سورۃ’’ق‘‘ ۔۔۔۔۔۔موضوع آخرت

اس سورۃ کا نام شروع کے الفاظ (ق) سے ماخوذ ہے۔ یہ سورۃ چار یا پانچ نبوی میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں ’’مشرکین عرب کومسئلہ توحید میں تو مسکلات تھیں مگر مسئلہ قیامت اور حشراجسام میں ان کے جواب میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔‘‘ اس سورۃ کے بارے کے بارے میں احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔ حضرت عمر بں خطابؓ نے حضرت ابوواتدیشی سے پرچھا کہ رسول اللہﷺ عید کی نماز میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے کہا۔‘سورۃ ق اور سورۃ اقتربت الساعتہ ۔۔۔الخ(صحیح بخاری)

ام ہشام بنت حارثہ فرماتی ہیں:’’میں نے سورۃ ق رسول اللہ سے سن کر یاد کر لی تھی کیونکہ �آپ ہر وقت جمع کے دن خطبہ سنانے کیلئے منبر پر تشریف لاتے تو اس کی تلاوت فرماتے ‘‘۔(صحیح مسلم،تفسیر ابن کثیر194 ؍5)

مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ سورۃ ق عید جیسے مجموں میں پڑھا کرتے تھے۔اس لئے کہ اس میں انسان کی پیدائش، بعث بعد الموت، قیامت، حساب و کتاب، جنت و جہنم، ثواب و عتاب، اور ترغیب و ترتیب کا ذکر آیا ہے جنہیں سننے سے آدمی کے اندر فکر آخرت پیدا ہوتی ہے۔

حافظ ابن کثیر نے بھی یہی لکھا ہے، اس سورۃمیں ابتداء خلق کا، مرنے کے بعد جینے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا، حساب و کتابکا، جنت و دوزخ کا ثواب و عذاب اور غبتو ڈراوے کا ذکر ہے۔ (194/5)

صاحب معارف القرآن اور صاحب ضیاء القرآن نے لکھا ہے کہ اس سورۃ کے بیشتر مضامین آخرت اور قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے اور حساب و کتاب سے متعلق ہیں۔ (معارف القرآن 133/8)(ضیاء القرآن4/605)
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین حفظ اللہ لکھتے ہیں، رسول اللہ بڑے مجموں میں یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے کیونکہ اس میں ابتدئے خلق، بعث و نشور، معاد و قیام، حساب، جنت و دوذخ، ثواب و عتاب اور ترغیب و ترتیب کا بیان ہے۔ (احسن البیان ص1426)

سید قطب شہید فرماتے ہیں؛رسول اللہ اس سورۃ کو عید اورجمعہ کے خطبے میں پڑھتے تھے اور اسی کو بڑے مجمعے والی جماعتوں میں اپنے خطبہ کا موضوع بناتے تھے اور اس سے اس سورۃ کی ایک بڑی شان ہے۔ اس کے حقائق بڑے موثر ہیں۔ اپنی تعمیری بنیاد کے اعتبار سے اس کا اثر بہت سخت ہے۔ اس کے پیش کردہ تصویریں اور سائے اور اس کی آیتوں کی آواز نہایت موثر ہیں۔ نفس انسانی پر ہر طرف سے گرفت کرتی ہیں اور اس کے خطرات اور حرکتیں پے درپے اور تیز ہیں۔ ظاہر و باطن اور جہر و خفا بہت شدہد ہیں۔ یہ سورۃ انسان کی پیدائش سے لے کرموت تک پھر بعث و عشر تک اور حساب و کتاب تک، ہر وقت اللہ کی نگرانی اور علم محیط و شامل کو پیش کرتی ہیں۔ یہ ایک شدید، دقیق اور خوفناک رقابت ہے۔ یہ رقابت اس انسان ضعیف کے اوپر ہر طرف سے ہر طور پر کامل اور شامل انداز میں محیط ہے۔ انسان کو ایسے قبغے میں ظاہر کرتی ہیں جو اس سے کبھی غافل نہیں ہوتا، ہر سانس کو شمار کر لیتا ہے۔ ہر جذبہ اور ہر خیال اللہ کے علم میں محیط ہے، ہر لفظ لکھا جاتاہے ہر حرکت کا شمار ہوتا ہے۔ یہ نگرانی دل کے وسوسے پر بھی ہے اور اعضاء کے حرکات و سکنات پر بھی ہے۔اس نگرانی سے کوئی حجاب نہیں۔؛ اس نگرانی کی گرفت و حرکت و عمل پر بھی پر بھی اسی طرح ہے ہر وقت ہر حال میں یہ نگرانی موجود ہے۔ اس سورۃ میں بیان شدہ تمام حقائق دلائل شرح سے اور اسلامی عقائد کی زبان سے معلوم ہے مگر ان کے پیش کرنے کا انداز ایسا ہے کہ ان میں جدت آ گئی ہے۔ یہ حس کو یوں چونکاتے ہیں گویا فورااور اچانک وارد ہوئے ہیں۔ نفس کو خوب جنجھوڑتے ہیں اور اس کو ہلا ڈالتے ہیں۔ اس میں خوف کی کپکپی پیدا کرتے ہیں اور حیرت کو بڑھا تے ہیں۔ گویا کسی خوفناک امر پر غفلت سے بیداری کی طرح لاتے ہیں اور سوئے ہوؤں کو جگاتے ہیں۔

اس سورۃ میں موت زندگی گل سڑ جانے ، دوبارہ اٹھائے جانے اور میدان محشر کی تصویریں آئی ہیں۔ قیامت کے دل پر اثر کا ذکر ہے جس میں اس کی توقع کا حال ہے اور ان کائناتی نظاروں کا بیان ہے جو آسمان اور زمین میں جلوہ نما ہے۔ پھل اور کونپل میں واضح ہیں۔ یہ سب ہر عہد مذہب کیلئے تبصرہ اور نصیحت کا بیان ہے۔ اس جیسی سورۃ کی تلخیص و تعریف نہایت مشکل ہے اور اس ،یں ویرد شدہ حقائق کو معنی اور تصویروں اور ظلال کا بیان صرف اس قرآنی اسلوب میں ممکن ہے جس میں وہ وارد ہوئی اور کسی طرح سے نہیں۔ (تفسیر فی ظلال القرآن 9/420)

مولانا سید مودودی نے ایک چھوٹے سے فقرے میں اس سورۃ کا موضوع بیان کیا ہے، فرماتے ہیں،’’اس صورۃ کا موضوع آخرت ہے۔ (تفہیم القرآن 5/102)

Muhammad Qaiser Mubarik
About the Author: Muhammad Qaiser Mubarik Read More Articles by Muhammad Qaiser Mubarik: 4 Articles with 3253 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.