بچپن کا کراچی

جب ہم بچپن کے کراچی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ 1960کے عشرے کی بات ہے جب کراچی کی آبادی 30لاکھ تھی اور اب اس کی آبادی 2کروڑ30لاکھ ہو گئی ہے یعنی پچھلے 50برسوں میں دو کروڑ کا اضافہ ہوا ہے ۔پوری دنیا میں کراچی شاید وہ منفرد شہر ہے ہے جہاں پانچ عشروں میں اتنا اضافہ ہوا ہے ۔ویسے تو پوری دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعددیہاتوں سے شہروں کی طرف تیزی سے آبادیاں منتقل ہوئی ہیں ۔لیکن کراچی میں تو دیہاتوں کے علاوہ ملک کے تمام حصوں بلکہ دنیا کے بیشتر علاقوں سے اس شہر میں لوگ آئے اور ادھر ہی کہ ہو کر رہ گئے ۔کراچی میں غیر فطری انداز میں اضافہ ہوا ہے جب کہ ہر جگہ فطری انداز میں اضافہ ہوتا ہے ،جو عموماَ 5فی صد سالانہ ہوتا ہے اس لحاظ سے کراچی کی آبادی اس وقت ایک کروڑ ہوتی ۔کراچی کی آبادی جو غیر فطری انداز سے بڑھی ہے ،اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاَ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کے اقلیتی صوبوں سے جو لوگ ہجرت کر کے آئے ان کی بہت بڑی اکثریت نے کراچی کی طرف رخ کیا ۔چونکہ کراچی اس وقت ملک کا دارالخلافہ تھا پھر مہاجروں میں ذہین لوگوں کی ایک تعداد تھی جنھوں نے خلوص دل سے اس نئی مملکت کی خدمت کی اور اس کو سہارا دیا یہاں پر بہت تیزی سے صنعتی ترقی ہوئی جس کی وجہ سے پورے ملک سے روزگار کی تلاش میں لوگ کراچی آ ئے اور ان کو یہاں مناسب روزگار ملا ،انھوں نے یہاں محنت کی اور ترقی کرتے ہوئے گدھا گاڑی چلانے والے کروڑپتی اور ارب پتی بن گئے ۔زیادہ تر لوگ صوبہ پختون خواہ سے آئے اور یہی وجہ ہے کہ آج کراچی میں پختونوں کی تعداد پشاور شہر سے زیادہ ہے ۔تیسری وجہ غیر فطری انداز میں کراچی کی آبادی بڑھنے کی سقوط مشرقی پاکستان ہے کہ کراچی سے اتنے بنگالی مشرقی پاکستان نہیں گئے ہوں گے جتنے کے بہاری پاکستان آئے ان میں سے 90%نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا بلکہ سقوط ڈھاکا کے سانحے سے ایک سال پہلے سے کھاتے پیتے کاروباری لوگ مشرقی پاکستان سے کراچی آنا شروع ہو گئے تھے ۔چوتھا غیر فطری سبب بنگلہ دیش سے بنگالیوں کا کراچی آنا۔ جب بنگلہ دیش آزاد ہوا تو اس وقت اس کی معاشی کیفیت بہت خراب تھی اس لیے بہت سے بنگالی انسانی اسمگلروں کو پیسے دے کر کراچی آئے آج کراچی میں کم از کم بیس لاکھ سے زیادہ بنگالی ہوں گے ۔اسی طرح جب شروع میں برما کے حالات خراب ہوئے تو ایک کثیر تعداد برمیوں کی بھی کراچی میں آئی جو اس وقت کراچی میں پندرہ لاکھ سے زائد ہیں ۔1979میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں آئے ،جن کے لیے مہاجرین کیمپس تو قائم تھے لیکن اس میں زیادہ تر خواتین اور بچے رہتے ان کے مرد حضرات روزگار کے حصول میں پورے ملک میں پھیل گئے اور ان کی بہت زیادہ تعداد نے کراچی کو اپنا تجارتی مرکز بنایا افغان مہاجرین نے یہاں ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر قبضہ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ کرمنل عناصر اپنے ساتھ ہیروئن اور اسلحہ لے کر آئے اور پورے ملک میں ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف کلچر پھیل گیا جس کے قوم نے بہت خوفناک نتائج بھگتے ہیں ۔لیکن یہ زیادہ تر محنتی اور جفاکش لوگ ہوتے ہیں ،آپ کو اگر اپنے بجری کے ٹرک اور سیمنٹ کی بوریاں چھٹی منزل پر پہنچانا ہے تو اس کے لیے بھی یہ افغانی جفاکش کم اجرت پر آپ کی مشکل حل کر دیں گے ،آج بھی آپ کو افغانی بچے کراچی کی گلیوں میں کاغذ چنتے ہوئے نظر آتے ہو ں گے۔

بچپن کے کراچی کی بات کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے بچپن میں جس کراچی کو ہم نے دیکھا وہ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے ۔اور وہ اس لیے اچھا لگتا ہے کہ ہر انسان کو اپنا بچپن بہت پیارا ہوتا ہے ،اس لیے بچپن کی ہر چیز سے اسے پیار ہوتا ہے ۔جب کہ آج کراچی بہت وسعت اختیار کر گیا ہے بڑی بڑی لمبی اور کشادہ سڑکیں ،اونچی اونچی عمارتیں ،خوبصورت بنگلوز اور فلیٹوں کے جال نے تو اس کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ۔ گلستان جوہر میں تو فلیٹوں کی بیس بیس منزلہ عمارتوں نے تو ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ آپ اگر وہاں سے گزررہے ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کوئیں میں چل رہے ہوں ۔جب کہ اب تو کراچی میں دنیا کی تیسری بڑی مسجد بھی تعمیر ہورہی ہے جس میں 8لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہو گی پھر آگے چل کر دنیا کی سب سے اونچی عمارت کا منصوبہ بھی ہے ۔بحریہ ٹاؤن نے بہت سے خوبصورت رہائشی پروجیکٹس بھی متعارف کرائیں ہیں جو آئندہ دس پندرہ سال میں جب مکمل ہوں گے تو اس شہر کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہو گا ۔یہ تو پرائیویٹ سیکٹر کے منصوبے تھے سرکاری منصوبے بھی زیر غور ہیں وہ جب پایہ تکمیل تک پہنچے گے تو اس شہر کانقشہ اور بدل جائے گا ۔

لیکن ان سب کے باوجود مجھے بچپن کا کراچی ایک تو اس لیے بھی پسند ہے کہ دوسروں کی طرح مجھے بھی اپنا بچپن بہت اچھا لگتا ہے ۔دوسرے یہ اگر صفائی ستھرائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو بچپن کا کراچی آج سے بہت بہتر تھا ۔اس وقت ہمارے گھر شاید اتنے صاف ستھرے نہ رہتے ہوں جتنا ہماری گلیاں اور محلے صاف رہتے تھے ۔آج ہمارے گھر توشاید صاف ستھرے رہتے ہوں اور اب گلیاں اور محلے گندگی کا نمونہ بنے ہوئے نظر آتے ہیں ۔میں اپنے محلے کی مثال دوں گا جو کم وبیش پورے کراچی کی ہے ۔کہ مہینے میں کچھ دن خاکروب نظر آتا ہے وہ بھی ہر گھر سے پیسوں کا مطالبہ کرتا ہے گھر کے لوگ اس لیے مجبور ہیں کہ ان کے دروازے کے سامنے بالخصوص بیک ڈور کی گلیوں میں اتنا کچرا اور گندگی رہتی ہے کہ اس سے مچھروں اور مکھیوں کی افزائش ہوتی ہے ۔بلدیہ کا محکمہ صفائی اور اس کے افسران کا رعب اس لیے ختم ہوگیا ہے کہ وہ خود رشوتوں کے تالاب میں گندے ہو چکے ہیں بہت سے خاکروب تو ڈیوٹی پر آتے ہی نہیں اور اپنی تنخواہ کی ایک متعین رقم اپنے اوپر والوں کو دے کر دوسری جگہ پرائیویٹ کام کرتے ہیں ۔اب جو بچے کچھے خاکروب ہ جاتے ہیں وہ سرکاری ڈیوٹی دے کر محلے والوں سے پیسے بھی لیتے ہیں اور ان پر احسان بھی کرتے ہیں ۔یہ تو صفائی کی صورتحال ہے لیکن اس کے ساتھ ایک مصیبت سیوریج لائنوں کا آئے دن چوک ہوجانا ہے آپ کو کراچی میں ہر جگہ سیوریج کے گندے پانی سے گزرنا پڑتا ہو گا ۔اب اگر کسی کا گٹر بھر جائے اورمکان بھی نیچا ہو تو آئے دن گھروں میں گندا پانی جمع ہوتا ہے جس کی صفائی کے لیے سوئیپرز بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ اس مہنگائی کے دور میں دینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

ہم جب بچپن میں صبح 7 بجے اسکول جاتے تو راستے میں ایک جگہ دیکھتے کہ پچاس ساٹھ خاکروب ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان ایک موٹا سا جمعدار حاضری رجسٹر سے ہر ایک کا نام پکار کر اسی طرح حاضری لگا رہا ہے جس طرح ہماری کلاسوں میں حاضری لگتی تھی ۔پھر روزآنہ صبح 8بجے گلیوں میں 8سے10خاکروب جھاڑو لگاتے اور دور ایک فاصلے پر ان کا ہیڈ یعنی جمعدار کھڑا ہوتا جو بھی خاکروب ذرا سستی دکھاتا وہ وہیں سے کھڑے کھڑے انھیں گالیاں بکتا تو پھر وہ متحرک ہو جاتے اس کے بعد دوبارہ 4 بجے سہ پہر دوسری شفٹ آتی اور وہ گلیوں کی صفائی کرتی یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے یہاں سنگل مکانات تھے جس میں عموماَ سنگل فیملی رہتی تھی یعنی آبادی کم تھی تو دن میں دو مرتبہ خاکروب صفائی کے لیے آتے تھے آج جب آبادی پہلے سے چار گنا زیادہ ہو گئی ہے تو صفائی کی صورتحال یہ یہ ہے ہفتوں خاکروبوں کی شکل دیکھنے کو نہیں ملتی ۔اسی طرح بارش کے دنوں میں بارش کے ختم ہونے کے کچھ دن بعد وہ سوئیپرز برش لے کر پانی صاف کرنے آجاتے تھے ،ماہ دو ماہ میں ایک بار کتے پکڑنے والی گاڑیاں آتی تھیں بلدیہ کے اہلکار بڑی سی سنسی لے کر کتوں کے پیچھے بھاگتے تھے اور محلے کے لڑکے اس میں ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے وہ کتے کے گلے کو سنسی سے جکڑ کر بند گاڑی میں ڈال دیتے جہاں سے ان کے بھونکنے کی آوازیں آتیں کچھ عرصے بعد یہ ہونے لگا کے انھیں سنسی سے پکڑکر لایا جاتا اور سر پر گولی مار کر انھیں مردہ حالت میں گاڑی میں ڈال کر سے جایا جاتا ۔بہر حال یہ تو صفائی کے حوالے سے چند گزارشات تھیں بچپن کے کراچی میں امن امان کی کیا صورتحال تھی ،سیاسی اور سماجی ماحول کیسا تھا آپس کی محبت اور تعلقات کیسے تھے ان جیسے اور موضوعات پر پھر کبھی سہی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 49868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.