پاکستان تحریک انصاف کا’’ نیا پاکستان‘‘

احتشام قاسم

مشکل تو نہیں تھامگرآسان نہیں تھا،میدان تیار تھاموسم بھی ٹھیک تھا،روشنی بھی کافی تھی، کھیل پر کپتان کی گرفت بھی تھی، تماشائی، مداح اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی،بلکہ امید سے زیادہ تھے۔ غرض کہ سب کچھ ایسا تھا کہ کپتان کو ٹرافی اٹھانی ہے بس، مگر پھر منظر نے رنگ بدلنے شروع کیے اور جو کچھ قریب دکھائی دے رہاتھا وہ آہستہ آہستہ دور ہوتا ہو گیا اور میچ طویل ہوتا گیااور پھر وہی ہوتا گیا جو ہوتا ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ کپتان کے الفاظ اور اندازسے الجھن جھلکنے لگی۔ ایسا ہی ہوتاہے ، اگر آپ کے آس پاس کے لوگ مشیرباتدبیرہونے کے بجائے ’’بے تدبیر‘‘اور’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ہوتے ہیں۔

عمران خان صاحب المعروف کپتان صاحب نے ایک گیند کے بعد دوسری گیند اور پھر میرے خیال میں ایک اوور (Over)میں میچ کو خود ہی طویل کردیا اور پھر ’’نیاپاکستان‘‘بنانے کا میچ اٹک گیا۔آخر یہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور اب کیا ہوگا؟ اب تمام سوالات کے جوابات کی مجھے بھی تلاش ہے اور ایک عام شہری کی سوچ کے لیے اور اس کے لیے میں نے اپنی سوچ کو چند سال ماضی کی سیر کے لیے لے گیا۔ جب ’’نیاپاکستان‘‘کا نعرہ بلند ہوا اور یہ نعرہ بہت جلد اور تیزی سے مقبول ہوتا چلا گیا۔ امید کی سڑک ولہر بنتی ہوئی نظر آنے لگی کہ جو شاید منزل کی جانب سفر کے لیے لازم تھی۔ گھروں میں، اسکولوں اورکالجز میں،دفاتر اور کارخانوں میں غرض کہ ہر جانب ’’نیاپاکستان‘‘ایک خواب بنتا چلا گیا اور لوگوں نے اس کو خوش آمدیدکہاا وراسی تسلسل میں آگے بڑھتے ہوئے 2013ء کے عام انتخابات کا وقت بھی آ گیا اور شہر شہر، گاؤں گاؤں اورقریہ قریہ جلسے جلوس، ریلیاں ،میٹنگز، بینزر، اسٹیکرز، پوسٹرز، پینافلیکس اورجھنڈے جھنڈیوں کے ذریعے عام انتخابات کی مہم شروع ہوگئی۔جوش وخروش کا وہی ماحول ہے کہ جس سے احساس ہو کہ ملک میں جمہوریت ایک قدم اور آگے بڑھنے والی ہے۔

اسی روایتی شور میں تحریک انصاف کا نعرہ ’’نیاپاکستان‘‘مقبولیت کی بلندی پرموجود رہا۔ خاص طورپرملک کے نوجوانوں کے لیے اس کے ساتھ جوخواب جڑتے گئے۔ میری نوجوانوں کو یہ نصیحت رہتی ہے کہ امید بلند نہ کرو اگر وہ پوری نہ ہوتو آپ کو دکھ ہو۔ مگر شایدکوئی وائرل انفیکشن تھا کہ سب یک زبان تھے کہ بس آپ کے درد کا پاکستان ختم، اب ہمارا ’’نیاپاکستان‘‘بننے والا ہے،ان کے اس گمان کے مطابق چندسالوں میں ہر بچہ اسکول جائے گا، سرکاری ہسپتالوں میں ہر ایک کو مفت علاج ملے گا۔ رشوت اور اقربا پروری ختم ہوجائے گی،پولیس ٹھیک ہوگی کارخانے، تجارت ،معیشت بحال اور ترقی کی کشادہ سڑک پر ملک دوڑے گا۔ ایسے خیالات سنتے ہوئے مجھے گھبراہٹ سی ہوتی ہے اور پھر میں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب جب کہ سال دو سال گزر گئے اور ہم 2015کاآدھال سال گزار چکے ہیں اور یہ وہ وقت ہے کہ ان نوجوانوں کے حساب سے ’’نیاپاکستان‘‘بن چکا ہوتا جوکہ اب تک تو توبنانہیں بلکہ عمران خان کے لیے ایک طعنہ ضرور بن چکا ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس صورت حال سے ابھی تک سمجھوتا نہیں کر پارہے ہیں۔

’’نیاپاکستان‘‘ایک بہت ہی خوب اور حسین نعرہ اور مقبول بھی مگر اس خواب کو دکھانے والوں کے پاس آخر کیا کمی رہی کہ یہ سب الجھتا چلا گیا اور کپتان کی گرفت میچ پر کمزور کیوں پڑی؟ احاطہ کرتے ہیں ۔گزشتہ دو سالوں کا جس میں اوپرلکھے الفاظ کو ایک جگہ جمع بھی کرتے ہیں تو کچھ مقصدگفتگوواضح ہوجائے گا۔

جنوری سے مئی تک انتخابات کا وقت بڑے بڑے جلسے جلوس اور پارٹی کے نعرے اور گیت ، عوام کا جوش انتہا کی حد پر اور نئے پاکستان کی امید لیے لاکھوں لوگ مگر……11مئی کی تاریخ آئی اور وقت گزر گیا۔ نتائج آ گئے اور سونامی کو وہ فتح نہیں مل سکی جو اس کی خواہش تھی۔ کپتان زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل اور ان کا بیان چار حلقے کھول کر تحقیق کریں کہ دھاندلی ہوئی ہے مگر چار حلقے کھولنے کے لیے عدالت سے سڑک تک۔126دن کا طویل دھرنا اور روز تقریر ، بیان، انٹرویو، اور خون گرما دینے والے نعرے، ہر ٹی وی چینل پر تحریک انصاف کے افراد، نمایندے، کپتان کی ٹیم کی کھلاڑی،ہراخبار میں تصاویر اور بیان مگر…… تحریک انصاف خود کو روایتی اندازِ سیاست کے اس مروجہ طریقے سے مختلف انداز بات کرتی۔ یہ بات عمران خان (کپتان) سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ جب وہ گیند کراتے تھے تو سب سے زیادہ پریشانی اس بلے باز سے ہوتی ہے جو باہر جاتی ہوئی گیند کو چھوڑ دیتا ہے اور پھر بالر کو دوبارہ زورلگانا پڑتاہے اور بالرکو ایسے بلے باز سے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اس طرح وہ پچ کو سمجھ جاتاہے۔مگرافسوس کریں یا تعجب کیا جائے کہ کپتان نے ہر بال کو کھیلنے کا انداز اپنا یا۔ حد تو یہ ہے کہ Wide Ballتک کو نہ چھوڑا اور پھر وہ آہستہ آہستہ بالر کی مرضی سے کھیلنے لگے۔ اگر وہ بہت سے الفاظ کو بولنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے سوچ لیتے تو آج تحریک انصاف کے مسائل10فیصدہوتے۔ جوآج ہر طرف اور ہر سو سائے کی طرح ان کے گرد موجود ہیں۔

ایک اور زاویہ خود احتسابی کا تحریک انصاف اپنے اندر رائج کرسکتی ہے کہ اپنے کسی بیان اورتقریر کا تجزیہ کیاجاتا کہ اس کا Fall Backکیا ہوا۔ اپنے کارکنان کو ٹاک شوز میں بھیجنے سے قبل یہ فیصلہ بھی کیاجاتاکہ جو اس پروگرام میں پارٹی کی طرف سے جارہاہے اس کی صلاحیت کیاہے اور اگر اسی کو شامل ہونا ہے ٹی وی پروگرام میں تو پھر ایک باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس انداز کی ٹریننگ عام ہے۔

تحریک انصاف کے نعرے اور منشور نے عوام میں جوش پیدا کیا۔لوگ بڑی تعداد میں اس کے حق میں سڑکوں پر بھی آئے مگر اس موقع کو بھی جذباتی انداز سے آگے بڑھایاگیا۔ حیران ہو ں کہ عوام میں مقبول ہونے اور رہنے کے اس عمل میں وہی انداز رہا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہے۔ پھر لوگوں کی توقع کو بڑھانے کے لیے قدم بہ قدم کے بجائے راکٹ کی رفتار سے آگے بڑھاگیا۔ مناسب ہوتاکہ اپنے کارکنان اور مداحوں کو اس احساس کے ساتھ آگے بڑھایاجاتاکہ ہمارا مقابلہ ہم سے زیادہ بڑے کھلاڑیوں سے ہے، ہم کو اگرکامیابی ملے توکسی مقام پر ناکامی بھی ہو سکتی ہے جس سے ہم مزید سیکھ کر آگے چلیں گے۔

پاکستان تبدیلی چاہتا ہے یہ احساس سڑک پر چلتے ہر دن ہوتاہے۔ فرسودہ نظام سے ہر شہری نجات چاہتا ہے، ہر شخص آزادی کی خواہش کے لیے بیدار ہوتاہے اوراسی تمنا کے ساتھ سوجاتاہے مگر عملی طورپرکچھ کرجانے اور مرمٹنے کے لیے صرف دوفیصدلوگ تیار ہیں۔ اب ان ۲ فیصد کا مقابلہ ان ۲ فیصدسے ہے جو پاکستان کے وجود میں آنے سے آج تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ایک طرف تمام مسائل ہیں،طاقت ہے،ریاست کی مشینری ہے تود وسری طرف بے سرو سامانی ہے، عام آدمی کا جمہوریت میں کوئی کردارنہیں ہے۔

ایک بات یاد رہے کہ کاغذ پر لائن لگا کر اس کو بغیر ہاتھ لگائے چھوٹا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے برابر میں اس سے بڑی لائن کھینچ دی جائے مگر افسوس کہ عام اور مشہور طریقہ آپ نے بھی اپنایا کہ لائن کو چھوٹا کرنا ہے تو اس کو مٹادو یا پھر کاغذ پھاڑ دو۔ محترم ایسا کرنے سے ہی نئے مسائل جنم لیتے ہیں اور جنم لیتے رہیں گے۔
 
M.Nasir Khan Chishti
About the Author: M.Nasir Khan Chishti Read More Articles by M.Nasir Khan Chishti : 8 Articles with 35285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.