مبارک ویلج کی سیر

جیسے ہی خبر ملی کہ اسکول ۳ اگست کو نہیں ۱۱ اگست کو کھلیں گے بچوں نے ایک بار پھر پکنک کی ضد شروع کر دی کافی کوشش کے بعد یہ بات طے کی گئی کہ ہم مبارک ویلج سیر کو جائیں گے ہم نے ہائی ایس کی اور مبارک ویلج کی طرف سفر شروع کیا صبح سوا سات بجے کراچی سے چلے اور سوا نو بجے ہم مبارک ویلج میں تھے جاتے ہی ہٹ کی تلاش شروع کی گئی آخر کر جیسا تیسا ہٹ مل ہی گیا ،سمندر کا پانی بہت چڑھا ہوا تھا پانی کے علاوہ وہاں اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا کیوں کہ وہاں نہ موبائیل کے سگنل آ تے ہیں نہ لائٹ ہے نہ گیس ہے پانی بھی کم مقدار میں ہے وہ بھی گرم ،کافی حیرت ہوئی ایسا ماحول دیکھ کر اور اس ماحول نے یہ سوال ذہن میں اُٹھایا کہ کیا مبارک ویلج پاکستان کا حصہ نہیں یہاں کیوں یہ تمام چیزیں حکومت فراہم نہیں کرتی،وہاں ہر رنگ و نسل کے افراد گھومنے پھرنے آئے تھے وہاں کا ماحول تو ویسے بھی اچھا ہی رکھنا چاہئے کیوں کہ ایسی جگہوں سے ملک کی ترقی نظر آتی ہے مجھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم ترقی یافتہ پاکستان میں نہیں بلکہ ایک پس ماندہ ملک میں کھڑے ہوں ،جانور مرے پڑے تھے بدبو سے برا حال تھاہر جگہ مکھیاں بھنبھنارہیں تھیں ،ایسا ماحول تھا کہ صحت مند انسان بھی بیمار ہو جائے۔حکومت کو اس جگہ پر اور تمام گھومنے پھرنے کی جگہوں پر اس طرح کا ماحول بنانا چاہئے کہ دوسرا خوش ہو، خوش ہو گا تبھی تو زیادہ سے زیادہ پکنک پر بھی آئے گا اور ملک کی ترقی بھی اسے ہی ہو گی،میں نے وہاں دیکھا کہ پانی کی لہر میں ایک خاتون ڈوبنے لگیں تو لائف گارڈ نے اُس کو بچایا میں نے لائف گارڈ سے پوچھا آپ یہاں ملازم ہیں تو اُس نے کہا نہیں میں ملازم نہیں ہوں درخواست دی ہے پر کوئی میری نہیں سنتا ،ہر روز ۴ یا ۵ افراد کو میں ڈوبنے سے بچاتا ہوں پھر میں نے وہاں کے لوگوں سے بات کی تو اُن کو بنیادی ضرورتوں کی بھی چیزیں میسر نہیں ہیں اگر حکومت نے اپنے نمائندے وہاں ان کاموں کے لئے رکھے ہیں تو برائے مہربانی چیک اینڈ بیلنس ضرور ہونا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں تنخواہ لے رہے ہوں اور کام نہ کر رہے ہوں دیکھنا چاہئے یہ سب کچھ،وہاں پینے کا ٹھنڈا پانی یا چائے وغیرہ نایاب ہے مشکل ہی کسی کو نصیب ہوتی ہو گی،بہرحال بڑی مشکل میں ان حالات میں ہم نے ۴ بجے تک وقت گذارا اور پھر واپسی کا ارادہ کیا،ان حالات میں آئندہ کبھی وہاں نہ جانے کی قسم بھی کھائی آخر کیوں مجھ جیسے ہزاروں افراد ہوں گے جو جانا چاہتے ہوں گے پر نہیں جاتے کیوں کہ وہاں بنیادی ضرورتوں کی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں اور یہ ضرورتیں ہم نہیں حکومت پوری کرے گی اگر ان جگہوں پر لوگوں نے اسی طرح جانا چھوڑ دیا تو یہ جگہ ماضی کا ایک حصہ بن جائیں گیاور وہاں کے لوگ وہاں کے بچے اپنی آنکھوں میں خواب لئے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے میں اپیل کرتا ہوں وزیر اعظم پاکستان سے،وزیر اعلی سندھ سے،با اثر وزراء سے ،بالخصوص چیف آف آرمی اسٹاف صاحب سے کہ وہ ان معاملات پر غور کریں اورپاکستان کے تفریح مقامات پر سیکورٹی،صفائی ستھرائی،کھانے پینے اور بنیادی ضروریات مثلاً بجلی پانی گیس وغیرہ پر غور فرمائیں اور اس آرٹیکل کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کہ ہم تفریح مقامات کی دیکھ بھال کا حل سوچیں کیوں کہ ان ہی باتوں سے ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہو گا اور پوری دنیا سے آنے والے ٹورسٹ بھی خوشی خوشی ان مقامات پر آ ئیں گے،معاشی اور مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔

Shahid Raza
About the Author: Shahid Raza Read More Articles by Shahid Raza: 162 Articles with 237984 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.