حج و عمرہ کے موقع پر خادمِ حرمین شریفین کی لوٹ کھسوٹ اور ہماری خاموشی؛ ایک لمحۂ فکریہ

حج کے مبارک مہینوں میں پھر آیا موسم لوٹنے کا

اخبارات میں ہندوستان سے عازمینِ حج کی پہلی فلائٹ سے متعلق خبریں بھی آنے لگی ہیںاور ویسے بھی ماہِ شوال و ذی القعدہ سے ہی حج کے مبارک سفر کی تیاریاںکی جانے لگتی ہیں، اسی لیے ان کا شمار اشہرِحج میں کیا جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللہُ، وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى، وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ﴾حج کے مہینے مقرر ہیں، اس لیے جو شخص ان میں حج لازم کرے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ نہ کرنے ، گناہ کے کرنے اور جھگڑا لڑائی کرنے سے بچتا رہے اور تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہترین توشہ اللہ کا ڈر ہے اور اے عقل مندو مجھ سے ڈرتے رہو۔(البقرۃ:۱۹۷)امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓسے جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کی ہے کہ اس آیت میں اشہرِمعلومات سے مراد شوال، ذی القعد ہ اور عشرۂ ذی الحجہ ہیں۔(تفسير ابن كکثير:۱؍۵۴۱)

شوال سے قبل رمضان المبارک کے مہینے میں بھی حرمین شریفین کے زائرین کی تعداد میں روز افزوں رہتی ہے، اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی بہت فضیلت ارشاد فرمائی ہے۔ایک روایت میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا (ثواب کے اعتبار سے)حج کے برابر ہے۔(ترمذی:۹۳۹) بلکہ بعض روایات میں تو یہاں تک مروی ہے کہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنا رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (ابوداؤد: ۱۹۹۰)اسی لیے اہلِ ثروت او باتوفیق حضرات ان فضیلتوں کو حاصل کرنےکی کوشش کرتے ہیں، اسی کا ثمرہ ہے کہ امسال ماہِ رمضان المبارک اور عید الفطر کے پہلے چند دنوں میں26 ملین یعنی دو کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ زیارت و عمرہ کے شرف سے مشرف ہوئے۔ مکہ مکرمہ کے گورنر خالد الفیصل کے مشیر اور مکہ کے شہری ترقی کے جنرل سپر وائزر ہشام الفالح نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس تعداد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 4.6%کا اضافہ ہوا۔

حج تو اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے، جس کی فضیلت و فرضیت پر قرآن و حدیث میں وافر مقدار میں مواد موجود ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم عبادت ہے، جس کے ادا کرنے کے لیے اہلِ ایمان کے دل مچلتے ہیں۔ اس ایک عبادت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جسمانی، روحانی اور مالی ہر طرح کی عبادتوں کو جمع کر دیا ہے، اس عبادت کے ذریعے جہاں مسلمان ایک طرف اپنی موت کو اور میدانِ حشر کی تمثیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے، جس سے دنیوی لذتیں کم ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف محض اللہ کی رضا کے لیے اس کے ارکان کی ادایگی میں جسمانی طور پر خود کو تھکاتا نیز اس کے لیے زندگی بھر کی جمع پونجی کو نچھاور کر دیتا ہے۔ یہ عبادت خاص شرائط سے مشروط ہے، جس میں مکان و زمان کی قید بھی ہے کہ طے شدہ زمانے اور جگہ کے علاوہ اس کو کبھی اور کہیں ادا نہیں کیا جا سکتا،چناں چہ صرف صاحبِ استطاعت حضرات ہی مخصوص وقت میں اس عبادت کو دیار حرم میں حاضر ہو کر انجام دے سکتے ہیں۔اس عبادت کی انجام دہی زمین کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کے لیے جغرافیائی احوال و وسائل کے اعتبار سے مختلف نوعیت کی حامل ہے، فی زمانہ اس عبادت کو پورا کرنے کے لیے جس تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جس کی دو اہم وجوہات ہیں؛ ایک تو بڑھتی آبادی اور دوسرے اسباب و وسائل کی کثرت۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی احسان ہے کہ اس قدر تعداد کے بڑھنے کے باوجود اسباب و وسائل میں بھی اس کریم مولیٰ نے اس قدر برکت دے دی کہ آج نظم وانتظام کے اعتبار سے یقیناًحالات پہلے سے بہتر ہیں۔ حرمِ مقدس کی توسیع ، مطاف میں عالیہ اور سافلہ کی درجہ بندی اور مسعیٰ میں معذورین کے لیے مناسب نظم ، جمرات میں تہہ دار گذرگاہیں، فائر پروف خیمے ، منیٰ و مزدلفہ کے لیے ریلوے نظم۔۔۔یہ سب وہ سہولیات ہیں جن پر ہر عازم خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہے اوراس کے لیے وہاں کی حکومت کی بھی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بادشاہِ وقت ہمہ وقت جس طرح حرم کی توسیع کے منصوبے بروئے کار لاتا رہا ہے وہ لائقِ صد آفریں ہے،البتہ ایک اہم مسئلہ ان حاجیوں کی رہائش کا ہے جو خواتین کے ساتھ سفر پر جاتے ہیں ، ان کے لیے رہائش کے طور پر جو جگہیں طے کی جاتی ہیںوہ پردے کے التزام اور تعداد کے اعتبار سے آرام و راحت کے لیے کافی نہیں ہو تی ، ضرورت ہے کہ ایسے حاجیوں کے لیے مناسب رہائش گاہ کا ، جس میں پورے طور پر پردے کا اہتمام اور کشادگی ہو انتظام کیا جائے، اسی طرح پروازوں کے معاملہ میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔یہ بات درست ہے کہ سعودی حکومت کے زمانۂ اقتدار میں حج کی سہولیات میں بہتری آئی ہے اور اس میں بحمداللہ روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے ،ہماری دلی دعا ہے کہ آگے بھی شرعی احکامات میں گنجائش کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حج مشن میں ہمیشہ ایسی سہولیات فراہم کی جاتی رہیں، جن سے حج کا یہ مبارک سفر آسان سے آسان تر ہوتا رہے، ہاں وہ سہولیات جو اس عظیم عبادت کی روح کو ہی ختم کر دیں، ان کا یہاں نہ ہونا ہی سب کے حق میں بہتر ہے۔

مضمونِ ہٰذا میں جس اہم بات کی طرف ہم اپنے قارئین اور صاحبِ امر کی توجہ دلانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہر سال سفرِ حج کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عازمین میں متوسط و مناسب رہائش گاہوں کو چھوڑ کر مہنگے ہوٹلوں میں رہنے کا رواج عام ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے اصل پریشانی ان حضرات کو ہو تی ہے جو اس قدر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے،امیروں کی طرف سے زیادہ رقم دے کر حرمِ مقدس کے قریب رہائش گاہیں بُک کروا لی جاتی ہیں جب کہ معذورین کے پاس اتنی وسعت نہ ہونے کے باعث انھیں دور دراز مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے، بہت سے لوگ موٹی رقم دے کر منیٰ تک میں اپنے لیے علاحدہ خیمے لگوا لیتے ہیں ،جس کا منفی اثر اس طرح کے اخراجات برداشت نہ کرسکنے والوں پر پڑتا ہے۔علاوہ ازیں جو بات بہت پریشان کُن ہے وہ یہ کہ حج کے موقع پر حکومتِ سعودیہ کی طرف ہر چیز میں غیر معمولی اضافہ کر دیا جاتا ہے،جیسا کہ رضا اکیڈمی کی جانب سے سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز سمیت 61اسلامی ممالک کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہےکہ خود کو خادم الحرمین کہلانے والے کس طرح حجاج اور معتمرین کا خون چوس رہے ہیں۔رضا اکیڈمی کے بانی الحاج محمد سعید نو ری کے مطابق عام دنوں میں ہندوستان سے جدہ جانے والے مسافر کو سعودی ایئرلائنز 17000 روپیے میں ریٹرن ٹکٹ دیتی ہے مگر عمرہ کے لیے یہی کرایہ 17000 سےبڑھا کر 35000اور 45000 تک کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح حج کے ایام میں سعودی ایئر لائنز حجاج سے ٹکٹ کا 65000 روپیہ وصول کرتی ہے۔ مکہ سے مدینہ جانے کے لیے عام دنوں میں 30 سے 40 ریال لیے جاتے ہیں، مگر حج کے ایام میں یہی کرایہ بڑھا کر 180 ریال کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح فلائٹ سے جدہ سے مدینہ جانے کے لیے عام دنوں میں 140 سے 180 ریال سعودی ایئر لائنز وصول کرتی ہے، مگر حج کے دنوں میں اسے بھی بڑھا کر 450 سے 500 ریال کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح عام دنوں میں ویزے کی فیس 25000 سے 35000 روپیے سعودی کونسلیٹ وصول کرتی ہے اور حج کے ویزے کے لیے اسے بڑھاکر50000 سے75000تک کر دیا جاتا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت اس معاملے میں مسلمانوں کے دینی جذبات کا بھرپور فایدہ اٹھا رہی ہے اور اس نے گویا اس حج و عمرے کی عظیم عبادت کو تجارت بنا دیا ہے، تعجب تو اس بات پر ہے کہ خدا جانے کس مصلحت کے تحت اس کے خلاف ملکی و عالمی پیمانے پر کام کرنے والی تنظیمیںصدائے احتجاج بلند نہیں کرتیں۔ ایک مسلمان کس طرح زندگی بھر اپنی خون پسینے کی کمائی سے ایک ایک روپیہ جوڑ کر جمع کرتا ہے، تب جاکر اسے اس مبارک دیار کی زیارت نصیب ہوتی ہے، کتنے بچارے تو اس لوٹ کھسوٹ کے سامنے ہتھیار ڈال کر صرف آرزوئیں اور تمنائیں لیے اپنی قبروں میں جاکر سو جاتے ہیں اورایک مہتم بالشان فریضے کی ادایگی پر امت کا یوں اجتماعی خون کیا جاتا رہتا ہے۔ یہاں یہ عذر بھی نہیں چل سکتا کہ خادم ِ حرمین شریفین اس سے ناواقف ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو انھیں اس عظیم منصب پر باقی رہنے کا کوئی حق ہی نہیں بنتا ۔ یہ نام نہاد خادمین حرمین شرفین آلِ سعودکا محض ایک لقب نہیں بلکہ یہ وہ اتھارٹی ہے جو کہ انھیں ان مقامات کی زیارت کرنے کی اجازت دینے یا نا دینے کا مجاز بناتی ہے اور ہر سال تقریباً 40لاکھ مسلمان صرف حج کے موقع پر ان کے اس ظلم کو برداشت کرتے ہیں۔ ہم نے اس سے قبل اس طرح کے موضوعات پر خامہ فرسائی سے مندرجۂ ذیل احادیث کے بموجب گریز کیا؛

*قال رسول اللہﷺ: أحبوا العرب لثلاث : لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربي ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین اسباب کی بنا پر تمھیں عرب سے محبت رکھنی چاہیے؛ ایک تواس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں، دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے ۔(مجمع الزوائد: ۱۶۶۰۰، طبرانی کبیر: ۱۱۴۴۱)

*عن واثلة بن الأسقع يقول، سمعت رسول اللہﷺ يقول: إن اللہ اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى قريشا من كنانة، واصطفى من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم۔واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا؛ اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل میں سے کنانہ کو اور ان میں سے قریش کو اور ان میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا ہے۔(مسلم: ۲۲۷۶)

عن سلمان قال، قال لي رسول اللہﷺ: يا سلمان! لا تُبغضني، فتفارق دينك۔ قلت: يا رسول اللہ كيف أبغضك، وبك هدانا اللہ! قال: تبغض العرب، فتبغضني۔حضرت سلمانؓکہتے ہیں مجھ سے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اے سلمان مجھ سے بغض نہ رکھنا ورنہ دین سے ہاتھ دھو بیٹھو گے، میں نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسول میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتا ہوں حالاں کہ آپ کے ذریعے اللہ نے مجھے ہدایت فرمائی ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم عربوں سے بغض رکھو گے تو گویا مجھ سے بغض رکھو گے۔(ترمذی: ۳۹۲۷)

باوجود اس کے اب جب کہ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے اور بات ہماری کوئی ذاتی بغض و رنجش کی نہیں، ہم تو مندرجۂ بالا احادیث کی بنا پر قلبی طور پر عربوں سے محبت رکھتے ہیں،اس لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرتے ہوئے، یہ دردمندانہ تحریر سپردِ قلم کر رہے ہیں، اس امید پر کہ کاش یہ تحریر کسی ہلچل کا سبب بنے اور مظلوم مسلمانوں کی طرف سے ایک حق ادا کیا جا سکے۔مملکتِ سعودیہ عربیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی بنیادی صفات ملحوظ رکھیںاور عبادت کو تجارت میں تبدیل کرنے سے گریز کریں۔ ہم نے کتابوں میںپڑھا ہے کہ جود و سخا تو عربوں کا بنیادی وصف ہے، پہلے زمانے میں اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک ہی اونٹنی ہوتی تو مہمان کی آمد پر وہ اسے بھی ذبح کر دیتا، بعض لوگ انسانوں کو تو کیا جنگلی جانوروں اور پرندوں کو بھی کھلاتے تھے۔ حاتم طائی کی سخاوت زبانِ زد خاص و عام تھی اور اس کی مثالیں اب تک بیان کی جاتی ہیں۔ (سیرۃ النبی للصلابی: ۱؍۹۴)تو کیا وجہ ہے کہ آج خدا کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتیاں کی جا رہی ہیں؟ایک تو حج کے معاملے میں عازمین کو صرف حکومت کا ہی درد نہیں بلکہ اور بھی درد ہیں اس زمانے میں! آج کل ٹورس اینڈ ٹراویلس والے بھی اس معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ ان میں ذرا خدا کے مہمانوں کی خدمت کا جذبہ نہیں رہا بلکہ وہ تو موٹا نفع کمانے کے لیے ہی اس میدان میں آتے ہیں۔ان کی طرف سے کہیں عازمین سے سیاست دانوں کے سے وعدے کیے جاتے ہیں اور کہیں جھوٹ و دغابازی تک سے کام لیا جاتا ہے۔اب تو حج کی ادایگی سے متعلق محکمات میں رشوت جیسی ملعون باتیں بھی رواج پا گئی ہیں۔ان سب کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آج مسلمانوں میں دنیوی مال و متاع کے سامنے متاعِ آخرت کی قدر کم ہو گئی ہے۔ ہم مملکتِ سعودیہ اور ان سے وابستہ حضرات سے التماس کرتے ہیں کہ خدارا غور کیجیے کہیں ان سب کے باعث آپ اللہ کے بندوں کو اس کے عظیم فریضۂ حج سے محروم کرنے کا سبب تو نہیں بن رہے!وما توفیقی الا باللہ
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 306477 views (M.A., Journalist).. View More