کوہ نورِ ہند ڈاکٹر کلام کی خاموشی بولتی ہے

پیر کی شام (27جولائی) جب یہ خبر آئی کہ اس دور کے کوہ نور ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام کا اچانک انتقال ہوگیا توطبیعت کی بے کیفی اس قدر بڑھی کہ خیال ہوا پارلیمانی اجلاس کی طرح اس ہفتہ کا کالم میں بھی موقوف کردوں۔ کچھ ان کو پڑھوں کچھ ان کی وفات پر سردھنوں۔ لیکن دورکسی دریچے سے ڈاکٹرکلام کا مسکراتا ہوا چہرہ عالم تصور میں ابھرا گویا کہہ رہا ہے:’’ نقصان سے غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ اس کی تلافی کیلئے دوگنی محنت اورلگن سے کام کرنا چاہئے۔‘‘ پھرکلام کا یہ قول یاد آیا:’’ میری وفات پر چھٹی نہ کرنابلکہ زیادہ کام کرنا۔‘‘

ڈاکٹرکلام کرم یوگی تھے۔ ان کی پہچان ’’ہرحال میں کام ‘‘ سے ہوتی تھی۔ اس خیال سے حوصلہ ملا اوریہ چندسطوراس ہستی کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے لکھنے بیٹھ گیا جس نے بدترین حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارااورپیرانہ سالی کے باوجود تادم آخراپنے مشن میں لگا رہا۔ وہ شیلانگ میں طلباء سے مخاطب تھے جب دل کا دورہ پڑا اوروہ چل بسے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

یہ دل بھی اﷲ نے انسان کے جسم میں عجیب چیز بنائی ہے۔ دل ٹھیک تو زندگی میں قرار، دنیا میں بہاراور آخرت بھی سرفراز۔ جہاں ساخت میں کچھ خرابی ہوئی زندگی ڈانواڈول۔حرکت رکی اور زندگی ختم ۔اوراگرفکروخیال، سوزوساز میں خرابی پیدا ہوگئی توسمجھو پھردوجہان کی خرابی مقدرہوگئی۔

ڈاکٹرکلام اس دورمیں لیاقت و عزیمت، انسانیت و شرافت اورقوم کیلئے بے لوث فکرمندی کا ایک استعارہ تھے۔ہم بڑی ہستیوں کو چاند اورستارے کی تشبیہ سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹرکلام کی حیثیت چاند،ستارے سے بڑھ کرسورج جیسی تھی، جو خود کا جلاکرسارے جہان کوزندگی کا پیغام دیتا ہے۔نوجوانوں سے انہوں نے ایک خطاب میں کہا تھا: ’اگر چاہتے ہو کہ دنیا میں سورج کی طرح چمکو ،تو خود کو سورج کی طرح جلاؤ۔‘

آج ہم جب ان کو ان کی وفات پر یاد کررہے ہیں تو صرف دعائے مغفرت کافی نہیں ۔ ان جواہر پاروں کو اپنی پلکوں پرسجانا ہوگا جن کی بدولت وہ ہمارے اورہماری نوجوان نسل کے دلوں میں بس گئے۔ان کے آخری دیدار کیلئے ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ٹی وی چینلزپر گھنٹوں ان کا ذکرہوتا رہا۔ اورلوگ توجہ سے سنتے رہے۔ ہم بھی ان اعلا اقدار کوسلام کرتے ہیں جن کوانہوں کے اپنایا اور آبیاری کی۔ یہ ان کے نیک دل صاحب ایمان وایقان والدین کی نصیحتوں کا نتیجہ تھا۔

یہ جواہر پارے ان کی تقریروں اورتحریروں میں بھی ملیں گے اوراس زندگی میں بھی جو وہ جئے اورجس طرح جئے۔ان کے ہاتھ کے نیچے کام کرنے والوں کا ان سے والہانہ تعلق کوئی معمہ نہیں۔ ان کے رویہ میں ان تعلیمات کا پرتو نظرآتا ہے جو اپنے زیردستوں کے ساتھ آقائے نامدارﷺ نے ڈیرھ ہزارسال اپنے رویہ سے دیں۔ جن کے ذکر پر ہم جھوم جھوم تو جاتے ہیں مگرجن کو اپنی زندگی میں اختیارکرنے پرہمارانفس آمادہ نہیں ہوتا۔

آگے بڑھنے سے پہلے ان کی زندگی کی ایک جھلک۔ وہ تمل ناڈو میں ساحل کے قریب ایک چھوٹے سے ٹاپو پرآباد قصبہ رامیشورم میں سنہ1931ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والداپنی کشتیوں میں مسافروں کو لانے لیجانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ والد اوروالدہ دونوں ناخواندہ تھے ،لیکن اعلاقدروں کے حامل تھے ۔اندازہ ہوتا ہے کہ خود تعلیم سے محروم رہنے کے باوجود ان کو تعلیم کی قدروقیمت معلوم تھی، اسی لئے ان میں کلام کو پڑھانے کی گہری لگن تھی۔ان کی والدہ کمسن کلام کو صبح چاربجے جگادیتیں ۔ تعلیم کا سلسلہ صبح پانچ بجے استاد کے گھرسے شروع ہوتا۔ایک گھنٹہ بعد مدرسہ جاتے اورقرآن پڑھتے۔ پھر اسکول جاتے۔ اس درمیان اپنے بھائی کا ہاتھ بٹاتے اور رامیشورم میں اخباروں کے ایجنٹ تھے ۔ان کی زندگی کا یہ دورمشکلات سے پر ہے۔ مگر مددگاربھی ملے۔ جب بی ایس سی میں داخلہ کا مرحلہ آیا اورفیس کا بندوبست نہیں ہوسکا تو بڑی بہن زہرہ نے اپنے سونے کے کڑے بیچ کر بھائی کی مدد کی۔ وہ بہت ذہین طالب علم تونہیں تھے، لیکن اپنی لگن ،محنت اوربلند اخلاق کی وجہ سے اپنے اساتذہ کی نظروں میں بسے رہے اورآخر بلندیوں کو سرکرلیا۔یہ کم اہم بات نہیں کہ ایک ملاح کا بیٹا ایروناٹیکل انجنئر بن گیا۔ میزایل سازی میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ میزائل مین کہلایا۔ سرکار نے ان کی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن اورپدم وبھوشن سے سرفراز کیا ۔ملک کا سب سے بڑاعزار بھارت رتن بھی ملا۔انہوں نے انتہائی حساس شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ وہ نیک دل،خوش عقیدہ اورباعمل مسلمان تھے۔ لیکن وہ کسی بھی مرحلہ پر تعصب کا شکارنہیں ہوئے۔ ان کو ان کی لیاقت اورخدمت کے جذبہ نے ہمیشہ آگے ہی بڑھایا اور قصر صدارت تک پہنچایا۔ان کوایک امتیاز یہ حاصل ہوا کہ وہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ڈاکٹرذاکرحسین خان کے بعد تیسرے ایسے صدرجمہوریہ بنے جس کواس منصب پر پہنچے سے پہلے ہی بھارت رتن کا اعزاز مل چکا تھا۔ ملک اوربیرون ملک کی 30 یونیورسٹیوں نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں تفویض کیں۔بڑی بات یہ ہے کہ اتنے اعزازات مل جانے کے باوجودان میں بڑبولا پن نہیں تھا۔ انکی انکساری ، خوش اخلاقی اوراپنے گرد لوگوں کے ساتھ حسن سلوک نے ان کی شخصیت میں چارچاند لگادئے۔ نوجوانوں کے لئے ان کو مینارہ نور بنادیا۔ان کو ہردل عزیزبنادیا ۔اٹھے تو وہ بھی زمین سے ہی تھے۔اخبارفروشی بھی کی۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ کس نے زندگی کی شروعات چائے فروشی سے کی اور کس نے اخبار فروشی سے ۔بلکہ یہ ہے کہ جب وہ بلند مرتبہ پرپہچا تواس کی ذہنی سطح کتنی بلند ی پر پہنچی؟ وہ انکساری، شرافت اور انسانیت کا نمونہ بنا ،یا اس کا سینہ کبر وغرورسے تن گیا ؛گردن اکڑی رہی ، مطلق العنان حاکم بن گیا ،ببول کی طرح ہرکسی کی تواضع کانٹوں سے کی یا یا اس کے بازو پھل داردرخت کی شاخوں کی طرح جھکے رہے؟

وہ قصرصدارت میں بھی رہے تومعمولی شہری کی سی زندگی جئے۔اپنا بہت سا کام خود کرلیتے تھے۔ راشٹرپتی بھون میں تین سو سے زیادہ کمرے ہیں۔لائبریری اورریڈنگ روم ہیں۔ لیکن وہ لان میں اپنی پھونس کی چھتری میں بیٹھ کر کام کرتے، اخبار اور کتابیں پڑھتے۔ ان کواے سی کمروں کے بجائے، فطرت کی اسی گود میں راحت ملتی جس میں ان کا بچپن گزرا تھا۔طالب علمی کے زمانے میں بھی وہ سمندرکے کنارے بیٹھ کر گھنٹوں پڑھتے، مظاہرقدرت پر غوروفکر کرتے۔ یقینا بجلی کی روشنی سے سورج کی روشنی افضل ہے۔میسرہو توانسان کیوں محروم رہے؟کچھ نہ کچھ بجلی بھی بچی ہوگی جو ملک کی ضرورت ہے۔انہوں نے اشد ضرورت کے علاوہ راشٹرپتی بھون کی سہولتوں کو استعمال نہیں کیا۔

آجکل جب کہ ہرطرف سیاست دانوں کی بے ایمانیاں اوربداعمالیاں عیاں ہو رہی ہیں، ڈاکٹرکلام ہرطرح کے داغ دھبوں سے پاک رہے۔ وہ اختیاراوراقتدار کے اہم منصبوں پرفائز رہے، مگران کی طرف کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ وہ ایک سفری چھوٹی اٹیچی اورکپڑوں کی ایک بڑی اٹیچی کے ساتھ راشٹرپتی بھون میں داخل ہوئے اورپانچ سال بعد وہی دواٹیچیاں لے کر وہاں سے چلے گئے۔اس دوران ہزاروں تحفے ملے۔ کسی پردل نہیں للچایا۔کچھ بھی ساتھ لیکر نہیں گئے۔ وہ سرکاری املاک کے بارے میں کس قدرمحتاط تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے ایک مرتبہ ان کے بھائی اور دوسرے عزیر دہلی آئے۔ راشٹرپتی بھون میں ان کے ساتھ رہے مگران کا کھانا، ناشتہ ڈاکٹرکلام نے اپنی جیب سے پیسہ دیکر باہر سے منگوایا۔چائے کے لئے پونے تین لاکھ جمع کرائے۔ ان آنے جانے کیلئے سرکاری گاڑیاں استعمال نہیں کیں، ٹیکسیاں منگوائیں۔ اس طرح اپنے ذاتی مہمانوں کا کوئی خرچہ سرکاری خزانہ پر نہیں ڈالا۔اتنا ہی نہیں ضرورت کے وقت وہ اپنے اسٹاف کی مدد سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اورازخودان کی خبرگیری رکھتے۔
جب وہ میزایل پروجیکٹ پر کام کررہے تھے ،ان کے تحت ایک اسٹاف کا بیان ہے کہ اس کابیٹا ممبئی میں سخت بیمارہوگیا۔کئی دن تک فون نہیں ملا۔ جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان تھا۔ کام ٹھیک سے نہیں کرپارہا تھا۔ ڈاکٹرکلام جواس وقت وہاں کے افسراعلا تھے، بھانپ گئے اور احوال معلوم کرنے خود اس کے گھر پہنچ گئے ۔ان کی ہدایت پر فون آپریٹرنے فوراً بیمارلڑکے سے بات کرائی۔ڈاکٹر کلام نے اس سے کہا اگرپروجیکٹ میں شامل کوئی شخص ایک دن بھی کام نہ کرے توپورے پروجیکٹ کا نقصان ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈسپلن، سختی اورظلم میں فرق کرنا چاہئے۔

انہوں نے چاردہائیوں تک بحیثیت سائنسداں خدمات انجام دیں اورکئی ایسی پروجیٹکوں پر کام کیا، جن کی بدولت آج ملک کا نام دنیا میں بلند ہے۔ ان میں سب سے اہم خلامیں سیارچے بھیجنے والی گاڑی پی ایس ایل وی ہے، جس سے آج دنیا بھر کے چھوٹے بڑے سیارے داغے جارہے ہیں۔

انہوں نے ہرشعبہ میں، ہرپروجیکٹ میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ اورجب نہایت پیچیدہ قومی سیاسی حالات میں ان کا انتخاب صدر جمہوریہ کے منصب پر کیا گیا تواس حیثیت میں بھی انہوں نے اپنی چھاپ چھوڑی۔وہ مثالی صدربنے۔ پس منظراس کا یہ ہے کہ باجپئی کے دورحکومت میں گجرات کے فسادات سے ایک غلط پیغام پوری دنیا میں گیا۔اس مرحلہ پر یہ جتانے کیلئے گجرات میں جوکچھ ہوا ،اس کے باوجود حکمراں سیکولراقدار سے منحرف نہیں ہوئے ہیں، این ڈی اے کی نظرانتخاب صدرجمہوریہ کے منصب کیلئے ڈاکٹرکلام پرپڑی۔ منصب سنبھالنے کے ایک ہی ماہ کے اندرہی انہوں نے یہ بھی جتادیا کہ وہ محض ربڑ کی مہر نہیں ۔ حکومت کی منشاء کے خلاف انہوں نے گجرات کا نجی دورہ کیا۔ انہوں نے عوام سے اورخصوصاً نوجوانوں سے اورطلباء سے رابطے کے ہرموقع کا فائدہ اٹھایا اوران کو فکرانگیزنصیحتوں سے نوازا۔ ان کا یہ نظریہ درست ہے کہ ملک کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ وہ لائق اورباکردار ہونگے تو ملک ترقی کریگا ،ورنہ عافیت خطرے میں ہے۔

وہ نوجوانوں سے کہتے تھے۔’کسی کوہرانا بہت آسان ہوسکتا ہے، مگرکسی کو جیتا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘انہوں نے اس مشکل کوخود آسان کردکھایا تھا۔ یہی وجہ ہے ملک کے طول وعرض میں ہرمذہب اورفرقے میں ان کے مداحوں کے بڑی تعداد ہے۔وہ کبھی مشکلات سے نہیں گھبراتے تھے۔ کہتے تھے: ’مشکلات تو کامیابی کا جوہر ہیں۔ اگرفیل ہوجاؤ تو حوصلہ مت ہارجاؤ۔ ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی جانو۔‘‘

انگریزی لفظ ENDبمعنی ختم کی وہ تشریح یوں کرتے: ای سے ایفرٹ(کوشش)، این سے نیور(کبھی نہیں) ڈی سے ڈائی (مرتی) ۔ یعنی امید ختم نہیں ہونی چاہئے کیونکہ کوشش کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ ناکام ہوگئے تو پھرکوشش کرو۔ اورNOیعنی نہیں کو وہ ’نیکسٹ اپورچونٹی‘یعنی ’اگلا موقع‘ کہتے۔

ایک مرتبہ انہوں نے بڑی ہی پتہ کی بات کہی۔’’ خواب وہ نہیں ہوتا جورات کو سوتے میں دیکھتے ہو۔ خوا ب وہ ہوتاہے جو دن میں سونے نہ دے۔ خواب، خواب ، اورخواب۔ خوب خواب دیکھو ۔ اپنے خواب کوتصورمیں تبدیل کرلو اورعزم اورحوصلے کے ساتھ اس تصور کو عملی جامہ پہنانے میں لگ جاؤ، ایک دن کامیاب ہوگے۔‘

ایک مباحثہ کے دوران انہوں نے کہا تھا آپ ترقی کا کوئی بھی ماڈل اپنائیں ، لیکن جب تک ملک کے غریب اوپرنہیں اٹھیں گے، ترقی بے معنیٰ ہے۔ ان کو معاشرے کے دبے کچلے اورمحروم طبقہ سے کتنی ہمدردی تھی، اس کا اندازہ ان کے اس تاثرہوتا ہے جو انہوں نے پھانسی کی سزایافتہ مجرموں کے بارے میں ظاہر کیاتھا۔انہوں نے آنکھ بند کرکے رحم کی درخواستیں مسترد کرنے کی فائلوں پر دستخط نہیں کئے بلکہ کہا تھا:’’ایک مشکل کام جو بحیثیت صدرمیرے سامنے آیا وہ موت کی ان سزاؤں کی توثیق تھی جو عدالتوں نے سنائی تھیں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ جتنے بھی کیس عدالت کے حکم کی تعمیل کیلئے میرے زیرغورلائے گئے، ان سب میں سماجی اور اقتصادی تعصب صاف نظرآتا تھا۔جس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن لوگوں کو ہم سزادے رہے ہیں ،وہ ایسے لوگ ہیں جو دشمنی عناد اورجرم کے ارتکاب میں از خود ملوّث نہیں۔‘‘ یعنی وہ حالا ت کے مارے ہیں اورکیونکہ وہ رسوخ دارلوگ نہیں ،اس لئے ان کو پھانسی کے پھندے پرلٹکادیا جاتا ہے۔ جب کہ رسوخ داربچ جاتے ہیں۔یہ مشاہدہ عام ہے۔ تعصب کی بناء پراور سیاسی فائدے کیلئے کسی بے بس انسان سے جینے کا حق چھین لینا انصاف کے تقاضے کی تکمیل نہیں بلکہ اسی طرح کا عدالتی قتل ہے جیسا عرف عام میں ہمارے پڑوسی ملک میں اور عراق میں سابق حکمرانوں کا ہوا اورجس کی نقل بنگلہ دیش میں کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں جس طرح گزشتہ چند سالوں میں اس سزا کا سلیکٹیو(مخصوص نظریہ سے انتخابی )نفاذ ہورہا ہے اس سے یہ تاثربہرحال پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کے تقاضے نہیں کچھ اورمقاصداس کے محرک ہیں۔

آخری بات : سنہ 2007میں جب ڈاکٹرکلام کی مدت صدارت پوری ہورہی تھی تب متعددپارٹیاں اس حق میں تھیں کہ ان کو ہی ایک اورمدت کے لئے چن لیا جائے۔ مگر کانگریس متفق نہیں ہوئی۔ ڈاکٹرکلام پرکانگریس نے جس شخصیت کو ترجیح دی، اس پر کئی سوالیہ نشان لگے ۔ڈاکٹرکلام کے لائق وفائق مفکرہونے میں کس کو شک ہوسکتا ہے۔ ان کی امانت ودیانت اورسوجھ بوجھ پر بھی کبھی کوئی داغ دھبہ نہیں لگا۔ ان کا فکری افق ہی وسیع نہیں تھا بلکہ مطالعہ اورتاریخ وسماجیات کا شعور بھی امتیازی شان رکھتا تھا۔ بیشک وہ ایک غریب پس منظر سے آئے تھے،نام سے ہی نہیں اپنے برتاؤ اورعمل سے بھی مسلمان تھے۔ انہوں نے ان اقدارکو اختیارکیا جن کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔جن کی بدولت وہ سربلند ہوئے۔پہلے انتخاب کے وقت ڈاکٹرکلام پرایک الزام یہ لگا تھا کہ وہ ہندتووادیوں کی پسند ہیں۔لیکن وہ کیا ذہن تھا جو کانگریس کی امیدور کی زبان سے بولاتھا؟ فرمایا:ہندوؤں میں پردہ مسلم غازیوں کے ڈرسے مروج ہوا۔ اب وہ ڈر ختم ہوا، ہندوعورتیں پردے سے باہر آئیں۔‘ ہم کوئی موازنہ نہیں کررہے ہیں۔ لیکن بہرحال تاریخ یہ سوال ضرورکانگریس سے پوچھے گی کہ اس نے ڈاکٹرکلام کو قبول کرنے سے کیوں انکارکیا؟ اوراس کی اپنی پسند کس پہلو سے ڈاکٹرکلام سے وزنی اس کو نظرآئی؟
چلتے چلتے ساجد اقبال کی ایک غزل کا مطلع اورمعمولی تحریف کے ساتھ دومصرعے:
سورج ہوں، زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
ہر سو چلیں گے مجھ سے صداقت کے سلسلے
جینے کا اس جہاں میں ہنر چھوڑ جاؤں گا
دعا ہے کہ اﷲ ڈاکٹرکلام کی حسنات سے سبق لینے کی توفیق دے اوراس کے صلے میں ان کو اپنی مغفرت سے نوازے۔ آمین۔
 
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 161546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.