ایک عظیم انسان کی رحلت

یہ 1973 کی بات ہے جب میں گورنمنٹ مڈل سکول موہری فرمان شاہ میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا ۔ سکول کے صدر معلم ‘ سٹاف ‘ سنئیر کلاسوں کے طلبہ او ر علا قہ کے معززین سکول کی آرائش و زبیائش ‘ راستوں کی مرمتی و صفائی کے کاموں میں دن رات مصروف رہتے تھے ۔ رات کو روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا تو پیٹرومیکس گیس جلا کر بھی یہ کام جاری رہتا تھا ۔ سنئیر کلاسوں کے طلبہ کے ایک چاک و چوبند دستے کو پریڈ اور سلامی کی تربیت دی جاتی تھی۔ ہم لوگ جو پرائمری کلاسوں میں پڑھتے تھے ‘ ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب انتظام کس لئے کیا جار ہا ہے البتہ ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ ہمارے اساتذہ بھی کام کاج میں مصروف تھے لہذا ہماری کلاسیں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ ہم دن بھر طلبہ کو پریڈ کرتے ‘ سلامی دیتے ‘ نعرے لگاتے ‘ بعض کو دیواروں کو چونا کرتے ‘راستوں کی صفائی کرتے ‘ آرائشی محرابیں بناتے ‘ جھنڈیاں اور آرائشی پھول سجاتے دیکھتے اور اس ہلے گلے سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ کبھی کبھار بے ضرر سی ڈیوٹی ہماری بھی لگ جاتی تھی مثلاً قریبی "نالہ کہن "سے چھوٹے گول گول خوبصورت پتھر ڈھونڈ کر لانا جس سے کیا ریاں بنائی جاتی تھیں ۔ ہم یہ ڈیوٹی بھی خوشی سے بجا لاتے تھے ۔ رات کو بھی ہم اکثر کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر سکول پہنچ جاتے اور پیٹرو میکس گیسوں کی روشنی میں ہونے والے کام کو تماشا سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

آخر وہ دن آگیاجس کیلئے یہ سارا اہتمام کئی روز سے جاری تھا۔یہ 4 اپریل 1973 کی شام تھی جب اس وقت کے صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر جناب سردار محمد عبد القیوم خان پانچ کلو میٹر دور پانیولہ سے پیدل چل کر موہری فرمان شاہ تشریف لائے ۔ ہمیں بھی استقالبہ قطار میں کھڑا کیا گیا تھا ۔ وہ ہمارے سامنے سے گزرتے ہوئے پنڈال پہنچے تھے جس کا اہتمام سکول کے احاطے میں کیا گیا تھا ۔یہ سارا انتظام جس شخصیت کیلئے کیا جارہا تھا میرا تصور یہ تھا کہ وہ کوئی عام انسانوں سے مختلف شخصیت ہو گی ۔ کس طرح مختلف ؟ اس کو کوئی خاکہ میر ے ذہن میں نہیں بن رہا تھاتا ہم میرا ننھا سا دماغ یہ ضرور سوچتا تھا کہ سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب جو صدر آزاد کشمیر بھی ہیں انہیں لازماً عام انسانوں سے مختلف ہونا چائے لیکن جب وہ پانیولہ سے پہاڑی راستوں پر پیدل چلتے اور ندی نالوں کو عبور کرتے ہوئے شام ڈھلنے کے بعدرات کے دھندلکے میں ہمارے سکول پہنچے اور ہمارے سامنے سے گزر ے تو میں نے دیکھا ‘ ان کے جوتوں اور کپڑوں سے کیچٹر لگا ہوا تھا ‘ شکل و صورت اور چہرے مہرے سے بھی و ہ عام قسم کے انسان ہی لگ رہے تھے ۔میں جو اپنے ننھے سے ذہن میں کسی انوکھی ‘ بلکہ افسانوی شکل و صورت کی تجسیم کر رہا تھا‘ انہیں دیکھتے ہیں و ہ تحلیل ہو گئی۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی سمجھ آئی کہ بڑے انسان عام لوگوں سے اپنی شکل و صورت اور وضع قطع میں نہیں بلکہ اپنے علم ‘ بصیرت ‘ کردار ‘اور اوصاف میں مختلف ہوتے ہیں اور ان معنوں میں وہ بلاشبہ مختلف تھے لیکن اس وقت میرا ذہین اتنی گہری اور پیچیدہ بات کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔

انہوں نے ہمارے سکول کو جو اس وقت مڈل سکول تھا ‘ ہائی سکول کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا اور ہائی سکول کا افتتاح بھی اپنے دست مبارک سے کیا۔ اس افتتاح کی وہ مر مریں لوح اب بھی اس سکول جو، اب انٹر سائنس کالج بن چکا ہے‘ کی مہندم شدہ پرانی عمارت کی واحد بچ جانے والی دیوار میں نصب ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2005 کے زلزلہ میں سکول کی ساری عمارات زمین بوس ہو گئیں۔ بد قسمت سکول تعمیر نو کے منصوبوں میں مناسب ترجیح نہ پا سکا اور انٹر کالج بننے کے باوجود اب تک عمارت سے محروم ہے لیکن اس کی وہ دیوار ابھی تک سلامت ہے جس میں 4 اپریل 1973 کو سردار محمد عبد القیوم خان صاحب نے اپنے دست مبارک سے افتتاحی لوح نصب کی تھی۔یہ ان کی شخصیت کا وہ نقش اولین ہے جو میرے حافظے میں موجود ہے ۔

میں ساتویں جماعت میں تھا تو محمد فیاض عباسی مرحوم کا ہفت روز ہ "پاک کشمیر" ڈاک سے میرے نام آنا شروع ہو گیا ۔ یہ مجھے یاد نہیں ہے کہ یہ ہفت روزہ کس طرح میرے نام جاری ہوا ؟ آج تو موہری فرمان شاہ باغ سے بر استہ راولاکوٹ‘ راولپنڈی جانے والی شاہراہ عام پر واقع ہے جبکہ اس زمانے میں ہاڑی گہل اور راولاکوٹ کے مابین سارا سفر پیدل تھا اور ہر دو اطراف سے دو گھنٹے کا پیدل سفر کرکے ہی موہری فرمان شاہ پہنچا جا سکتا تھا۔ روز نامہ اخبار بھی ہمارے سکول میں تیسرے دن آتا تھا اور ہفتہ بھر" تازہ "رہتا تھا کہ لوگ باری باری اس کا مطالعہ کرتے اور "حالات حاضرہ "سے" با خبر" ہوتے تھے۔ ان حالات میں میرے نام ہفت روزہ پاک کشمیر کا باقاعدگی سے بذریعہ ڈاک آنا خلاف معمول بات تھی۔ میں سکول کا ذہین طالب علم ضرور تھا لیکن ایسی کوئی معروف شخصیت نہ تھا کہ کوئی میرے نام اس طرح کا Complimentaryاخبار جاری کر دیتا ۔اﷲ تعالیٰ فیاض عباسی صاحب کو بھی کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جو کوئی بھی میرے نام اخبار جاری کرنے کا موجب بنا‘ اسے بھی ۔بات طویل ہو گئی۔ہفت روزہ پاک کشمیر اس دور میں جناب سردار عبدالقیوم خان، جو اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں کرسی اقتدار سے معزول ہو کر پلندری جیل میں ایام اسیری کاٹ رہے تھے، کا بے لوث اور بے باک ترجمان تھا۔ اس اخبار کے مطالعے سے میرے ذہن میں ان کا ایک ہیرو کاکردار بننا شروع ہوا۔ ہمارے خاندان کے بزرگوں کا تعلق بھی آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سے ہی تھا،لہذا کوئی بھی تقریب چاہے وہ شادی بیاہ کی ہوتی، ماتم کی،ختم قرآن وغیرہ کی یا عیدین کے موقع پر ملنے ملانے کی ، بزرگ لوگ اکثر مجاہد اول کے کردار اور کارناموں کا تذکرہ کرتے تھے۔

میٹرک تک پہنچتے پہنچتے میرے نام دیگر ہفت روزہ اخبارات ورسائل بھی آنا شروع ہوگئے تھے جن میں ہفت روزہ عقاب، ہفت روزہ کشمیر، ہفت روزہ انصاف، ہفت روزہ پاک جمہوریت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ میں ان تمام اخبارات وجرائد کا باقاعدگی اور دلچسپی سے مطالعہ کرتا تھا،ان میں سے بعض ان کے مداح تھے اور بعض ناقد بھی ۔ تاہم ان کی شخصیت کا عکس میرے ذہن پر مرتسم ہوگیا جو اب تک پورے وقار اوراحترام سے قائم ہے۔

میں میٹرک میں ہی تھا کہ طلبہ سیاست کا حصہ بن گیا اور جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک ہوگیا۔میرے نزدیک جناب سردار محمد عبدالقیوم خان کی شخصیت اورافکار وخیالات سے متاثر ہونے اور اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک ہونے میں کوئی تضاد نہ تھا۔جمعیت سے منسلک ہونے کے باوجود سردار صاحب کے بارے میں ادب واحترام کے جو جذبات تھے وہ ہمیشہ برقرار رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 1984-85میں انہوں نے جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنی شروع کردی اورجواباً جماعت اسلامی اورجمعیت کی طرف سے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا جانے لگا۔ ان کی کتاب ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ میں ان کے اس وقت کے خیالات کا عکس ملتا ہے جس کا میں نے اسی زمانے میں جواب بھی تحریر کیا تھا جو روزنامہ جسارت کراچی میں قسط وار مضمون کی صورت میں شائع ہوا تھا۔ آج جب میں اس دور کے مناقشات کے بارے میں سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک تو ان کے برادر اصغر جناب خان عبدالغفار خان کی افتاد طبع کابڑا عمل دخل تھا اور دوسرا ان اپنی سیاسی ضروریات اورترجیحات کا تقاضا بھی تھا ۔ اس عرصے میں جماعت اسلامی کی امارت کا بارگراں جس شخصیت کے کندھوں پر آن پڑا تھا وہ مرد درویش کرنل محمد رشید عباسی مرحوم تھے جو ان کے قریبی عزیز وں میں سے تھے۔اسطرح اسلامی جمعیت طلبہ اورجماعت اسلامی کی سرگرمیوں کی زد براہ راست ان کی Constituencyپر پڑرہی تھی لہذا ان کی طرف سے اس کا ردعمل ان کی ایک سیاسی ضرروت تھی۔حالانکہ اس سے پہلے 1970کا الیکشن انہوں نے جماعت اسلامی پاکستان کا بھرپور تعاون سے جیتا تھا یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو انہیں طنزاًجماعت اسلامی کا "سیکرٹری جنرل" بھی کہا کرتے تھے۔آزادکشمیر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام کے لیے انہوں نے ہی پہلی مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ جناب تسنیم عالم منظر شہید کو دورہ آزادکشمیر کی دعوت دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب انہیں فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے اقتدار سے معزول کرکے پلندری جیل میں محبوس کردیا گیا تو بھی اسلامی جمعیت طلبہ ان کے حق میں آوازبلند کرتی رہی۔ ان خوشگوار نظریاتی تعلقات میں بعض وقتی اور سیاسی مصلحتوں نے زہر کھول دیا تھا جس کے اثرات زائل ہونے میں ایک عرصہ لگا تاہم شخصی احترام‘ ا یک دوسرے کی قربانیوں اور خدمات کااعتراف ہر دو جانب سے برقرار رہا ۔ میں صرف دوواقعات کا تذکرہ کروں گا۔جماعت اسلامی اوراسلامی جماعت طلبہ کے کارکنان کی ایک مجلس میں کسی کارکن نے اس انداز میں اپنی بات کاآغاز کیا کہ’’ سردار قیوم کہتا ہے.......ـــ‘‘ تو امیر جماعت اسلامی کرنل محمد رشید عباسی مرحوم نے فوراً اس کارکن کو ٹوک دیا اور ا اس کی سخت سرزنش کی کہ اس نے سردار صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ان کے احترام کو کیوں ملحوظ خاطر نہیں رکھا اوراسے ہدایت کی کہ وہ اپنی بات ان الفاظ میں شروع کرے کہ ــ ’’ سردار عبدالقیوم خان صاحب فرماتے ہیں کہ ..............ـ‘‘اورکارکن کی جان اس وقت تک نہیں چھوٹی جب تک اس نے سردار صاحب کا ذکر اس پیرائے میں نہیں کیا جس کی کرنل صاحب نے اسے تاکید کی تھی۔یہ وہ تربیت تھی جس کا جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو خوگر بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شدید ترین مخاصمت کے باوجود جماعت کے کارکنوں کی جانب سے مجاہد اول ،غازی ملت یا دوسرے بزرگوں کا ذکر ہمیشہ ادب واحترام کے صیغے میں ہی کیا جاتا رہا ہے۔

دوسرا واقعہ اس وقت کا ہے جب میں جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا۔ پاکستان میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے جبکہ آزادکشمیر میں جناب سردار محمد عبدالقیوم خان صدر ریاست اور سردار سکندرحیات خان صاحب وزیراعظم تھے۔کسی وفاقی ایجنسی نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان محمدخان جونیجو کو رپورٹ کی تھی کہ دھیرکوٹ میں طلبہ تنظیموں کا ایک جلوس نکلا جس میں قوم پرست تنظیموں کے علاوہ اسلامی جمعیت طلبہ بھی شامل تھی جلوس میں پاکستان مخالفت نعرے لگائے گئے جس پر آزادکشمیر حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔سردار صاحب سے اس ضمن میں وضاحت کر نے کو کہا گیاتھا ۔اس کے جواب میں سردار صاحب نے بطور صدرآزاد کشمیر جو مکتوب وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کو لکھا، اس میں اس واقعے کو جھوٹا، من گھڑت اورخفیہ ایجنسیوں کی شرارت قراردیا گیا ۔اس کی دلیل کے طورپر انہوں نے یہ لکھا کہ ’’رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ اس جلوس میں اسلامی جمعیت طلبہ نے بھی شرکت کی، اگر ایم ایس ایف کے بارے میں کہا جاتا تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوتی لیکن اسلامی جمعیت طلبہ جیسی ،محب وطن ،اسلام پسند، باکردار طلبہ کی تنظیم کا کسی ایسے جلوس کا حصہ ہونے کا ذکر ہی اس رپورٹ کے جھوٹے اور من گھڑت ہونے کے لیے کافی ہے جس کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔‘‘

اس خط کی نقل صدارتی سیکرٹریٹ کے اس وقت کے ایک آفیسر نے مجھے فراہم کی تھی جو ہمارے دفتری ریکارڈ میں موجودتھی تاہم بعد میں دفاترکی باربار منتقلی اورریکارڈ کی تلفی کے باعث شاید اب کہیں ضائع ہوچکی ہو۔یہ دونوں واقعات ظاہرکرتے ہیں کہ سیاسی مصلحتوں ، وقتی حالات کے تقاضوں اور ردعمل کی شدت میں اگر دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اورجوابی الزامات کا سلسلہ چلا بھی تو بھی دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے مقام ومرتبے اور خدمات کو اعتراف بھی کیا گیا جو جانبین کی وسیع الظرفی کی عمدہ مثال ہے۔

اسی دور کشمکش میں ہمیں کلب ہال مظفرآباد کے مقام پر تین روزہ کشمیر کانفرنس منعقد کرنی تھی جس میں مختلف ممالک کے مندوبین کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔ عین آخری لمحے معلوم ہوا کہ کلب ہال کی بکنگ صرف صدر ریاست کی خصوصی اجازت سے ہی ممکن ہے ۔ اس غرض سے ان سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر چلا گیا۔ وہاں مسلم کانفرنس کے بڑے بڑے زعماء کمرہ انتظار میں ملاقات کے منتظر بیٹھے تھے جن میں چند ایک وزراء اور اراکین اسمبلی بھی تھے۔میں خاصا مایوس ہوا کہ اتنے بڑے اوراہم لوگوں کو ابھی شرف باریابی نصیب نہیں ہوسکا تو مجھے ملاقات کا وقت کہا ں ملے گا؟ تاہم میں نے ملاقات کے لیے چٹ اندر بھجوا دی ۔ چند ہی منٹ میں انہوں نے مجھے ملاقات کے لیے اندر بلالیا۔ اچھی طرح خیرخیریت دریافت کی اورآمد کامقصد پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ بین الاقوامی کشمیر کانفرنس طے کی ہے جس کے انعقاد میں چند ہی دن باقی ہیں ۔ اب معلوم ہوا کہ آپ کی اجازت سے ہی کلب ہال مل سکتا ہے ،اسی لیے حاضر ہوا ہوں ۔انہوں آپریٹر کو چیف انجینئر کو فون ملانے کا کہا۔ آپریٹر نے فون ملایا توانہوں نے چیف انجینئر کو حکم دیا کہــ" کلب ہال انہیں فوراً حوالے کیا جائے تاکہ یہ اپنی مرضی کے مطابق تیاری کرسکیں ۔ ا س کے علاوہ کانفرنس کے اختتام تک صفائی ، پانی وبجلی کی سہولیات کی فراہمی اور باہر سے آنے والے مہمانوں کے قیام کے انتظامات آپ کے ذمہ ہیں اور کوئی شکایت موصول ہوئی توآپ کے خلاف کارروائی ہوگی"۔مہمانوں کے قیام وطعام کے حوالے سے میں نے ان سے معذرت کرلی کہ یہ انتظامات ہم خود کرلیں گے البتہ باقی انتظامات کے لیے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ میں جب ملاقات کرکے بعد باہر نکلا تو کمرہ ا نتظار میں بیٹھے حضرات اس بات پربڑے جز بز ہورہے تھے کہ انہیں ابھی تک وقت نہیں ملا اور اس لڑکے کی جو کہ سیاسی مخالف بھی ہے انہوں نے اتنی پذیرائی کی ہے ۔ بہرحال یہ جناب مجاہد اول کی بڑائی تھی کہ انہوں نے سیاسی کشیدگی کے پس منظر اورسیاسی اختلاف کے باوجود مجھ طفل مکتب سے اس قدر شفقت کا مظاہرہ کیا۔

ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی چند ایک ملاقاتیں ہوئیں ۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایوان وزیراعظم میں وفاقی حکومت کی ایک اہم شخصیت کو دعوت پر مدعوکیا تھا تو جن مہمانوں کو اس دعوت میں مدعو کیا گیا تھا ان میں اس ناچیز کا نام بھی شامل تھا جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ باقی حضرات کو تو وزرائے کرام ، ممبران اسمبلی ، سیاسی زعماء تھے جبکہ میں محض ایک طفل مکتب تھا جو ان کی جماعت یا طلبہ تنظیم سے بھی وابستگی نہیں رکھتا تھا بلکہ اس تنظیم کا آزادکشمیر کا سربراہ تھا جسے وہ اکثر اپنے خطابات اوربیانات میں آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ میں جب ا س دعوت میں پہنچا تو انہوں نے غیر معمولی شفقت کا مظاہرہ فرمایا جو میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ احترام تو میں ان کا پہلے سے ہی کرتا تھا اورہر ملاقات کے بعد اس احترام میں اضافہ ہی ہوتا رہا تاہم کبھی اپنی تنظیمی وابستگی پر نظرثانی کرنے کی کوئی بات کبھی میرے حاشیہ خیال سے بھی نہیں گزری اور نہ کبھی انہوں نے اشارتاً یا کنایتاً بھی ایسا اظہار کیا۔ یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے جو کم ہی سیاسی رہنماؤں کو میسر ہوتی ہے۔

مجاہد اول سیاسی کارکنوں کے لیے ایک یونیورسٹی کادرہ درجہ رکھتے تھے۔ ان کے معتقدین کی تعداد بھی بہت ہے اور انکی سیاست سے اختلاف رکھنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ، تاہم سیاسی بصیرت ، تدبر ، معاملہ فہمی ، مستقبل بینی اورمستقل مزاجی میں ان کاکوئی ثانی نہیں۔ اپنی عملی زندگی کاآغاز انہوں نے ایک مجاہد کی حیثیت سے کیا اورڈوگرہ اور بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔جہاد کے راستے عملی سیاست میں آئے تو بڑے بڑے سیاسی سورماؤں کو چاروں شانے چت کرتے چلے گئے۔ ان کے سیاسی حریف ان سے کہیں زیادہ قد آور شخصیات تھیں جن کے پاس اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں ، قبیلے ، برادریوں سمیت ایسی کسی چیز کی کمی نہ تھی جو سیاست کے میدان میں کامیابی کے لیے ضروری ہوتی ہیں جبکہ مجاہد اول کو یہ فوائد حاصل نہ تھے ۔ انہوں نے اپنی مستقل مزاجی ، نظریاتی یکسوئی اورسیاسی تدبر اور فہم وفراست سے سیاسی میدان میں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کرلی اورنصف صدی سے زائد عرصے تک ریاست کی سیاست کو اپنے گرد گھمایا ۔ مجھ سمیت ان سے سیاسی اختلاف رکھنے والے ان کے بعض فیصلوں اور اقدامات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جواپنی حد تک حق بجانب بھی ہونگے لیکن انہوں نے جو کیا، وہ پاور پالیٹکس کے تقاضے تھے۔ آپ پاور پالیٹکس کریں یا نہ کریں یہ آپ کا اختیار ہے لیکن جو شخص بھی پاورپالیٹکس کریگا اسے اس قسم کے متنازعہ فیصلے اوراقدامات کرنے پڑیں گے۔ جن سے اتفاق اوراختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان سے ان کی غیرمتزلزل وابستگی اوراس سلسلے میں کسی مداہنت سے کام نہ لینا ان کی زندگی کا وہ قابل رشک پہلو ہے جو انہیں اپنے ہمعصر وں میں ممتاز کرتا ہے۔ اس باب میں وہ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کے حقیقی جانشین تھے۔ اب کوئی دوسرا رہنمانظر نہیں آرہا جو ا س نظریاتی محاذ پر اس طرح پہرا دے سکے اورنظریاتی تخریب کاری کے خلاف اس طرح جو مکی جنگ سکے جس طرح وہ مدت العمر نظریاتی جنگ لڑ تے رہے ۔

میں نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے لئیے ـ’’ مجاہد اول ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تو بہت سے دوستوں نے پہلی گولی کی بحث چھیڑ دی اور اس پر موافقانہ اورمخالصانہ بلکہ بعض نے تو مخاصمانہ تبصرے بھی کیے۔ پہلی گولی کس نے چلائی تھی؟ کہاں سے چلائی تھی اور کس پر چلائی تھی؟ میں سمجھتا ہوں یہ بحث غیر متعلق اورلاحاصل ہے ۔ پہلی گولی جس کسی نے بھی چلائی ہو، جب بھی چلائی ہو اور جہاں سے بھی چلائی ہو ، مجاہد اول کی شخصیت اس سے بہت بالاتر ہے۔ اگر انہوں نے پہلی گولی نہ بھی چلائی ہو تو بھی ان کا شمار جہاد کشمیر 1947ء کے اولین اور بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے اوران کی خدمات اورکارنامے اس قدر ہیں کہ مجاہد اول ہونے کا سہرا انہی کے سر سجتا ہے۔ ان کو مجاہد اول کہنے سے دوسرے مجاہدین آزادی کے کردار کی نفی نہیں ہوجاتی۔ ہر ایک کا اپنا کردار اور اپنا مقام ہے۔ دنیا میں بھی اور خدا کے ہاں بھی۔ میں انہیں پہلی گولی چلانے یا نہ چلانے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس مجموعی شاندار مجاہدانہ کردار کی بنیاد پر مجاہد اول کہنے میں حق بجانب ہوجو انہوں نے 1947 کے جہاد آزاد ی میں ادا کیا۔ اس ضمن میں پہلی گولی کی بحث غیر ضروری اور ان کے مقام و مرتبے سے فروترہے ۔ میں ان کے مقام اور مرتبے کا اعتراف کرتے ہوئے اﷲرب العالمین سے ان کی جہادی، ملی، اوراصلاحی خدمات کی قبولیت اور عفو درگزر کے لیے دعاگو ہوں۔ آج جب وہ ہم میں نہیں ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ خطہ ، جموں وکشمیر کتنے عظیم رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔ ان جیسے رہنما قوموں کو صدیوں میں نصیب ہوتے ہیں۔
مت سہل انہیں جانو، پھر تا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔

Saleem Gardezi
About the Author: Saleem Gardezi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.