دیتی ھے۔ زمین پہ ھوتا ہے تو آسمان کو چھونےکا راستہ دیکھاتی ہے۔" ایک کاغذ پہ اپنے دل سے نکلنی والی بات لکھ کہ اس نے دیوار سے چسپا کردیا۔ اس کاغذ کو دیکھتے ہوۓ اس کی آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے ۔ اس نے فورآ آنکھیں بند کردیں ۔ اس کا وجود وہی تھا لیکن اس کا دماغ، سوچ کہی اور ۔ بند آنکھوں کے سامنے خوفناک منظر چل رہا تھا۔
"زارش زارش! اٹھ بھی جاؤ یار دیر ہو رہی ہے۔ " مریم اسے پچھلے پانچ منٹ سے آوازیں دے رہی تھی لیکن وہ گھوڑے بیچ کے سو رہی تھی۔
"یونی بس کے آنے میں صرف دس منٹ رہ گۓ ہیں لڑکی" ۔ وہ سامنے بیٹھی جوتے کے تسمے باندھ رہی تھی۔ زارِش جھٹکے سے اٹھی۔ "کیا صرف دس منٹ؟ پہلے کیوں نہیں اٹھایا ۔اف یار اتنی جلدی کیسے تیار ہونگی میں؟ اوہ گاڈ۔" تیار تو وہ ایسے ہوتی تھی جیسے ماڈلز رینمپ پہ جاتے ہوۓ ہوتی ہے۔ "آج میری چھٹی سمجھو" ۔ یہ کہ کر وہ دوبارہ کمبل میں منہ چپھا کہ سو گئ۔
مریم "اف یہ لڑکی" کہتے ہوۓ دروازے کی طرف بڑھی اور تبھی کوئ سکارف کو پن لگاتا ہوا اندر داخل ہوا۔خوبصورت چہرہ،گہری بھوری آنکھیں۔ اور اب سکارف کے دوسرے حصے سے چہرہ کور کر رہا تھا۔ "چلیں؟" بیگ پہنتے ہوۓ وہ مریم سے مخاطب ہوئ۔
"ہاں چلو جلدی۔ یہ نہیں جاۓگی" مریم نے بھی بیگ اٹھایا اور باہر نکل گئ۔
عصبہ جو چلیں کہتے ہی نکل گئ تھی واپس مریم کی طرف مڑی "طبیت ٹھیک ہے اس کی؟" دونوں کمرے کے باہر ہی رک چکے تھے۔ "اویں ڑرامے کر رہی ہے" ۔ عصبہ سر ہلاتے ہوۓآگے چل دی اور مریم بھی ساتھ ہولی۔
مریم ، زارِش اور عصبہ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔ UK میں سکالر شپ پہ آۓ پاکستان کے ایک خوبصورت شہر اسلام آباد سے تینوں کا تعلق تھا۔ تینوں ایک ہی کالج سے آئیں تھیں ۔ مریم کے پاپا ڈاکٹر تھے اور انھوں نے ہی ان کی سکالرشپ لگوائ تھی۔ کیوں میڈیکل کے بعد تینوں نے ان کے ہسپتال میں ہی کام کرنا تھا۔ زارِش مریم کی خالہ زار بہن تھی اور والدین کی وفات کے بعد مریم کے والدین نے اسے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس طرح زارش حسن مریم خالد کے بہت قریب تھی اور دونوں میں بہت دوستی تھی۔
عصبہ خالد صاحب کے دوست اور ہمساۓ ناصر کی بیٹی تھی۔ اور ان کے لیےوہ مریم اور زارش جیسی ہی تھی۔ خالد صاحب نے اپنا ایک ہسپتال بنایا تھا اور جب مریم زارش نے میڈیکل کا انتخاب کیا تو ان کے دل کو تسلی ہوئ کے وہ ان کو اپنے ہی ہسپتال میں رکھے گے۔ جب ناصر صاحب نے بتایا کے عصبہ بھی میڈیکل میں آگے جانا چاہتی ہے ۔ تو دونوں نے انھیں باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
مریم کی عصبہ سے بہت بنتی تھی لیکن زارش عصبہ سے کم بات کرتی تھی ۔ یا جب ضرورت پڑھے تب۔
یونیورسٹی سے پانچھ دس منٹ کے راستے پہ گرلز ہوسٹل تھا جس میں وہ رہتی تھیں۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ اٹھی ، فریش ہوئ اور شیشے کے سامنے آبیٹھی ۔ اپنے حسن کا خیال رکھنے کی اس کو بہت فکر تھی۔ میک اپ کیا،تیار ہوئ ، کپڑے بدلے اور کمرے کے اس کونے میں آگئ جو نام کا کچن تھا۔ بریڈ ، جام اور جوس کی چھوٹی بوتل لے کے وہ اپنے بستر پہ آگئ اور لیپ ٹاپ کھول کر مووی دیکھنے لگی ۔ "تھینک گاڈ آج چھٹی کرلی سکووووون سے دیکھوں گی مووی" ۔ موسیقی سے بھری مووی وہ سکون سے دیکھ رہی تھی۔
عصبہ اور مریم جب واپس آئ تو تب بھی وہ لیپ ٹاپ پہ ہی بیٹھی تھی ۔(غالباً دوسری مووی دیکھ رہی تھی)
"اوے ہوش آگیا؟" مریم کھڑی زارش کو گھور رہی تھی۔
زارش نے مووی سٹاپ کی اور مسکراتے ہوۓ بولی "کب کا" اور ساتھ میں آنکھ بھی ماری۔
"اوے ہوۓ! مجھے بھی دکھاؤ" مریم جوتوں سمیت اسی حلیے میں اس کے ساتھ بیٹھ گئ۔
جبکہ عصبہ اپنا سکارف اور جوتے اتار رہی تھی۔ عبایا ،سکارف اٹھا کہ اس نے سایڈ پہ رکھا اور واش روم میں چلے گئ۔
عصبہ باہر نکلتے وقت خود کو کور کرتی تھی ۔ وہ جانتی تھی اس نے کیا سیکھا ہے اور وہ دوسرے ملک میں بھی مسلمان ہی ہے۔ ہاں وہ اس دن عبایا نہیں پہنتی تھی جس دن وہ لمبی سکرٹ پہنتی تھی۔ لیکن منہ ھمیشہ ڈھانپتی تھی۔ مریم شلوار قمیض کے ساتھ ہی خوش تھی ۔ اور زارش۔۔ اس کا تو جینز اور چھوٹی شرٹ کے بغیر فیشن ہی ادھورا تھا۔
جو غالباً یہی سے خریدی تھی۔
دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ "یار مریم کچھ کھلانے کا ارادہ ہے؟آج تمھارا دن ہے پکانے کا"
بال باندتے ہوۓ عصبہ بستر پہ گرنے کے انداز میں بیٹھی۔
"اوہ نو! اس زارش کی مووی کے چکر بھول ہی گئ۔ آلو لیےتھے کل میں نے وہی کھلاتی ہوں بنا کہ" ۔ وہ اٹھ کے کچن کی طرف چلی گئ۔
زارش لیپ ٹاپ بند کر رہی تھی ۔ تبھی عصبہ کے موبائل پہ کوئی نوٹیفیکیشن آئی۔
"آہ۔۔ مریم میں منٹ میں آئی۔" وہ عبایا سکادف پہنتی دروازے کے پاس پہنچی تو مریم پیچھے سے چلائی "آتے ہوۓنیچے کینٹین سے ٹھنڈی کولڈ ڈرنک لے آنا ۔ آلو کی بجھیا کے ساتھ مزا آۓگا"
"ہاہا اچھا" وہ ہنستے ہوۓ باہر نکل گئی۔ ہر روز دو تین بار وہ جاتی تھی۔
زارش مریم کے ساتھ آکھڑی ہوئی اور یونی کی باتیں کرنے لگیں ۔ زارش کبھی عصبہ میں انٹرسٹ نہیں لیتی تھی نا اسکی معاملوں میں۔ اور مریم جانتی تھی کہ وہ کہا جاتی ہے کیونکہ کبھی کبار وہ بھی اپنی تشریف ساتھ لے جاتی تھی۔
کھانے کے بعد وہ باتیں کرنے لگ گئیں۔ عموماً مریم ہی بولتی تھی۔ اور پھر تینوں واک پہ چل دی ۔ ایک گھنٹہ ہلکی دھوپ میں سیر کرنا آہ۔ شام کی ٹھنڈ میں ایک دفعہ نکلی تھی واک پہ ۔ دس منٹ بعد یہ کہتے ہوۓ آگئیں "اف میری تو کلفی ہی بن گئ تھی"
واپس آئیں تو اپنی یونی کا کام کرنے لگی ۔ اور عصبہ غائیب ہوگئ۔ واپس آکر وہ سو گئ۔
زارش اور مریم سامنے والی یونی فیلو کے روم میں چلی گئ۔ اور تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد واپس آئی تو عصبہ سکارف اتار رہی تھی۔ "ارے بیگم! کھانے کے بعد کچھ خاص کریں؟" مریم سالن گرم کرتے ہوۓکہ رہی تھی۔
" جی کیوں نہیں ۔ خاص کریں گے نہ ۔ کل لاسٹ ڈیٹ ہے اسائمنٹ سبمٹ کرنے کی" عصبہ کھل کے ہنسی۔ مریم نے سر پہ اف والے انداز میں ہاتھ رکھا۔
"اوۓہوۓ! وہ کھڑوس سر تو ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں، کیا یاد کروادیا عصبہ تم نے" اور عصبہ کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر آئی۔
وہ تینوں بیٹھ کر لکھنے لگی۔ اور زارش نے موبائل پہ گانے لگا کہ کانوں میں ائرفون لگا لئے۔ جھومتے جاؤ لکھتے جاؤ۔
عصبہ کی اسائمنٹ کمپلیٹ ہوئی تو وہ لیٹ گئی۔ ایک دو گھنٹے بعد وہ اٹھی اور چلی گئی۔ وہ دونوں جیکیٹ پہنے بالکنی میں کھڑے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ "میں آتی ہوں" زارش جلدی سے کمرے میں آئی ۔ شیشے میں بال سیٹ کئے اور تیزی سے باہر نکل گئی۔وہ سیڑھیوں سے اتر رہی تھی تو اس کی ٹکر عصبہ سے ہوئی۔ وہ "سوری" کہتے ہوۓ آگے بڑھ گئی۔ اور عصبہ شانے اچکاتے ہوۓ اوپر آگئی۔
"یہ مس بیوٹی کس جلدی میں ہیں؟" وہ عباۓ سمیت بلکنی میں آگئی۔
"سیر سپاٹے کے لیے گئی ہوگی" مریم ہنس دی۔
"ہیں؟؟"
"یونی کوین کی دوڑ میں شامل ہیں"
"مطلب؟" عصبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
"خوبصورت لڑکی واک پہ نکلی ہیں ۔ اس ٹائم وہ جس کو کہےگی وہ اسے اسئمنٹ صاف رائٹنگ میں لکھ کے دےدےگا" اور مریم کی ہنسی بند ہی نہیں ہو رہی تھی۔
عصبہ بھی ہنسنے لگی کیونکہ زارش جس دھن میں لکھ رہی تھی ۔ ٹیچر تو اسے کچا چبا جاتی۔ اوپر سے اس کی خوفناک رائٹنگ ۔
"یہ دیکھ مری! ایک لڑکے نے لکھ کے دی ۔ اتنی سردی میں آدھے گھنٹے میں لکھ دی اس نے۔ بس ایک پکچر لی اس نے" زارش خوشی خوشی بتا دہی تھی ۔
عصبہ کے تمام تاثرات اڑھ چکے تھے ۔ اور وہ کچھ بڑبڑائی بھی تھی لیکن دونوں رائٹنگ دیکھنے میں مصروف تھیں۔ وہ واپس کمرے میں آئی ۔ کیک جوس کھا کر سو گئی۔
دو تین دن بعد جب مارک لسٹ آئی تو زارش کی خوشی کی انتہا تھی۔ پورے مارکز واہ۔ مریم اور عصبہ کا ایک ایک کٹا تھا۔ وہ تینوں چلتیں ہوئی جا رہی تھی جب عصبہ کی آنکھوں میں کچھ چبا ۔ ہر آنےجانے والا زارش کو مڑ کر دیکھ رہا تھا۔
"میں آتی ہوں" کہہ کر وہ کینٹین آگئی۔ وہ ابھی تک زارش کا ہی سوچ رہی تھی۔ اس کی سوچ میں دکان میں لگے ہوۓ پتلے نظر آرہے تھے۔ دوسری طرف نمائش لگاتی لڑکیاں ۔
"استغفراللہ چھوڑو عصبہ "
کوئی اسکے سامنے کرسی کھینچ کہ بیٹھ گیا ۔ "سنو" ۔ کوئی انگریزی میں مخاطب تھا ۔ لیکن عصبہ نے اگنور کیا۔ "تمہیں آکورڈ نہیں لگتاکور کرنا سب کے سامنے خود کو؟ تھکتی نہیں؟"
عصبہ نے جواب دینا ضروری سمجھا۔
"نہیں ۔ کیونکہ میرے اللہ نے جب میرا دل مظبوط کردیا ہے ۔ دل مظبوط اور سیدھے راستے پہ ہو تو اللہ سب آسان بنا دیتا ہے"
لڑکا خاموشی سے سنتا رہا اور پھر کچھ سوچنے لگا۔ عصبہ رخ موڑ کر بیٹھ گئی ۔
"نائس ۔ گریٹ" اور وہ چلا گیا۔ عصبہ مسکرا کر مینیوں کارڈ دیکھنے لگی ۔ اس سے بہت لوگ ایسے سوال کرتے تھے اور وہ سپاٹ ہوکر نرم لہجے میں جواب دے کر لا جواب کردیتی۔
کبھی کوئی دیکھ کر ہنستا تو جس کو جواب مل چکا ہوتا وہ خاموشی سے گزر جاتا۔ لیکن وہ ہمیشہ خوش رہتی ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سیدھے راستے پہ ہے۔
"یس یس شیور" زارش نے ہاں کردی۔ مریم منع کرنے لگی تھی کہ زارش نے اسکے پاؤں پہ اپنا پاؤں زور سے مارا۔ پارٹی ! انگریزوں کی پارٹی ، ناچ گانوں سے بھری، حرام چیزوں سے بھری۔ کس خوشی میں تھی یہ وہ نہیں جانتی تھی مگر مزا کرنے تو ضرور جاۓگی۔
یونی کی لڑکی نے عصبہ سے پوچھا لیکن اس نے صاف صاف منع کردیا۔
"بالکل نہیں ۔ یو انجوۓ!"
وہ دونوں تیار ہو رہی تھی ۔ مریم نے کرتا پجامہ پہنا اور زارش نے گٹنوں تک آتی فراک۔ عصنہ غائب تھی۔ اور پھر دونوں یونی چلی گئیں۔
ہال سجا ہوا تھا ۔ سائڈ پہ بار بنا تھا اور بیچ میں ڈانس کرنے کی جگہ۔ مریم اک لڑکی کے ساتھ گپے لگانے لگی تو زارش ڈانس فلور پہ چلی گئی۔
"ہاۓ! " کوئی ساتھ ناچ رہا تھا۔ زارش نے ان کی طرف دیکھا ۔ ایک لڑکا اور لڑکی ۔ وہ تینوں ڈانس کرنے لگ گۓ۔ " ڈرنک پیو گی؟" لڑکی نے پوچھا ۔ زارش نے ایک دو بار منع کیا لیکن پھر راضی ہوگئی ۔ گلاس اس کے لبوں کو چھوا ہی تھا کہ کسی نے اس کے ہاتھ گلاس چھین کہ میز پہ رکھا ۔ مریم اسے کھینچتے ہوۓباہر لے آئی ۔ وہ سخت غصے میں تھی۔ "یہ کیا کر رہی تھی تم؟ کوئی شرم حیا نہیں آئی؟" وہ اس پہ چیخ رہی تھی۔
زارش نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ یقیناً وہ شرمندہ نہیں تھی لیکن مریم ناراض ہو رہی تھی تو اسے معافی مانگنی پڑی۔
"اچھا سوری نا ہار کیا ہوگیا ہے" لیکن اس نے برا سا منہ بنایا اور کہنے لگی "واپس چلو ابھی اسی وقت" ۔
"ابھی تو۔۔۔۔" اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتی مریم نے مداخلت کی ۔ "کہا نا چپ چاپ چلو" اور آگے چل دی ۔ زارش کچھ بڑبڑاتے ہوۓ پیچھے چلنے لگی۔
واپس آئیں تو عصبہ سو رہی تھی اور مریم بھی لیٹ گئی جبکہ زارش گانے سننے لگی اور بتا نہیں کب اسے نیند نے آگھیرا۔ اس کو کسی چیز کی آواز آئی تو وہ جاگی ۔
"اوہ گانے تو بند ہی نہیں کئے" اور موبائل اوف کرکے لیٹ گئی۔
عصبہ کو کراہنے کی آواز آرہی تھی ۔ اس کی آنکھ کھل گئی ۔ ویسے بھی سردی میں کمبل کے بغیر لیٹ گئی تھی تو آنکھ کھل گئی۔ وہ کمبل لے کر دوبارہ سہ گئی۔ یک دم کسی کے چیخنے کی آواز آئی ۔ عصبہ اور زارش اٹھ کے بیٹھ گئی ۔ زارش نے فوراً لائٹ ان کی۔ وہ مریم تھی جو اتنی دیر سے کراہ رہی تھی اور اب سر پکڑے بیٹھی تھی۔ "مریم مریم کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو کیا ہوا؟' دونوں اس کی طرف لپکی۔
"میرا سر پھٹ جاۓگا یا اللہ" وہ رو رہی تھی۔ عصبہ نے اسے دودھ کے ساتھ پین کلر دیا۔
"اب ٹھیک ہیں؟" دونوں فکر مندی سے دیکھ رہی تھی ۔ زارش بہت زیادہ پریشان ہو رہی تھی۔ پاکستان میں بھی ایک دو بار یوں ہوا تھا۔
مریم کچھ کہے بنا لیٹ گئی ۔ اور کچھ دیر بعد سوگئی۔ وہ دونوں ابھی تک اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ زارش لیپٹاپ اٹھا کہ باہر آگئی۔ اور سکائپ پہ کال ملائی۔
"واقعی خالو اس کی حالت خراب تھی"
خالد صاحب کو فکر اور پریشانی نے آگھیرا۔ "مطلب اس کا ٹیومر صحیح نہیں ہوا؟اوہ خدایا اس کی حالت ناساز ہو جاۓگی وہاں "
عصبہ بھی باہر آگئی۔ زارش نے اسے بتایا کہ اس کا علاج کروایا تھا لیکن اب خالو اس کو واپس بلا رہے ہیں، کل شائد وہ چلی جاۓ۔
صبح تینوں نے چھٹی کرلی۔ خالد صاحب پچھلے ایک گھنٹے سے ان سے بات کر رہے تھے۔
"شام کی فلائٹ ہیں ۔ ضروری سامان پیک کر دینا اس کا زارش " زارش نے اثبات میں سر ہلایا۔ "اور ابھی میری دو بیٹیاں ہیں وہاں اپنا خیال رکھنا اچھے سے ۔"
فکر مند تو سب تھے۔ زارش اور عسبہ نے پیکنگ کی۔ مریم خاموش خاموش سی تھی۔
وہ اسے چھورنے ائرپورٹ گئیں۔ "ہم تمہیں مس کرینگے ۔" زارش کی آنکھوں میں آنسوں اگئے اور وہ اس کے گلے لگ گئی۔
"اللہ تمہیں جلدی سے ٹھیک کردے۔ خیال رکھنا" وہ دونوں سے گلے مل کر چلی گئی۔
کمرے میں آنے تک زارش روتی رہی ۔ آنکھیں تو عصبہ کی بھی گیلی تھی لیکن اس نے گلے لگ ک زارش کو ہمت دی۔ اور زارش خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی۔ "ہم دور کیوں تھے؟'" ایک سوال اس کے ذہن میں آیا۔
صبح وہ جلدی اٹھ گئی نیند ہی نہیں آئی تھیں۔ مریم کا مسیج آیا کے وہ پہنچ چکی ہے۔
زارش کو سکون کا سانس آیا۔ تبھی عصبہ اندر داخل ہوئی۔ "یہ کہاں آتی جاتی ہیں؟" وہ سوچ رہی تھی ۔ عصبہ کی چیزوں اس کی دلچسپی شروع ہوگئی تھی۔
زارش نے بتایا کے مریم پہنچ چکی ہیں۔ دونوں یونی میں بھی سات تھی اور ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہی تھی۔ آج وہ پیدل ہی آگئیں ۔ موسم اچھا تھا۔
زارش لیپٹاپ پہ کچھ کر رہی تھی تو اس نے عصبہ کو دیکھا وہ کلر پیپر پہ کچھ لکھ رہی تھی اور دیوار سے چسپا کردیا جہاں اور بھی بہت پیپر لگے تھے۔
"پتا نہیں کیاکیا کرتی ہیں یہ" وہ دوبارہ لیپٹاپ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ کچھ دیر بعد اس کے موبائل کی بیپ بجی تو وہ سکارف لیتی ہوئی باہر نکل گئی۔
"آج پتا لگاتی ہوں میں" وہ اس کے پیچھے خاموشی سے لپکی۔
وہ سیڑھیاں اتر کر بیسمنٹ کی طرف جا رہی تھی ۔ زارش قدم آہستہ آہستہ رکھ رہی تھی۔ وہ پہلے کبھی بیسمنٹ میں نہیں آئی۔ وہاں دو کمرے تھے ۔ عصبہ ایک کمرے میں گھس گئی۔ دو منٹ بعد زارش اس کمرے کی طرف آئی۔ ایک پہ لکھا تھا "christan prayer room" اور جس میں عصبہ گئی تھی اس پہ لکھا تھا "Muslim prayer room"۔
زارش منہ کھولے پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اندر داخل ہوگئی۔ صاف ستھرا قالین اور ایک شیلف جس پہ یقیناً قرآن مجید پڑا تھا۔ تو وہ یہاں آتی ہیں نماز پڑھنے۔
وہ واپس اوپر آگئی۔
دونوں اپنی پڑھائی کرنے لگ گئی۔ زارش تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس پہ نظر ڈالتی رہتی۔ وہ کلر پیپر پہ کچھ لکھ کر دیوار سے چپکا رہی تھی۔ "ہوں! یہ بھی جان جاؤں گی" اس نے سوچا اور کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد عصبہ سو گئی۔
"کتنا سوتی ہےیہ" ۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔
اٹھی تو وہ باہر چلی گئی اور پھر زارش کو لےکر یوہی باہر نکل گئی۔
"چپ چپ کیوں ہو؟" عصبہ نے اس کی خاموشی محسوس کی تھی۔
"نہیں مریم کے بارے میں سوچ رہی تھی" ۔ زارش کی نظر سامنے آئس کریم کی دکان پہ پڑھی تو چہک اٹھی۔
"عصبہ ٹھنڈ میں آئس کریم کھانے کا مزا جانتی ہو؟"
"ہیں؟" زارش مسکراتے اس کو دکان میں لے گئی۔
ٹھنڈی آئس کریم کا واقعی ٹھنڈ میں کھانے کا الگ مزا ہیں ۔ سرخ ہوتی ناک اور منہ کے ساتھ وہ آئس کریم کھا رہی تھی۔ اور زارش کے ہنستے ہنسے آنسو نکل آۓتھے۔
وہ تقریباً ایک گھنٹہ یوہی پیدل گھومتی رہی باتیں کرتی رہی۔ اور واپس آکر عصبہ سو گئی۔ "اف کتنا سوتی ہے یہ"
الارم ابھی بجا ہی تھا کہ عصبہ اٹھ گئی۔ فجر ہونے میں آدھا گھنٹہ تھا۔ زارش سو رہی تھی۔ وہ واشروم سے ہو کر بیٹھ کے قرآن پڑھنے لگی۔
تبھی زارش کے موبائل کی بیپ بجی اور وہ اٹھ بیٹھی ۔ آنکھ تو تب ہی کھل گئی تھی جب عصبہ کا الارم بجا تھا۔ وہ بیٹھ کے عصبہ کو دیکھنے لگی وہ قرآن پڑھ رہی تھی۔
"تو اس لئے وہ سوتی ہے کہ صبح اٹھ سکے۔ فجر کے لئے" جواب مل گیا تھا۔ بعض دفعہ ہم لوگوں کو پہچاننے میں دیر کر دیتےہیں۔ عصبہ قرآن بند کرکے اٹھی تو اسے اپنی طرف دیکھتا پایا۔ "سوری تم میری وجہ سے اٹھ گئی"
"کیا پڑھ رہی تھی؟" وہ کچھ اور سننا چاہتی تھی۔
"تمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟" وہ بھی کچھ اور ہی سمجھا رہی تھی۔
زارش نے ناسمجھی سے دیکھا " چمکتی ہوئی چیز"
"نائس۔ میں ابھی قرآن پڑھ رہی تھی۔ سورہ المطففین میں میں نے فاجر اور ابرار کا لفظ پڑھا۔ فجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا ہے۔ اور فجر کو فجر اس لئے کہتے ہیں کے وہ سارے آسمان پر نمودار ہو جاتی ہیں۔اور فاجر وہ شخص ہے جو وسیع پیمانے پر دین کی نافرمانی کرنے والا ہو اور ہر وقت گناہوں میں منہمک ہوں۔اس کے مقابلے میں ابرار ہیں۔ بر کے معنی نیکی اور وسیع خشک زمین کے ہیں۔ جب کوئی نیکی کا موقع آۓ اور ایک انسان اسے فوراً انجام دیدے۔ بر کی جمع ابرار ہیں۔
اور فجر کے اس ٹائم نیند چھوڑ کر اللہ کے لئے اٹھنا کتنا فائدہ مند ہیں"
وہ بنا پلک جھپکے اسے سن رہی تھی۔ ایسی اچھی دین والی باتیں زارش نے کیوں نہ سنی کبھی۔ عصبہ مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مسکرا بھی نا سکی ۔ ملال۔ ملال۔ ملال۔ ضمیر اسے سنا رہا تھا۔ آنکھوں میں بہنے کے لئے سمندر تیار ہو رہا تھا۔
زارش کا فون بجنے لگا تو وہ ہوش میں آئی۔ اور فون اٹھایا ہی تھا ک بند ہوگیا۔ دو تین مسج تھے۔ اور انھیں پڑھ آنکھیں بھیگ گئی۔
"کیا ہوا؟" عصبہ اس کے پاس آبیٹھی۔
"مریم کا آپریشن شروع ہونے والا ہے اور ٹھیک ہونے کے چانسس ۵۰٪ ہیں ۔ وہ کہہ رہی ہیں دعا کرنا" اور وہ رو دی۔ اور عصبہ نے گلے سے لگا کہ چپ کروایا۔ آنکھیں اس کی بھی بھر آئیں ۔ "بیپ" عصبہ کا موبائل بھی بجا۔
"تو پھر چلیں؟"
"کہا؟" زارش کی سمجھ میں نا آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
" دعا منگنے ۔ فجر کا وقت ہو رہا ہے۔ نماز پڑھ کے اللہ سے دعا کرینگے۔ دن میں کئی بار"
زارش نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔ اور وضو کرنے چلی گئی۔ ناجانے کتنوں دنوں بعد وہ نماز پڑھ رہی تھی ۔ دن ، مہینے ، یا سال؟ ۔
اسنے پورے بازوؤں والی شلوار قمیض پہنی اور مریم کی چادر اوڑھ لی۔ عصبہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ کچھ لوگ یوہی خوبصورت لگتے ہیں۔
"چلیں؟" زارش دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
"کہاں؟"
"نیچے نماز پڑھنے نہیں جاتی تم؟" زارش الجھ گئی۔
"وہ تو اس لئے جاتی تھی کیونکہ تم لوگ بیٹھے ہوتے تھے تو ڈسٹرب ہوجاتی تھی۔ اب جب ہم دونوں پڑھ رہہےہونگے تو ڈسٹرب کیسے ہونگے۔" ۔ عصبہ نے جاۓ نماز بچھائی اور نماز شروع کردی۔ زارش کا نماز پڑھتے ہوۓ دل بھر آیا اور وہ رونے لگی۔ روتے روتے ہی دعا مانگی۔ عصبہ نے دخل نہیں دیا۔کبھی کبھی خاموشی بہتر ہی ہوتی ہیں۔
یونی بھی وہ اسی کپڑوں میں چلی گئی۔ دل نہیں کیا بدلنے کا۔
"ہم ظہر کی نیچے پڑھ لیں؟" واپسی پہ عصبہ نے کہ دیا۔
"ہاں فریش ہو کر چلتے ہیں" وہ دونوں مسکراتے ہوۓ کمرے میں آگئی۔
نماز پڑھنے کے بعد وہ وہی بیٹھ گئی۔ "آپریشن ختم ہوگیا ہوگا؟" عصبہ نے پوچھا۔
"ایک گھنٹہ رہتا ہیں، پتہ نہیں کیا ہوگا۔۔۔" اور وہ ہاتھ منہ پہ رکھے دعا کرنے لگی۔
"یا اللہ اسے ٹھیک کردیں ۔ میں ساری نمازیں پڑھوں گی ہمیشہ ۔ اور قرآن بھی۔ اور جینز بھی نہیں پہنوںگی۔آئی پرامس" اور وہ بولتی جا رہی تھی۔
واپسی پر اوپر جانے کی بجائے وہ باہر آگئیں۔
"تم وعدہ خلافی کرتی ہو؟" عصبہ نے اس سے پوچھا۔
"آہ! نہیں ۔ کیوں؟"
"اب تمہیں ہمیشہ وہ کرنا ہیں ہے جس کا تم نے اللہ سے وعدہ کیا ہے"
اور زارش سمجھ گئی کہ وہ ابھی دعا میں کیا مانگ کہ آئی ہیں ۔ "کوشش کروں گی"۔

مریم ٹھیک ہو چکی تھی ۔ اللہ کا کرم سے۔ اور تقریباً ایک مہینے بعد اس نے واپس آجانا تھا۔
زارش اب یونی جاتے ہوۓ شلوار قمیض پہنتتی تھی اور لوگوں سے مخاطب بھی نہیں ہوتی تھی۔ نماز اور قرآن کے لئے عصبہ تھی الارم کی طرح ۔ اب بھی وہ کبھی کبار گانے سن لیتی تھی۔ یعنی ابھی دل مکمل نہیں بدلا تھا۔
دو تین ہفتے بعد کی بات ہے زارش باتھروم میں جارہی تھی تبھی اس کی نظر عصبہ کی دیوار پہ پڑھی۔ اور وہ ان نوٹس کو پڑھنے آگئی جو عصبہ چپکاتی تھی۔ (عصبہ باہر ایک لڑکی سے نوٹس ڈسکس کر رہی تھی) ۔ وہ پڑھنا شروع ہوئی۔
" جب دل سیدھے راستے پہ ہوں تو لوگوں کے باتیں معنی نہیں رکھتی"
"تلواروں کے زخم بھر جاتے ہیں ، لفظوں کے نہیں "
"سوچا تھا سکون دہ زندگی تھی ، غفلت سے نکلی تو جانا سکون کیا ہے"
"مجھے گانے سنتے ہوۓ ڈر لگتا ہے کہ اگر سنتے ہوۓ مجھے موت آگئی تو کتنی عبرتناک موت ہوگی جو اللہ کے نام پہ نہیں حرام میوزک پہ ہوگی۔ خوفناک"۔ باقی کاغذوں کے نسبت یہ بڑے سبز کاغذ پہ لکھی تھی۔ زارش ٹکر ٹکر اسے دیکھ رہی تھی۔ کیا اعلیٰ بات لکھی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ فوراً باتھ روم بھاگ گئی۔
"
ہیلو زارش کہاں ہو؟" عصبہ فون پہ تھی۔ (دو دن بعد کی بات ہے)
"مارکٹ آئی ہوں کچھ چاہئے تو بتا دو" ۔ وہ روڈ پہ چل رہی تھی۔یونی سے واپسی پہ وہ شاپنگ کرنا چاہتی تھی۔ چاکلیٹ کی شاپنگ۔ عصبہ کے سر میں درد تھا اس لئے وہ چھٹی پہ تھی۔
"نہیں میں خود باہر ہی آئی ہوں ۔ اصل میں میں دوائی لینے آئی تھی تو روم کی چابی ساتھ ہی لے آئی ۔ چلو میں تو جلدی چلے جاؤں گی ۔ اللہ حافظ"
باہر نکلتے وقت وہ کانوں میں ائر فون لگا لیتی تھی ۔ (موبائل کون سنبھالے)۔
روڈ پہ چلتے ہوۓ اس نے گانے لگ لئے۔ گانے کی دھن پہ سر ہلاتے ہوۓ روڈ کراس کر رہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا سگنل کھلا تھا یا بند۔ اور زن سے آتی گاڑی سے اس کی زور دار ٹکر ہوگئی اور وہ روڈ پہ اوندھے منہ گر پڑھی۔ ایک زور دار چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ اسے جسم سے کچھ نکلتا محسوس ہوا ۔ پانی ہاں شائد پانی ہی تھا ۔ سرخ رنگ کا۔
کانوں میں ایک دھن چل رہی تھی اور ایک سبز کاغذ جھماکے سے اسکے سامنے آگیا۔
"مجھے گانے سنتے ہوۓ ڈر لگتا ہے کہ اگر سنتے ہوۓ مجھے موت آگئی تو کتنی عبرتناک موت ہوگی جو اللہ کے نام پہ نہیں حرام میوزک پہ ہوگی۔ خوفناک"۔ وہ کان سے کچھ نکالنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہ ہوئی۔ "یا اللہ" ۔ اور دنیا جیسے ختم ہی ہوگئی۔ کوئی اسکی طرف بڑھ رہا تھا ۔ کیا ہو رہا تھا کچھ پتا نہیں۔
"ہیلو ! یہ نمبر جس کا ہے اس کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے ۔ لاسٹ نمبر آپکا تھا ۔ آپ اس ہسپتال آجائے" اور عصبہ کے ہوش و حواس اڑھ گئے۔ وہ ابھی پہنچی ہی تھی اور اس نے باہر کی طرف دوڑ لگادی۔
"وہ ٹھیک ہیں؟" پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ آئی سی یو میں تھی۔ جس کی گاڑی سے ایکسڈنڑ ہوا تھا وہ اسے ہسپتال لے آیا اور خرچہ بھی اٹھایا۔ عصبہ رو رو کے دا مانگ رہی تھی تب سے۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکڑر باہر آئے تو وہ اس کے بارے میں پوچھنے لگی۔
" وہ خطرے سے باہر ہے مگر بےہوش ہے۔ کچھ دیر تک ہوش آجاۓگا ۔ لیکن آج ملنے نہیں دے سکتے۔دو تین دن یہے رکھنا پڑے گا" لیڈی ڈاکڑر اس کا کندھا تھپکتے ہوۓ چلی گئی۔
" اوہ خدایا تیرا شکر ہے" ۔ وہ اللہ کا ہزار دفعہ وہی بیٹھی شکر ادا کرتی رہی۔

پاکستان کسی کو کچھ نہیں بتایا ۔ اس نے نہ جھوٹ بولا نا سچ۔ جب کوئی فون آتا کہہ دیتی ابھی میرے ساتھ نہیں ہیں۔ یونی سے لیو لے لی تھی۔ اور یہی ہسپتال میں رکی تھی۔
اگلے دن اس کو ملنے کی اجازت دی۔ وہ اس کے لیے پھول لے کر آئی تھی۔
سر پہ بندھی پٹی۔ خاموش چہرا۔ ویران آنکھیں۔
اسے نرس نے بتایا تھا کہ باہر اس کی فرنڈ رکی ہے کل سے۔ ہوش میں آنے کے بعد سے وہ اک لفظ بھی نہیں بولی۔ بول ہی نہ سکی۔ وہ دوسری طرف منہ کئے لیٹی تھی۔
"کیسی ہو زارش؟" ۔ لیکن اس نے جواب نہ دیا۔
"زارش؟"۔ اسکا کندھا ہلایا اور وہی بستر پر بیٹھ گئی۔
وہ اس کی طرف مڑی لیکن خاموش ہی رہی۔ عصبہ اسے دیکھتی رہی۔
"میں نے بہت دیر کردی ۔ " خاموشی ٹوٹ گئی۔ ویران آنکھیں چھت کو گھور رہی تھیں۔
"مجھے سزا ملی ہے عصبہ ۔ سزاا۔ اگر میں مر جاتی تو؟"
عصبہ کا دل چاہاکہ دے "ایسی باتیں نا کرو" لیکن اسے لگا اسکے بولنے سے یہ منظر غائب ہوجاۓگا۔
"کتنی خوفناک موت ہوتی میری۔ عبرتناک ۔ " ایک سیلاب سا بہنے کی تیاری پکڑ رہا تھا۔
"میرا ضمیر مجھے برا بھلا کہتا ہیں اور اب تو میں بھی خود کو برا کہتی ہوں ۔ میں نے کیوں کی اتنی غلطیاں؟ اب میرا کیا ہوگا؟ میں ویسی نہیں بن سکتی جیسی تھی۔ تم جیسی ہونا چاہتی ہوں ۔ اپنے اللہ کی بندی۔ لیکنا میں نے بہت گناہ کئے ہیں" اور سیلاب بہ گیا اور بہتا ہی گیا۔
عصبہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور تھپکایا۔ " اللہ کو اپنا کہتی ہو اور اسے جانتی نہیں؟"
زارش چپ ہوکر اسے دیکھنے لگی۔ عصبہ مسکراتے ہوۓ کہنا شروع ہوئی۔
"اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہت مہربان ہیں ۔ رحمان ہیں رحیم ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ جب اسکا بندہ غلطی کرکے اس کی طرف لوٹتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہیں ۔ جب وہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو وہ معاف کردیتا ہے۔ تم بھی سچے دل سے توبہ کرو معافی مانگوں ۔ ہمارا رب بہت عظیم ہیں زارش" ۔
آنسو پھر گرنے لگے۔ " سبحان اللہ۔ میں ہر لمحہ مانگو گی اپنے گناہوں کی توبہ۔ میں۔۔۔۔۔۔" وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن آنسوؤں نے اجازت نا دی۔
نرس اندر آئی اور زارش کو انجکشن لگایا۔ عصبہ کو باہر جانے کے لئے کہ دیا ۔ زارش کو آرام کرنے کا کہ کر وہ باہر آگئی۔
" مجھے معاف کردے یا رب۔ میں اپنی گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔ میں غلط راستے پہ چل رہی تھی ۔ آپ نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا۔ مجھے معاف کردے۔" وہ ناجانے کتنی دیر رو رو کر معافی مانگتی رہی۔ سر میں درد سا اٹھ رہا تھا اور آنکھیں سوج گئی تھی۔ ناجانے نیند نے اسے کب آگھیرا۔
"یہ تمھارے لئے۔" اسے گھر آۓ ہوۓ چند دن ہو گئے تھے ۔ شائد وہ پہلی بار آئی تھی۔ یہ کوئی اور تھی ، پرانی زارش تو مر چکی تھی۔
عصبہ اسکے لئے عبایا اور موبائل لائی تھی۔ پرانا والا تو اس نے ہاسپٹل میں ہی دیوار میں دے مارا تھا۔
"ہاۓ عصبہ ۔ بہت شکریہ ۔ مجھے اسکی ضرورت تھی" وہ اس سے لپٹ گئی۔ اور فوراً عبایا پہن لی۔ "کیسا لگ رہا ہیں؟"
"ایک موتی سپی میں کیسا لگتا ہیں؟ بہت خوبصورت لگ رہی ہے یہ زارش" ۔ دونوں مسکرںے لگ گئی۔ دونوں نے عبایا پہنا اور باہر نکل گئی۔ مریم واپس آرہی تھی آج۔
"ماشاءاللہ ۔ " مریم کی نظر زارش پہ پڑھی تو اسکے لبوں سے نکلا۔
اسے یہ سب جان کے بہت خوشی ہوئی۔
"اللہ مجھے بھی تم دونوں جیسا بنا دے"
"آمین۔" دونوں ساتھ بولی۔
"پہلی کوشش تمہیں ہی کرنی ہوگی" عصبہ مسکراتے ہوۓ کہ رہی تھی۔
"تم لوگ مدد کروگے نا۔" مریم مسکراتے ہوۓ انھیں دیکھ رہی تھی جو حسین تھی۔ حسین۔
"ہاں انشاءاللہ ضرور۔"

"ڈاکٹر زارش" ۔ ڈاکٹر عصبہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔اور اسکی شکل دیکھی۔
"اوہو! پاسٹ یاد کرکے رو رہی ہو۔ اب تو اتنے سال ہوچکے ہیں"
"غلطیاں یاد رہیں تو دوبارہ نہیں ہوتی" آنسو صاف کرتے ہوۓ اسنے یہی بات لکھ کر اپنے کمرے کی دیوار پہ لگادی۔ دل کی باتیں آنکھوں کے سامنے رکھنا اس نے عصبہ سے سیکھا تھا۔ وہ آنسوں صاف کرچکی تھی۔
"ڈاکٹر بیگمات!" ڈاکٹر مریم عباۓ میں کھڑی ہنستے ہوۓ انھیں دیکھ رہی تھی۔
"بھول گئیں؟ ہمیں پانچ منٹ میں نکلنا ہیں یتیم خانے کے لئے، فری علاج کے لئے ، بچوں کی مسکراہٹوں کے لئے"۔ اور اس کے انداز پہ وہ دونوں ہنسنے لگیں۔
"میں تو تیار ہوں یہ آپکی بیگم۔۔۔۔۔" عصبہ بھی عبایا پہنے ہی کھڑی تھی اور اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی زارش نے بات کاٹ دی۔ " بس ایک منٹ عبایا پہن لوں پھر چلتے ہیں خوشیاں بکھیرنے" ۔ تینوں مسکرانے لگیں۔ واقعی زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔

<>><>< ختم شد<><><>

Amna Shafiq
About the Author: Amna Shafiq Read More Articles by Amna Shafiq: 14 Articles with 19647 views I'm a Student. I love to read novels . And i like to write too just so i can share my words with world... View More