بلوچی و پشتو ادب

بظاہر کچھ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جیسے پشتو و بلوچ زبانوں میں رزمیہ ادب یا علاقائی پیار ومحبت کے قصے ہی موجود ہیں ، لیکن دونوں زبان میں دیگر مشرقی اسلامی زبانوں کی طرح دیوان کی روایت ، غزلیات ، رباعیات ، قصائد جیسی جملہ مشہور اصناف بھی موجود ہیں کچھ غزلوں اورقصائد میں فارسی کا اثر بھی صاف نظر آتا ہے۔دونوں زبانوں میں خوداری ، انانیت ، قوم پرستی اورعسکریت کے گہرے نقوش ہیں۔ پاکستان سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ،میں پشتو اور بلوچ ادب کی ترقی کیلئے قابل قدر کام کیا گیا ہے صوبہ پنجاب نے تو جیسے پنجابی زبان کو مار دیا ہو۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پنجاب حکومت کو کوئی دشواری محسوس ہوا تو بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے مدد لے سکتی ہے۔یوں تو بر صغیر میں بولی جانے والی تمام زبانیں اپنی ایک ثقافت رکھتی ہیں لیکن اپنی قومی و علاقائی زبان کو اپنائے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ، عصر حاضر میں ایسی بے شمار مثالیں متعدد ممالک کی موجود ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں اردو کا نفاذ نہیں کیا گیا اب جاکر تین ماہ کا نوٹس اعلی عدلہ سے ملا ہے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا کے کردار کوو سراہا ہے۔

دوسری صدی عیسوی کی پشتو شاعری کا سراغ ایک قلمی نسخہ ٹپہ خز انہ سے ملتا ہے لیکن پشتو زبان کا قدیم ادب ، پشتو لوک گیت ہیں۔پشتو کی پہلی دریافت شدہ نظم "امیر کروڑ" کی تخلیق ہے جو756ء میں لکھی گئی، اس اعتبار سے امیر کروڑ کو پشتو شاعری کا "باوا آدم" سمجھا جاتا ہے۔شیخ بیٹن کو پختونوں کا جد امجد کہا جاتا ہے ، جبکہ بلوچی شعر و ادب میں کے آثار 644-1025 ء میں مل جاتے ہیں لیکن اس کے بعد آثار باقی نہیں رہے البتہ نویں صدی کے کچھ بلوچ شاعروں کے نام ملتے ہیں مثالاََ بشام کرد ، رابعہ و فرحی وغیرہ۔جبکہ پشتو میں ملک یار غر شین ، حماسی شاعری کا شاعر ہے جبکہ شیخ منی کی کتاب خدائے مینہ عارفانہ کلام پر محیط ہے، ملا مست آفندی کی تصنیف سلوک المفدات پشتو قدیم ادب کی مشہورکتاب ہے ۔مرزا خاں انصاری نے سب سے پہلے پشتو نظم کو تصوف کی روشنی سے روشناس کرایا، دوسرے شعرا ء میں ارزانی ، مخلص اور علی محمد ہیں ۔ گوکہ پشتو کا نثری سرمایہ شعری سرمایہ کے مقابلے میں کم ہونے کے باوجود قابل قدر ہے جس نے اپنے دور کے تہذیبی اقدار ، معاشرتی مزاج اور مذہبی تصورات و متعقدات کو فکر و فن کا موضوع بنایا گیا، ابتدائی عہد کے نثر نگاروں میں سیلمان اکو کی کتاب تزکرۃ الاولیا ، ، محمد بن النسبتی کی تاریخ سوری ، شیخ کتہ کی ارگونے پختانہ ، شیخ ملی کی د شیخ ملی دختر ، خان جہاں لودھی کی مراۃ الاافاغنہ اور مجو خاں رانی زئی کی پشتو قوم کی تاریخ ، ابتدائی نثر کا بہترین نمونہ ہیں۔پیر رو خان اس عہد کی سب سے بڑی شخصیت ہے وہ علمی ، ادبی نثر لکھنے والوں کا پیش رو سمجھا جاتا ہے ،اس نے پشتو نثر کو ترقی یافتہ بنایا اور ایک نئے طرز فکر کی بنیاد رکھی ۔ جبکہ بلوچوں میں مہنا سور ہیانی معنوی لحاظ سیصوفیانہ خیلات کا شاعرہے۔ مرزا خاں انصاری پشتو مکتبہ خیال کا اہم مصنف دیگر نثر نگاروں میں اخوند دورریزہ ، شیخ بستان ، اﷲ بالکونری اور کریم دار و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ بلوچ ادب میں 1488-1550ء اس لئے اہم قرار پاتا ہے کہ اس دور میں کئی رومانی داستانیں مثالَ۔ حانی اور شہ مرید ، دوستیں اور شرین ، بیرگ و گراناز اور شہدا دوماہ ،وجود میں آئی۔

پشتو ادب کے درمیانی دور 1638-1772میں خوشحال خان خٹک کا بڑا اثر ہے جنھیں "بابائے پشتو "کہا جاتا ہے، خوشحال خان بابا نے پشتو غزل کا مقام بہت بلند کیا ان کی تصانیف و تالیف کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔جن میں بازنامہ ، فضل نامہ ، دستار نامہ ، ہدایہ اور آئینہ معلوم و معروف ہیں۔ جبکہ ان کا بیٹا عبدالقادر خان خٹک ساٹھ کتابوں کے مصنف و مولف تھے ،گلستان سعدی اور یوسف زلیخا کا پشتو ترجمہ بھی انھوں نے کیاجبکہ معروف عاشقانہ داستان آدم خان در خانی کو نظم کا جامہ پہنایا جبکہ خوشحال کے دور اور بیٹوں صدر خان خٹک اور سکند خان خٹک نے بالترتب نظامی جنگوی کی خسرو و شریں اور محمد بن احمد العطار تبریزی کی کتاب کا ترجہ مہر و مشتری کے نام سے کیا۔جبکہ رحمان بابا اپنے دور کا مورخ اور ترجمان تھا اور شعر و فکر کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔عشق و محبت ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔رحمان بابا کے حلقہ اثر میں بہت شاعر گذرے ہیں۔ عبدالحمید مہمند پشتو شاعری میں ایک نئے مکتب کا موسس ہے ، فارسی مثنوی وقصہـ" شاہ و گدا ـ"کا پشتو مثنوی میں ترجمہ کیا ، قلندر آفریدی کی شاعری سرتاپا عشق ہے ، جبکہ احمد شاہ بابا جو" احمد شاہ ابدالی" کے نام سے مشہور ہیں صحیح معنوں میں خوشحال خاں بابا کا جانشین سمجھا جاتا ہے، ان کا دایون نواے احمد کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ جبکہ بلوچی لوک گیت عوامی زندگی کے ترجمان ہیں ، "لوریاں "اور دستک ـ" بھی بلوچی شاعری کے اصناف ہیں ، پندرہویں صدی سے پہلے کوئی شعر بلوچی میں نہیں ملتا۔اس عہد کے دیگر پشتو شعرا میں امحزاﷲ خان مہمند، کاظم خان شیدا اور علی خان ہیں۔ جبکہ متاخرین کا دور ایک جنگ وجدال کا دور تھا جس کی وجہ سے اس کا اثر شعر و ادب پر بھی پڑا۔اور کلاسیکی شاعری ماند پڑ گئی ، اسکی جگہ عوامی گیتوں آزادی ، وطن اور شجاعت کے کارناموں کا اظہار بن گیا۔ بلوچی ، پشتو شاعری میں ایسی نظموں کی تعداد بھی کافی ہے جو بلوچیوں کی قبائلی چھڑپوں کی داستانیں ہیں لیکن غزل اپنی ترقی کے مدارج برابر طے کرتی رہی۔ پشتوغزل گو شاعر میں تیمور شاہ جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا اردو اور فارسی کے نو دیوان بھی انھوں نے ورثے میں چھوڑے۔پیر محمد کاکڑ ، محمد رفیق ، حافظ رحمت اﷲ ، نواب محبت خان ، سعادت یار خان ، دوست محمدی صاحبزادہ ، قاسم علی آفندی ، نواب رحمت خان ، بیدل ، میآن نعیم،حافظ الپوری ، احمد کلا چوری ، عب العلی اخوانزہ ، نورلادین ، ملا مقصود اور حافظ عبدالعیم قابل ذکر شاعر و ادیب تھے جنھوں نے پشتو نثر و شاعر کی ترقی کی راہ میں اپنے کارناموں سے ایسی تصانیف تحریر کیں جو سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔مولوی احمد نے پشتو نثر کا قافیہ اور سجع وغیرہ سے آزاد کرکے سادہ آسان زبان میں لکھنے کی داغ بیل ڈالی۔جبکہ منشی احمد خان نے ہنسہ دغہ اور د قصہ خوانئی کپ لکھ کر پشتو نثر کو جدید سے جدید تر بنا دیا ، میاں نعمان الدین نے پشتو زبان کی ترویج و ترقی میں بڑا حصہ لیا ان کی اہلیہ زنیت جہاں اور بھانجے محمد یوسف بھی اچھے ادیب تھے۔ دوسرے نمایاں نثر نگاروں میں غفران الدین ، امیر احمد انصاری اور احمد شای رضوانی ہیں۔

جدید دور 1900کے بعد میں پشتو و بلوچ ادب نے اپنے ارتقا کے کئی منازل طے کرچکا تھا ، اب نئی سیاسی تحریکوں کے ساتھ علمی و ادبی میدان میں بھی نو ڈالی گئی ، انگریزی زبان اور مغربی ثقافت کے اثرات نے دونوں زبان کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ، اس دور کے شعرا و ادبا نے غم دوسش کیساتھ فکر فردا کو بھی موضوع قلم بنایا اور اس طرح دونوں زبانیں ادب جدید دور کی فکر و نظر کا ترجمان بن گئیں۔دور جدید کے شعرا میں غلام محمد پوپائی اور سید راحت خیلی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار مانے جاتے ہیں۔ راحٹ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پشتو تراجم کے ذریعہ اقبال کے افکار کو پشتو بولنے والوں کو متعارف کرایا۔جبکہ جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اعلی پایہ کے اہل قلم اور محقق پیداکئے۔پشتو ادب میں صحافت کی ابتدا1905کے لگ بھگ ہوئی سب سے پہلے ہفتہ وار" افغان" کے نام سے سید مہدی علی شاہ نے پشاور سے جاری کیا جو پشتو اور اردو دونوں زبانوں سے شائع ہوتا تھا ، سید راحت زخلی موجودہ دور کے ممتاز صحافی مانے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچوں میں ایک جوش اور ایک نیا جذبہ پید اہوا اور قیام پاکستان کے بعد بلوچی زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اس کا اثر یہ ہوا کہ بلوچی ادب تحریر کی شکل میں ظاہر لگا۔مقصدیت کو مد نظر رکھے جانے لگا۔گل نصیر خان بیک وقت اردو اور بلوچ میں شاعری کرتا ہے یہ بلا کا شاعر تھا جس نے ہیت میں کامیاب تجربے کئے اس کے کلام کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔مرادساحر ،میر عسی ، نوحی، اسحاق شمیم کے کلاموں میں وطن سے محبت کا جذبہ ملتا ہے جبکہ بلوچ نثر ادب کی ابتدا قیام پاکستان سے پہلے ہوچکی تھی۔جس کے بعد بلوچ نثر نے کافی ترقی کی ، شیر گل خان تْسیر محمد حسین عنقا ، قاضی عبدالرحیم صابر ، خیر محمد ندوی اور ثہور شاہ وغیرہ نے بلوچ نثر کی بنیاد ڈالی۔ موجودہ دور میں نثر نگاروں کی تعداد کافی ہے ان میں قابل ذکر عبدالرحیم ، ن غور ، میر مٹھا خان ، ملک محمد رمضان ، عبداﷲ جمال دینی، امان اﷲ ،محمد بخشی، شاہ بیگ رند اور ایم بیگ بلوچ ہیں ، افنی نویسوں اور ڈرامہ نگاروں میں نعمت اﷲ گحگی، نسین دشتی ، عسمت جمال دینی ، رحیم صادق اوعطاشاد شامل ہیں جن کی بدولت بلوچی زبان و ادب ترقی کی زبان پر گامزن ہے۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ نئی نسل ا سلاف کی راہ پر چلتے ہوئے ادب کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک مانتے ہیں کہ وہ قومیں اداب کو ترقی نہیں تقرقی نہیں دیتں وہ قومیں اور ان کی زبان فنا ہوجاتی ہیں، ادب کے بغیر کوئی قوم اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ہمیں عبدا لوحد آزات ، جمالدینی ، میر عاقل خان مینگل ، گل نصیرجیسے لوگوں کی بدولت بلوچ زبان کے اداب اور صحافت کو ملنے ولاے اہم مقام کی قدر کرنی چاہیے۔اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔قومیں اپنی روایات و ثقافت کی بنا پر ہی زندہ رہتی ہیں۔ مختصر کالم میں تمام تاریخ لکھنا ناممکن ہے، تھوڑے کو بہت جانیں

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.