گلگت بلتستان کی حکومت بلدیاتی انتخابات سے گریزاں کیوں؟

ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بارشوں اور سیلابی تباہ کاریاں جاری ہیں اور تاحال بارشوں کا سلسلہ بھی مکمل تھما نہیں ہے ۔ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA)کی 28جولائی کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں پانچ افراد جاں بحق دوافراد زخمی، 663گھر تباہ اور 167گاؤں شدید متاثر ہوئے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی 28جولائی کی پریس کانفرنس کے مطابق255مکانات، 455ایکڑ ذرعی اراضی وباغات تباہ ہوئے اور 70کڑورروپے کی سرکاری کے املاک کونقصان ہواہے۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف 30جولائی کو گلگت بلتستان کے اہم دورے سکردو پہنچ رہے ہیں،جس میں متاثرین کی بحالی سمیت اہم میگا پروجیکٹس کااعلانات متوقع ہیں، جبکہ بعض ذرائع کا دعوی ٰہے کہ وزیر اعظم خطے کی آئینی صورتحال کے حوالے سے پیش رفت سے بھی عوام کو آگاہ کریں گے تاہم اس حوالے سے کوئی اہم اعلان متوقع نہیں ہے ۔وزیراعظم کے دورے کی تصدیق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کی ،جس میں مسلم لیگ(ن) کے نامزد سینئر صوبائی وزیر حاجی اکبر تابان بھی موجود تھے،مگر ناراض دکھائی دے رہے تھے ۔ذرائع کے مطابق حافظ حفیظ الرحمن نے حاجی اکبر تابان کو بطور سینئر وزیر حلف اٹھانے کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی ہے تاہم موصوف کی سوئی ابھی تک گورنر کے عہدے پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر موصوف وزارت بعض دیگر شرائط کے ساتھ قبول کریں گے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی پریس کانفرنس سے بھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عالمی اور مقامی سفارش اور دباؤ پر میر غضنفر علی خان کو گورنر بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا کیاہے اور حاجی اکبر تابان اب عملاً باہر ہوچکے ہیں ،تاہم ممکن ہے کہ وزیر اعظم کو دورہ سکردو کے دوران عوام قائل کرنے میں کامیاب ہوں ۔وفاقی وزیر امور کشمیر و گورنر گلگت بلتستان چوہدری محمدبرجیس طاہر کا کہناہے کہ’’ میں نے وزیر اعظم کو اﷲ کا واسطہ دیکر کہاہے کہ مقامی گورنر تعینات کریں‘‘۔گورنر کی یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر نوازشریف مقامی گورنر کی تعیناتی سے گریزاں کیوں ہیں؟ کیا کوئی مقامی آدمی اس کا اہل نہیں ہے یا کوئی اور وجہ ؟ ۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت کومقامی گورنر کی تعینات کرکے آئین کی 18ویں ترمیم کی پاسداری کرنی ہوگئی اگرچہ آئین کا برائے راست اطلاق گلگت بلتستان پر نہیں ہوتاہے لیکن اخلاقی ذمہ داری ضرور ہے ، خطے کے عوام برجیس طاہر گورنر کم وائے سرائے زیادہ محسوس کرتے ہیں ۔

گورنر گلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر نے بھی بارش اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع استور، گلگت ،گانچھے اور سکردو کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے ،تاہم یہ دیکھا گیاکہ گورنر اور وزیر اعلیٰ ایک ساتھ دوروں میں تھے ،اس کے بجائے الگ الگ علاقوں کا انتخاب کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ ضلع دیامرسے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ وہاں متاثرین کو نظر را ندازکیا جارہاہے ،دیامر میں جس بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں ان کو مد نظر رکھا جائے تو لوگوں کے خدشات درست ہیں ،شایدلوگوں کے خدشات کی اصل وجہ ابھی تک گورنر یا وزیر اعلیٰ کا دورہ نہ کرنا ہے ،تاہم جب ایک تہائی سے زیادہ کابینہ کے ارکان کا تعلق دیامر سے ہی ہو تو یہ شکوہ بے جا ہے ۔ خطے میں گندم کے بحران پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، گندم کے شدید بحران کی اطلاعات استور ،دیامرغذر سمیت تمام اضلاع سے مل رہی ہے،اس کو سنجیدہ نہ لیاگیا تو قحط کا خطرہ ہے ۔

جہاں تک اعدادوشمار کاتعلق ہے ایسا محسوس ہوتاہے کہ درست اعداد وشمار اب تک حکومت گلگت بلتستان کو دستیاب نہیں ہیں کیونکہ میڈیا کے مطابق نقصانات کا تخمینہ NDMA اعداوشمار سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات حاجی ابراھیم ثنائی بھی NDMA کے اعدادوشمار پر خاموش نہ رہ سکے اوران اعداد شمار کو مستر دکردیا۔ دراصل گزشتہ پانچ سالوں میں حکومتی ادارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے تقریباً مفلوج ہوچکے ہیں اور بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے بلدیاتی ادارے بھی ختم ہیں،جس کی وجہ سے حکومت اعدادوشمار کاانحصار NDMAپر ہی کر رہی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے 28جولائی کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی پریس کانفرنس نے ایک مرتبہ پھر مایوس کردیا ہے۔جن کا کہناہے کہ ’’ایک سال کے اندر نئی اصلاحات کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کرائیں گے‘‘ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعلان بھی مہدی شاہ حکومت کا تسلسل ہے۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سیاسی حکومتوں کی تاریخ کافی تلخ رہی ہے اور ایسا لگتاہے کہ اب بھی معاملہ نئی اصلاحات کا نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات سے فرار کا ہے، لیگی کی حکومت اگر بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کرتی ہے تو یہ خطے کے لئے ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔حکومت سنجیدہ ہوتو 3سے 4ماہ میں بآسانی انتخابات ہوسکتے ہیں۔حافظ حفیظ الرحمن جن اصلاحات کا ذکر کررہے ہیں غالباً ان کا تعلق نئے اضلاع کی حد بندی، حلقہ بندی اور دیگر معاملات سے ہے ،دلچسپی لی جائے اور نیت ٹھیک تو یہ یہ کام چند ہفتوں کا ہے ،اس لئے حافظ حفیظ الرحمان کسی عدالتی حکم کے انتظار کی بجائے نومبر 2015ء تک بلدیاتی انتخابات کروادیں ۔

وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے انتخابات سے قبل جن چار نئے اضلاع ہنزہ ،نگر ،شگر اورکھرمنگ کے قیام کا اعلان کیا تھاان کا سرکاری اعلامیہ24جولائی بھی جاری ہوچکاہے،یہ لیگی قیادت کا یہ اچھا قدم ہے،تاہم ضلع دیامر میں دریل /تانگیر اور ضلع غذر میں یاسین اور دیگر علاقوں پر مشتمل نئے اضلاع کاقیام شدید عوامی مطالبہ اور ضرورت ہے ۔ گلگت بلتستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان دونوں اضلاع کے قیام کے حوالے سے پیش رفت کرے اورسنجیدگی سے وفاقی حکومت کو راضی کیا جائے ۔

گلگت بلتستان میں انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد سیاسی سرگرمیاں محدود اور حالیہ بارشوں کی وجہ سے تقریبا ختم ہیں تاہم چند روز قبل مسلم وحدت مسلمین کے صدر علامہ ناصر عباس جعفری کی پاکستان اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی سے ہونے والی ملاقات خطے کی سیاست میں اہم پیش رفت کا سبب بن سکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق کونسل کے انتخابات کے بعد بعض اپوزیشن جماعتیں موجودہ قائد حزب اختلا ف حاجی شاہ بیگ کو تبدیل کرکے اسلامی تحریک کے نمائندے کو قائد حزب اختلاف بنانے پر راضی ہوچکی ہیں تاہم کونسل کے انتخاب سے پہلے ایسا کرکے حاجی شاہ بیگ سمیت دو سے تین ووٹوں کونسل کے انتخاب میں نہیں رہنا چاہتی ہیں اسی لیے نئی قائد حزب اختلاف معاملہ کونسل کے انتخاب تک موخر کرنے کا اصولی فیصلہ کیاگیا ہے،اب دیکھنا ہے کہ حاجی صاحب اپنا بیگ کس حد تک تھامیں رکھتے ہیں ۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 95625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.