صحن چمن کی باتیں - لفظوں کی حرمت

کراچی کی شدید گرمی اور حبس نے برا حال کیا ہوا تھا، روزہ میں دل تویہی چاہتا تھا کہ قریب کی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کر لوں،وہاں اے سی بھی لگے تھے۔ پر دل چاہتا تھا کہ کسی بڑی مسجد میں جاکر نماز جمعہ ادا کی جائے، سو اس جامع مسجد میں پہنچا وضو سے قبل طہارت خانے گیا تو سفید خوبصورت ٹائیل پر سیاہ مارکر سے لکھے الفاظ نے دل بوجھل کردیا، اتنی بڑی جامع مسجد ، عالم میں اس کا نام لیکن تدریس میں ،،لفظوں کی حرمت ،، کا درس شائد ہی دیا جاتا ہو۔ تو کیا یہاں کے علماء اور اساتذہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے طہارت خانوں میں دیواروں پر کیا لکھا جارہا ہے۔ کیا انسان سازی کرنے والے ذہن سازی کے ہنر سے عاری ہیں۔لفظ ہی تو سب کچھ ہیں، یہ آنکھوں کو بھاتے ہیں تو سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔ لفظ خوشیوں بھرے ہوں تو اس کا احساس روح میں محسوس ہوتا ہے۔ کسی کا ایک پیار بھرا لفظ کسی کے پورے دن کو خوش گوار بنا دیتی ہے اور کبھی آپ کا ایک لفظ کسی کو گھنٹوں ر لا دیتا ہے‘ لفظوں میں جادو ہے۔ ان کا سحر قلب اور ذہن دونوں پراثر کرتا ہے اور جب لفظ تحریر کی صورت میں ہو تو ان کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔جب تک لفظ لکھا رہے گا ہر پڑھنے والا اس کے اثرات لیتا رہے گا اچھے یا برے الفاظ ہمارے روئیے اور سوچ ی عکاسی کرتے ہیں۔بقول سجاد باقررضوی،، تخلیقی معاشرہ بے جان لفظوں کی آماجگاہ نہیں ہوتا۔ ایسے معاشرے میں اقدار کے متعلق تقریریں نہیں ہوتیں، نعرے بلند نہیں کئے جاتے۔ صداقت، نیکی اور حسن کی اقدار نعروں کی صورت میں بلند بانگ لفظوں میں ادا ہونے کے بجائے انسانی عمل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہی وہ صورت ہے جس میں معنی خود لفظ بن جاتے ہیں اور ایسے ہی لفظوں کو ہم ’زندہ لفظ‘ کہتے ہیں۔ ،، قول و عمل کا تضاد لفظوں کو بے روح اور عمل کو بے جہت بنادیتا ہے۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہتی۔ ،، لفظوں کی حرمت ہوتی ہے۔کیونکہ ہمارے بعد بھی ہمارے لکھے لفظ زندہ رہتے ہیں۔ چین والے لفظوں کا عجب طور احترام کرتے ہیں۔ چین کے قدیم شہروں میں عجیب طرز کی لائیبریری قائم تھیں۔ برطانوی ادیب رچرڈ میک لکھتا ہے،، بعض گلیوں کے نکڑ پر بری بری ٹوکریاں دکھائی دیتی، جن میں پرانے چینی رسالے اور اخبارات پڑے ہوتے،بظاہر یہ ردی کی ٹوکریاں معلوم ہوتی، لیکن ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ لکھے اور چھپے ہوئے الفاظ کوڑے میں شامل ہوکر ضائع نہ ہوں، ان ٹوکریوں پر تحریر ہوتا،، چھپے ہوئے کاغذ پر رحم کریں، جیسے ہمارے یہاں،، مقدس آیات یا اوراق کا احترام کریں،، چین میں وہ لوگ بھی باعزت سمجھے جاتے جو ان چھپے اوراق کو ان ٹوکریں میں ڈالتے۔یا ان میں سے جو تحریر اچھی لگتی اسے پڑھنے کے لئے گھر لے جاتے۔ میں نے اپنے بچپن میں لکھے ہوئے لفظ اور سڑک پر پڑے روٹی کے ٹکڑے کو لوگوں کو احترام سے اٹھا کر چومتے ہوئے اونچی جگہ پر رکھتے دیکھا ہے، وہ نسل تعلیم یافتہ نہ تھی، لیکن لفظوں کا احترام اسے خوب آتا تھا۔ اب ہم تعلیم یافتہ ہو کر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو پھر معاشرے کے ناخواندہ افراد سے کیا امید رکھی جائے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ درسگاہوں میں لکھے ایک نا زیبا جملے نے کتنے خودکش پیدا کردیئے۔ان مدارس کے اساتذہ اپنے بچوں سے کیا کبھی اس بات کی توقع کریں گے کہ ان کے گھر کے باتھ روم میں بھی ایسے فقرے لکھے ہوں۔ کیا ان علماء کو اس بات کو کبھی موقع ملے گا کہ وہ ہفتے میں ایک بار کبھی ان بچوں کی کاپیوں یا باتھ روم کا جائزہ لیں جہاں لفظوں کی حرمت کو پائمال کیا جاتا ہے۔ مسجد میں دعا کے موقع پر عجیب سماں تھا، منبر سے دعاء کے لئے نکلنے والے الفاظ دلوں پر رقت طاری کیئے ہوئے تھے، اﷲ کے حضور بلند ہونے والے ہر صدا سسکیوں ، اور چیخوں میں ڈھل رہی تھی۔ یہی تو لفظ ہیں جیتے جاگتے جو روح و بدن میں اتر جاتے ہیں، تو پھر اپنے بچوں کو لفظوں کی حرمت کا درس کیوں نہیں دیتے۔شائد لفظوں کی حرمت کا احساس ہماری زندگیوں کو بدل دے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 385664 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More