دُنیا اور امتحانات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے" ۔ انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں(سورہ بقرہ155،156،157)
ـــــــــــــــــــــــــــــ

یہ دنیا کھیت ہے جس میں ہم اپنے لئے جہنم یا جنت بوتے ہیں ۔ ہم اپنے اعمال ہی سے جو چاہیں بنالیں، ہر کام اور ہر عمل کی انتہا کے کچھ اوقات ہوتے ہیں جس پر پہنچ کر عمل یا کام کا نتیجہ ملتا ہے کچھ اعمال کا نتیجہ اس دنیا میں ہے اور کچھ کا اس دنیا کے بعد یعنی اس دنیاوی اور ابدی زندگی کو ہم جو چاہے بنا لیں۔ یہ دنیا دارالاعمال ہے، اور وہ دنیا دارالاجر۔ اس دنیا میں چونکہ ہمیں اعمال ہی انجام دینے ہیں، اجر وہاں پانے کے لیے، یہاں کھیتوں میں ہل چلا کر بیج بونے ہیں ، آخرت میں فصل کاٹنے کے واسطے، وغیرہ وغیرہ۔

امتحان انسان کو پرکھنے کے لیے ہیں جب تک ہماری روح ہمارے جسم میں قید ہے اس وقت تک ہم خود کو اور اپنے اعمال کو ان امتحانوں سے پرکھ سکتے ہیں ناپ سکتے ہیں۔ میں جب صحت مند ہوں تو مجھے اپنے جسم کی صحت کے تقاضوں کو پورا کرنا لازمی ہے اگر میں صحت کے تقاضوں کو پورا نہیں کروں گا تو بیمار ہوجاؤں گا۔ آزمائش اور امتحان بظاہر سزا جیسے لگ رہے ہوتے ہیں مگر یہ انسان کو مزید تکامل دینے کیلئے، حوصلہ اور ہمت میں اضافہ کیلئے ہوتے ہیں تاکہ اگلےمراحل کی سختیاں جھیل جانے کے قابل ہوجائیں۔ کچھ امتحان انسان لیتے ہیں مثلا کسی نوکری یا ملازمت کیلئے امتحان ہوتا ہے، اسکول یا یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے امتحان ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ

اس زندگی کا ہر لمحہ ، ہر لحظہ ، ہر دقیقہ، ہر سیکنڈ اور ہماری ہر سانس امتحان ہے، بلکہ ہماری ہر ہر حالت بھی امتحان ہے، صحت اور بیماری دونوں امتحان ہیں، دولت اور غربت امتحان ہیں، جوانی اور بڑھاپا، طاقت اور کمزوری، فرصت اور مصروفیت غرض اس دنیا کی زندگی سوائے امتحان کے اور کچھ بھی نہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے اور وہ حاضر و ناظر سمیع و بصیر بھی دیکھ رہا ہے کہ ہم کب کیا کرتے ہیں۔ ہم وہی عمل انجام دیتے ہیں جس سے ہم کو عشق ہوتا ہے اور اس عشق کے پیچھے وہ معرفت ہوتی ہے جس نے ہمیں اس کام سے عشق و انسیت اور پھر اس کو انجام دینے پر ابھارا ہوتا ہے۔

ہمارا دین ایک مکمل ضابطہء حیات اسی لیے کہلاتا ہے کہ اس میں ہر صورتِ حال کے آداب اور تہذیب سکھا دئیے گئے ہیں، کہ کب کیا اور کیسے کرنا ہے۔ اور اس کے فوائد و نقصانات بھی سمجھا دئیے گئے ہیں۔
اس دنیا کی زندگی کے یہ امتحان اور آزمائشیں اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے، یہ اس کا انعام اور کرم ہے کہ ہمیں موت سے پہلے خود اپنی تصحیح کرنے کے مواقع فراہم فرماتا ہے۔

اس دنیا کی سماجی زندگی تکامل کیلئے چند بنیادی شعبوں پر منحصر ہے جیسے کہ علم و معرفت، ثقافت و تہذیب، معاشرت، معاشیات و سیاسیات۔ ہر انسان ان شعبوں سے شعوری یا لاشعوری طور پر وابستہ ہے۔ دین انسان کو ان شعبہ جات میں اخلاق حسنہ اپنانے کی تاکید کرتا ہے یعنی زندگی کو احسن انداز میں گذارنے کی تربیت دیتا ہے۔

جس طرح ماں کے پیٹ سے خاص مدت تک انسان تربیتی مراحل سے گذرتا ہے تاکہ وہ اس دنیا میں آنے کیلئے آمادہ و تیار ہو اسی طرح اس دنیا سے اگلی دنیا میں جانے کیلئے بھی خالق نے کچھ تربیتی مراحل مقرر کیے ہیں تاکہ انسان اس دنیا سے کامل دُنیا میں جانے کیلئے آمادہ و تیار ہوجائے جس کے واسطے اُس کی آزمائشیں اور امتحانات مقرر کیے اور آخر میں جنت یا جہنم جیسے نتائج کا حصول انسان کا مقدر بنا دیا۔مومن انسان کا ممعا نظر زیارت حضرت حجت (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ساتھ آخرت کا حصول ہونا چاہیے۔اس سفر میں جو کہ کسی کیلئے طولانی ہوسکتا ہے اور کسی کیلئے قلیل آزمائشیں اور امتحانات اُس کے خلوص کی دلیل بن کر اُس کا اگلے جہان میں درجہ اور مقام تعین کرتے ہیں۔

خدا وند تعالیٰ انسان کوکبھی معاشی امتحانات میں مبتلا کرتا ہے کبھی، روحانی و معنوی، کبھی دوسرے انسانوں کے ذریعے انسان کی آزمائش کی جاتی ہے کبھی عیال کی کثرت یا قلت سے۔ وغیرہ

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہارے سامنے تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل ایمان) کی سی صورتیں (اور شکلیں) آئی ہی نہیں۔ جنہیں فقر و فاقہ اور سختیوں نے گھیر لیا تھا۔ اور انہیں (تکلیف و مصائب کے) اس قدر جھٹکے دیئے گئے کہ خود رسول اور ان پر ایمان لانے والے کہہ اٹھے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی مدد یقینا نزدیک ہی ہے۔(سورہ بقرہ/214)
کبھی انسان کا سننا اور دیکھنا، محسوس کرنا اور بولنا آزمائش ہوتا ہے۔

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ (سورہ انسان/2)
یہ آزمائش دنیاوی لذتوں میں بھی ہے غمگینی میں بھی۔
اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔
(سورہ طحٰہ/131)
کبھی ظالم حکمرانوں کی صورت میں اس آزمائش اور امتحان کا وقت ہوتا ہے۔
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ (سورہ بقرہ/49)

کبھی ذلتوں اور پستیوں کے ذریعے آزمائش کی جاتی ہے کہ خالق دیکھے کہ کون ہے جو محنت و جستجو اور بلندہمتی سے کام لیتا ہے۔
(اے مسلمانو!) کیا تم کو یہ خیال ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک اللہ نے (جانچ کر) معلوم ہی نہیں کیا کہ تم میں واقعی مجاہد کون ہیں؟ اور نہ ابھی یہ معلوم کیا ہے کہ صابر اور ثابت قدم کون ہیں؟
(سورہ آل عمران/142)
ایک اور آیت ہے :
اور ہم یقینا تم سب کا امتحان لیں گے تاکہ یہ دیکھیں کہ تم میں جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون لوگ ہیں اور اس طرح تمہارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں۔(سورہ محمد/31)
رشتہ داروں گھر والوں، دوستوں وغیرہ کی طرف سے اذیتوں کا امتحان بڑا کڑا مرحلہ ہوتا ہے مگر اس معنوی اور پر برکت سفر کیلئے اس میں سرخرو ہونا بھی ضروری ہے۔
یقینا تم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ آزمائے جاؤگے اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور جو مشرک ہوگئے ہیں سب کی طرف سے بہت اذیت ناک باتیں سنوگے- اب اگر تم صبر کروگے اور تقوٰی اختیارکروگے تو یہی امورمیں استحکام کا سبب ہے۔
(سورہ آل عمران/186)
دوستیوں اور رفاقتوں کی آزمائش بھی اس سفر میں ضروری ہے۔
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔(سورہ توبہ/16)
اس سفر میں با فضیلت افراد اور متمکن افراد کے حسد سے بچنا بھی ضروری ہے یہ بھی ایک آزمائش ہے۔
وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اسی میں تمہاری آزمائش کرے بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔(سورہ انعام/ 165)
سیاسی فتنوں اور آزمائش کے دور کے حوالے سے امام علی  فرماتے ہیں:
"فتنہ اور آزمائش کے دور میں اونٹ کے دو سالہ بچے کی طرح رہو کہ نہ اس کی اتنی مضبوط پیٹھ ہوتی ہے کہ اس پر سواری کی جاسکے اور نہ اس کے ایسا تھن ہوتا ہے جس سے دودھ دوہا جاسکے۔
نیز اسی سیاسی آزمائشوں کے دور کی مناسبت سے ایک اور حدیث ہے۔
آخری زمانے کے حوالے سے بات ہورہی تھی تو امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اس دور میں بہترین آدمی اس زمانے میں وہ مومن ہوگا جو "النومتہ" ہوگا۔ آپ سے پوچھا گیا : امیر المومنین النومتہ کیاہے؟ تو آپ نے فرمایا" وہ شخص جو لوگوں کو تو پہچانے مگر لوگ اسے نہ پہچانیں۔"
اسلامی دستورات میں خدا کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں صبر اور حلم کی تاکید کی گئی ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :صبر مصیبت ہی کی مقدار میں نازل ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت جس نے زانو پر ہاتھ مارا اس کا عمل برباد ہوجاتا ہے۔(یعنی اجر ختم ہوجاتا ہے)
نا موافق زمانہ جہاں آزمائش ہے وہاں موافق زمانہ بھی آزمائش ہے۔ حدیث میں ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : زمانہ دو دنوں کا ہے ایک دن تمہارے موافق اور ایک دن تمھارے مخالف لہذا جب یہ تم سے سازگار رہے تو اکڑو مت اور جب یہ تمھارے لئے ناساز گار رہے تو صبر کرو۔
ایک جگہ اور فرماتے ہیں: تمہارے لئے صبر لازم ہے کیونکہ صبر کو ایمان کے ساتھ وہی نسبت ہے جو سر کو جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسا جسم بے کار ہے جس میں سر نہ ہو، اسی طرح اس ایمان کا بھی کوئی فائدہ نہیں جس کے ساتھ صبر نہ ہو۔ایک جگہ اور فرماتےہیں: شہوت پر صبر عفت اور پاکیزگی ہے، غصہ میں صبر، کامیابی ہے اور مصیبت میں صبر تقویٰ ہے۔
ایک دفعہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا: آزمائش اور مصیبت میں کیا فرق ہے، آپ نے فرمایا: آزمائش کی خدا کی طرف سے ہوتی ہے اور مصیبت انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ پوچھا گیا : اس میں فرق کیسے کریں؟ فرمایا: اگر کڑے وقت میں تم خدا کی یاد میں مشغول ہوتے ہو تو سمجھو آزمائش ہے اور اگر بے صبری دکھاتے ہو اور واویلا کرتے ہو اور خدا کو بھول جاتے ہو تو سمجھو مصیبت ہے۔
ہمارا رویہ آزمائشوں اور مشکلات کیلئے ہمیشہ فراخ دلانہ اور خوش آمدید والا ہونا چاہیے، مشکلات اپنے وقت پر جاکر خود بخود آسانی میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اس دوران ہم کو دعا و توسل میں مشغول رہنا چاہیے نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہماری کسی کام یا عمل سے ناواقفیت کی وجہ سے مشکلات آتی ہیں جتنا زیادہ ہمارا عملی تجربہ بڑھتا جائے گا ، مشکلات آسانی میں تبدیل ہوتی جائیں گی۔
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
(سورہ بقرہ/286)

تحریر: سید جہانزیب عابدی --- 14 رمضان المبارک 1436ھ - 1 جولائی2015ء
 
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.