گھرآیا مہمان

گھر آیا مہمان کوئی جان نہ پہچان،
پھر اس کی پہچان بہت جلد بن جاتی ۔۔!
جب تک یہ کسی گھر نہیں پہنچتا اس کی حیثیت ایک ۔۔ مسافر۔۔ کی سی رہتی۔ جو راستوں کی خاک چھانتا ہے، گرد و غبار، مٹی پھانکتا ہے۔ بالوں میں کنگھی گھسنے کی روادار نہیں رہتی اور وہ سر جھاڑ منہ پھاڑ میزبان کے روبرو حاضر ہوتا لیکن مطلوبہ گھر میں داخل ہوتے ہی مہمان کے رتبے پر فائز ہو جاتا۔ ساتھ ہی اسے وی آئی پی حیثیت حاصل ہو جاتی۔ کہنے میں کیا حرج ہے کہ کرائے کی سواری سے اترتے ہی مہمان کو فائیو سٹار ہوٹل جیسی سہولیات میسر ہو جاتیں۔ گھر والوں کو اس کے لیے بیرا، باورچی، ملازم اور باادب خوش اخلاق میزبان بننا پڑتا۔۔ گھر نہ معلوم مدت کے لیے مہمان سرا بن جاتا۔۔!

جب زمانہ دھیمی چال چلتا تھا تب مہمان کا خوب بول بالا تھا۔ مہمان کے حقوق بھی پڑوسی سے کم نہ تھے۔ اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت جس کے آنے سے در پردہ گھر والوں کا رزق بڑھ جانا تھا۔ سو سب اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کی خدمت کرتے۔ اس تالا بند، راز سے مہمان بھی بخوبی واقف ہوتا سو وہ ان کے رزق کی کنجی بن کر دھڑلے سے جتنا چاہتا قیام کرتا۔ بے تکلفی سے میزبان کا جوتا پاؤں میں ڈال لیتا۔ اس کا تولیہ، صابن، کنگھی، ٹوتھ پیسٹ، جوتی حتٰی کہ میزبان کا نائٹ ڈریس بھی بلا تکلف اتنے دنوں اُسی کا ہو جاتا۔ وہ ان کا اتنا عادی ہو جاتا کہ کبھی کبھی تو وہ چیزیں گمنام بن کر اس کے سامان میں بھی چلی جاتیں۔ اِدھر اہل خانہ کو تیوری چڑھائے، ماتھے پر شکن لائے بغیر اس کی خدمت کرنا پڑتی۔ اسکی کسی ناپسندیدہ عادت کو بھی کھلے دل سے نظر انداز کر دیا جاتا۔ گھر کے بچوں پر علیحدہ مارشل لاء لگ جاتا اور وہ شرارتوں سے نابلد معصوم بیبے بچے بننے کی اداکاری کرتے۔۔

مروت کے دور میں بے مروتی کی مار مارتے ہوئے، لوگ مہمانی چولا بہن کر بغیر اطلاع کے یونہی سر پرائز دے دیا کرتے تھے۔۔ اکثر تو پورا کنبہ ہی اچانک چھاپہ مار لیتا اوردوردراز کے میزبان پر اچانک کے امتحانی پرچے کی طرح نازل ہوجاتا۔ گھر والے بچارے بغیر تیاری کے اس امتحان میں بیٹھ جاتے۔ پھر وہ گھر تو گھر باہر نکل کر محلے میں بھی اکڑ اکڑ کر چلتے۔ سب کے لیے باعث تجسس ہوتا کہ یہ سواریاں آخر کس گھر اتری ہیں۔۔۔؟

اگر دن بھر مسافت میں رہا یہ مسافر آدھی رات کو آ جاتا تو بھی پورے استحقاق سے دروازے کی گھنٹی پہ گھنٹی بجائے چلے جاتا۔۔ چاہے پورا محلہ جاگ جائے اس کی خطا معاف۔۔ میزبان آنکھوں میں نیند کے ڈورے لیے، کسلمندی سے جب دروازہ کھولتا تو مہمان ایک غصے، شکایت بھری گھوری اُس پہ ڈالتا۔ جس کامطلب ہوتا ،
دروازہ جلد کیوں نہیں کھولا ؟
کیا نشہ کر کے سوئے تھے۔۔؟
یا گھوڑے بیچ کر سوئے تھے؟

یہ دیکھ کر میزبان کو فورا سستی چھوڑ چستی لانا پڑتی۔ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجانا پڑتی۔ نیم وا آنکھیں پوری کھولنی پڑتیں ورنہ مہمان کیا کہے گا کہ اس کا ٹھیک سے استقبال نہیں کیا۔ آخر کل کلاں کو خاندان میں وہ اس بات کی ایک کی چار لگا سکتا ہے۔ یوں ناک بھی کٹ سکتی ہے۔

مہمان کے آنے سے جس رحمت کا نزول ہو جاتا اسے پانے کے لیے گھر والوں کو بڑی محنت کرنا پڑتی۔ دن ہوتا توسب سے پہلےبچے کو بھیج کر اسکے لیے ٹھنڈی ٹھاڑ بوتل منگائی جاتی۔ اسے گھر کی سب سے اعلی ترین چپل ایسےپیش کی جاتی جیسے وہ اب تک ننگے پاؤں چل کر آیا ہے یا خدانخواستہ اس کا زادِ راہ کہیں لُٹ پُٹ گیا ہے۔۔ پھر اسےخاص طور پر نیا سفید تولیہ دیا جاتا(ونی،پرانے تولیہ دینے سے گھر کا سٹینڈرڈ نیچے آ سکنے کا ڈر تھا، نی) نئی صابن کی ٹکیہ اس کے ہاتھ میں تھمائی جاتی اور مؤدب ہو کر غسل خانے تک رہنمائی کی جاتی۔ اگر مہمان گاؤں کے ہوتے تو ان کے لیے علیحدہ حقے پانی کا انتظام کرنا پڑتا۔۔(نہ جانے وہ سگریٹ پی کر گزارا کیوں نہیں کر لیتے تھے؟ چار آٹھ دن حقے سے دور کیوں نہیں رہ پاتے تھے)تب گھر کا کوئی فرد حقے کو اچھی طرح نہلاتا ہوا نظر آتا اور اس کی چلم ٹوپی کے لیےلکڑیوں میں پھونکیں مارتا، آگ سلگاتا، آنکھیں لال کرتا دکھائی پڑتا ۔ افسوس، سوئی گیس یہ ضرورت پورا نہیں کرتی تھی۔ زمانے نے کروٹ ضرور بدلی۔۔ بیڑی سے سگریٹ، سگریٹ سے سگار اور پائپ ضرور آ گئے، پر صد افسوس، گیس والے حقے نہ آئے۔۔ سو تب لوگ یونہی وارد ہو کر ویلے لوگوں کو ایسے کام پہ لگا دیا کرتے تھے۔

مہمان کو اچھے سے اچھا کھلایاجاتا۔ گھر کا اعلی سے اعلی کمرہ اور نواں نکور بستر اُسے دیا جاتا۔۔ سفید براق چادر، خوبصورت پیرہن کی نرم گرم رضائی اور کوئی شعر لکھا تکیہ ۔۔!
یا الہی یہ نرم تکیہ باعثِ صحت رہے
سونے والا سو رہا ہےجاگتی قسمت رہے

مہمان اپنی قسمت پہ نازاں شعر پڑھ کر تکیے پہ اپنا سر ڈال دیتا۔۔ شعر اچھا لگا کہ نہیں، اس کا فیصلہ بھی تکیے پر سر رکھتے ہوئے ہو جاتا۔۔ جبکہ میزبان کا بس نہ چلتا کہ مہمانی خاطر داری میں وہ اُسے لوری گا کر سُلا دیں۔۔

بچارےگھر والے کسی ہنگامی حالت کی طرح ایک چارپائی پر دو تین لوگ سمٹ سمٹا کر پڑ رہتے۔۔ پوری رات لاتوں کا میچ چلتا۔ پسلیوں میں کہنیاں بجتیں۔۔ ایک کمبل کی کھینچاتانی میں دھما چوکڑی مچتی۔ ایک آدھ چارپائی سے نیچے بھی گر جاتا لیکن مہمان کو اس سے کوئی سروکار،غرض نہ ہوتی۔۔ یہ میچ جتنے دن مرضی کھیلا جائے اس کی بلا سے۔۔ ناولوں، افسانوں کی طرح مہمان کے لیے تنگ ہو کرمرغی، حلوے مانڈے کا انتظام کیا جاتا اور باقی اہل خانہ دال، شوربے میں روٹی ڈبو کر کھا لیتے۔۔ روایتی میٹھی سویٹ ڈش بھی صرف مہمان کے حصے میں آتی۔ نہ جانے مہمان کو ۔۔ دعوتِ شیراز ۔۔۔ کیوں نہیں کھلائی جاتی تھی۔۔؟
ہمیں اپنے بچپن کے وہ مہمان یاد آتے جو دوردراز علاقوں سے آیا کرتے تھے۔ اول تو کیا آخر یقینا وہ بغیر اطلاع کے آیا اکرتے تھے۔ پھر جو بستر پر براجمان ہوتے تو ہلنے کا نام تک نہ لیتے۔ حتٰٰی کہ کھانے کا وقت ہو جاتا ۔ کھانا تیار ہونے کی نوید مل جاتی۔ پر اس خوشگوار خبر پر بھی وہ جُوں کے توں بستر پر بیٹھے پڑے اینڈھتے رہتے۔ تب چار و ناچار کبھی بھائی کو اور کبھی مجھے اپنے کندھے پر ایک تولیہ ڈال کر، ایک لوٹا نیم گرم پانی سے بھر کراور ایک خالی برتن لے کر اُن بستر پر سست اونگھتے ہوئے مہمانوں کے ہاتھ باری باری دھلوانا پڑتے اور انھیں تولیہ پیش کرنا پڑتا۔ ہم یہ کام والدین کے کہنے پر خاموشی سے کر دیتے لیکن ہمارے ذہن میں یہ سوال ضرور شور مچا رہے ہوتے کہ،ـ
:جو مہمان اتنی دور سے اتنے گھنٹے سفر میں گزار کر چل کر آئے ہیں تو اب ان کے ساتھ ایسی کیا مجبوری ہو گئی ہے کہ وہ دو چار قدم مزید چل کر غسل خانےتک نہیں جا سکتے ؟:
یہ سوال اس وقت تک ہمارے ذہنوں میں کھلبلی مچاتے رہے جب تک ہم یونہی چارپائی پر بیٹھے مہمانوں کے ہاتھ دھلاتے رہے۔۔۔

زمانے کی تیزی گزرتے وقت نے اسکا بھی جواب دے دیا۔ بھئی مہمانوں کا ایسے ہی خیال رکھا جاتا تھا۔ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ چلو کچھ عرصہ ہم بھی لکھنو والوں کی طرح اپنے رویے دوسروں پر نثار کرتے رہے۔۔ انجانے میں نیکیاں سمیٹتے رہے۔

مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں بھی شدید تھکاوٹ ہونے پر ان کے بلتی پورٹر ان کی خوب مُکی چاپی کرتے تھے۔ بقول انکے ان علاقوں میں وہ لوگ آج بھی اپنے گھر آئے ہوئے مہمانوں کو یونہی عزت دیتے ہیں۔ پہلے انھیں دباتے ہیں، ان کی تھکاوٹ دور کرتے ہیں اور پھر انھیں کھانا پیش کرتے ہیں۔ یہ پڑھ کر اس دل کی بیقراری کو قرار آیا ۔۔ بچ گئے۔۔ کیا ہوا ہمیں تو صرف مہمانوں کے ہاتھ ہی دھلوانے پڑتے تھے ۔ مہمانوں کی مکی چاپی تو نہیں کرنی پڑتی تھی ورنہ ہم مالشیے بھی بن جاتے۔

پورا سال ہم بڑے سلیقے سے لاہوری بن کر زندگی گزارتے۔ گرمی کی تعطیلات میں مہمان یوں اترتے گویا پکنک سپاٹ کھل گیا ہے۔ تیتر، بٹیر کی طرح مہمان اور میزبان گھل مل جاتے۔ اکثر ہمارے اور مہمانوں کے کپڑے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے۔ کھانے پہ کھانے پکتے۔ وہ بستر جو پہلے چھپ چھپا کے کسی کونے کھدرے یا الماریوں میں سمٹے رہتے۔ اب سرعام اپنی نمائش کرتے نظر آتے۔ قہوہ خانے کی طرح چائے چلتی رہتی۔ ناشتہ، لنچ اور ڈنر، لگتا زندگی صرف اسی مدار کے گرد گھومنے لگی ہے۔ نخرے کی طرح ناشتہ ختم ہوتا تو فکر کی طرح دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع ہو جاتی۔ شام کی چائے کا کپ ہاتھوں میں ہوتا تو رات کے کھانے کی سوچ بچار ستانے لگتی۔ رات کا کھانا ختم ہوتا تو گھر میں جوڑی دار بستر گھومنے لگتے۔۔ اچھے مہمان ہوتے تو تھوڑی گھر والوں کو مدد کی پیشکش کردیتے۔ چارپائی پہ چادر بچھتے دیکھ کر آگے بڑھ کر دو کونے وہ بھی پکڑ لیتے۔ ورنہ گھر سے جو اکڑا مہمانی چولا پہن کر آتے تو اسی میں لپٹے گھر والوں کی پھرتیاں ملاحظہ فرماتے اور خود مہمانی کے آرام سکون پاتے۔ ورنہ انکے اور ہی خاص الخاص مشاغل ہوتے۔۔۔

اوپر چھت پر جا کر ٹہلنے لگتے اور اہل محلہ کے گھر جھانک جھانک کر ان کے کام کاج سے آگاہی حاصل کرتے۔۔۔
پتنگوں اور کبوتروں کی پرواز دیکھتے۔۔۔
صحن میں چارپائی پر موٹے موٹے تکیے کے سہارے نیم دراز پڑے رہتے اور مہمانی کے مزے لوٹتے۔
بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالامار باغ، مینار پاکستان، داتا دربار، انار کلی، بانو بازار۔۔۔ پورا لاہور چھان مارتے۔۔۔

مغلیہ نوردات سے جتنا مہمانوں کی صنف نے فائدہ اٹھایا ہے اتنا تو لاہوریوں نے بھی نہیں اٹھایا ہو گا۔۔۔
بھئی آج کیا پکے گا ؟ کا مشہور زمانہ، روز کا سوال چند دن کے لیے ان کے سروں سے ہٹ جاتا اور میزبانوں کو دہلائے رکھتا۔ مرغ پلاؤ، روسٹ ، مرغ چنے، سٹیم روسٹ، ہر وقت مرغ چلتا اور بے چارے مرغ کی شامت آئی رہتی۔ اوپر سے گرمی اپنے رنگ دکھاتی۔ غسل خانہ کبھی بھی خالی اور خشک نظر نہ آتا۔ پر ان باتوں سے ماسواء مہمانوں کے ساتھ بہت سی چیزیں خوشی خوشی بانٹ لی جاتیں اور خوش رہتے کہ خدائی مہمان آئے ہیں۔۔۔۔

پڑوس میں کراچی سے رہنے والے لوگ سکونت پذیر تھے۔ ان کے گھر جب بھی مہمان آتے تووہ اپنا بوریا بستر ساتھ لاتے۔ جتنے لوگ اتنے بستر بند۔ تو یہ بات کچھ اچنبھے کا باعث بنتی، کہ باقی سب چیزیں تو میزبان کی استعمال کی جاتی ہیں پھر یہ بستر اپنا اپنا والی بات کچھ پلے نہ پڑتی۔ سوچتے اگر ایسی رواداری کی بات تھی تو حضرت اتنے دنوں کا کھانا بھی پکا کر ساتھ لے آتے۔ کبھی خیال آتا شائد،
انھیں دوسرے کے بستر میں سونا پسند نہیں ؟
یا انھیں اپنے تکیے بستر کے بغیر نیند نہیں آتی ؟
یا خدانخواستہ انھیں میزبان کی صفائی ستھرائی پہ چنداں اعتبار نہیں ؟

اسی لیے یہ تام جھام اٹھا کر اپنا کام بڑھائے رہتے ہیں۔ ٹرین کے سفر میں کراچی سے پشاور اور پشاور سے کراچی جانے والے مسافر اسی طرح ڈھیر سارے بستر بند، لوٹے، اگالدان، پاندان اضافی سامان کے ساتھ نظر آتے رہے تو عقدہ کھل گیا کہ یہ ان لوگوں کے ہاں ۔۔ رواج ۔۔ ہے اس طرح کی چیزیں لانے جانے کے لیے۔ ۔۔
واللہ، کیا رواج ہے۔۔ !

آخر اس کا ایک مثبت پہلو آشکارا ہو گیا کہ جس طرح ایک میزبان کو اچھے سے اپنی میزبانی نبھانی ہے عین اسی طرح مہمان کو بھی اچھی مہمانی کا مظاہرہ کرنا ہےاور اپنے میزبان کو بے جا تکلفات اور زحمت سے بچانا ہے۔ تو یقینا یہی بات بستر اپنا اپنا کے رویے میں بھی ہوتی ہو گی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض دفعہ اچھی بات بھی معاشرے کے چلن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس لیے فلم انداز اپنا اپنا تو بن گئی لیکن بستر اپنا اپنا رواج تشکیل نہ پا سکا۔۔ اب وقت بدل گیا ہے۔۔ رشتہ ابھی بھی وہی ہے لیکن اس میں جدت کے رنگ شامل ہو گئے ہیں۔

مہمان بھی اپنا سامان پورا لے کر آتا ہے۔ اب اسے بھی اس بارے فکر ہونے لگی ہے کہ میزبان کی چیزیں استعمال کرنے پر میزبان اس کے بارے میں کیا سوچے گا ؟
کنجوس، غیر مہذب، اجڈ، گنوار کہیں کا۔۔!

خاتون خانہ کو بھی مہمانی خاطر داری کے لیے اب ہر وقت کچن میں نہیں گھسنا پڑتا۔۔ ورنہ پہلے وہ بھی مہمان کی خاطرداری میں سر جھاڑ منہ پھاڑ پورا وقت باورچی خانے میں مختلف طرح کے روایتی کھانے بناتے نظر آیا کرتی تھی۔ سو تکلف چھوڑ دیا گیا ہے اور ضرورت پر کاروبار جما ہے۔ ناشتے، برنچ کا کاروبار صبح صبح حلوہ پوری، نان چنے، سری پائے، روغنی نان اور انواع و اقسام کے کھانوں سے چمکانے والوں نے سنبھال لیا ہے۔ فراخدل میزبان اب مہمانوں کی خاطر داری فوڈ سٹریٹ اور مختلف انواع کے ریسٹورنٹ میں کرنے لگے ہیں۔ وقت نے ایک ایک لمحہ قیمتی بنا دیا ہے۔ اب نہ تو کسی کے پاس آئے دن جا کر دنوں مہمان بننے کا وقت رہا ہے نہ ہی میزبان کے پاس اضافی وقت ہے۔ اب تو یہ رشتہ ڈاکٹر کی اپائمنٹ کی طرح بھگتایا جانے لگا ہے۔۔
المختصر ۔۔۔
یہ رشتہ ترقی پذیر ہوا یا روایات کہیں کھو گئیں علیحدہ مدعا لیکن بھائی اور مجھے ہمیشہ یہ گلہ باقی رہے گا کہ جن مہمانوں کے ہم ہاتھ دھلایا کرتے تھے، تو جب ہم ان کے ہاں مہمان بنا کرتے تھے تو وہ عین اسی طرح ہمیں بسترپر بٹھا کر ہمارے ہاتھ کیوں نہیں دھلواتے تھے۔۔۔۔۔؟

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 48670 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More